’’ دین کے مسائل ‘‘(part 02 C)

’’قضاء نماز پڑھنے کا طریقہ‘‘

حضرت عبدُاللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ:

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ صبح تک سوتا رہا اور نماز کے لیے نہ اٹھا توآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اس شخص کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے (بخاری ج۱ص۳۸۸ حدیث۱۱۴۴) ۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: (یہ) کسی منافِق کا واقِعہ ہے کہ جو فجر میں نہ آتا تھا۔ معلوم ہوا کہ نماز ِفجر میں نہ جاگنے کی بڑی نحوست(یعنی بدنصیبی اور محرومی) ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۲۵۴)

واقعہ(incident): قَبر میں آگ

ایک شخص کی بہن کا انتقال ہوگیا ۔ جب وہ اسے دَفن کر کے واپس آیا تو اُسے یاد آیا کہ رقم کی تھیلی قَبْر میں گرگئی ہے ۔ وہ اپنی بہن کی قَبْر پر دوبارہ آیااوراُس کو کھودا( dug up کیا) تاکہ تھیلی نکال لے ۔ اُس نے دیکھا کہ بہن کی قَبْر میں آگ ہے، وہ پریشان ہو گیا اور فوراً قَبْر پر مٹّی ڈالی پھر روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا اور پوچھا :پیاری امّی جان!میری بہن کے اعمال کیسے تھے؟وہ بولی: بیٹا کیوں پوچھتے ہو؟عرض کی:میں نے اپنی بہن کی قَبْر میں آگ دیکھی ہے ۔یہ سُن کر ماں بھی رونے لگی او رکہا: افسوس!تیری بہن نَماز میں سُستی کیا کرتی تھی اورنَماز کاوقت گزر جانے کے بعد نماز پڑھا کرتی تھی۔(مُکاشَفَۃُ الْقُلو ب ص۱۸۹ دارالکتب العلمیہ بیروت، مُلخصاً)
جب کبھی کوئی ایسا معاملہ ہو کہ قبر کھولنے کی ضرورت لگ رہی ہو تو کسی عاشق رسول مُفتی صاحب کی اجازت کے بغیر ہرگز قبر نہ کھولی جائے۔ مزید (more)کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مردہ خواب میں آ کر بتاتا ہے کہ میں زندہ ہوں !مجھے نکالو ! یا کہتا ہے: میری قبر میں پانی بھر گیا ہے، مجھے یہاں پریشانی ہے!میری لاش کسی اور جگہ لے جاؤ! وغیرہ، چاہے بار بار اِس طرح کے خواب نظر آئیں ، خوابوں کی وجہ سے’’ قبر کھولنا ‘‘جائز نہیں ۔(فیضان نماز ص۳۶۹ مُلخصاً)

نماز قضا کرنا کسے کہتے ہیں؟:‏

نماز کو اس کا وَقْت گُزَار کر پڑھنے کونماز قضا کرنا کہتے ہیں۔ مثلاً نمازِ ظُہْر کے وَقْت میں سستی کی یا کسی بھی وجہ سے ظُہْر کا پورا وَقْت خَتْم ہو گیا اور نمازِ ظُہْر نہ پڑھی پھر عَصْر کا وَقْت شروع ہونے کے بعد یا کسی اور وَقْت میں ظہر کی نماز پڑھی تو اسے نماز قضا پڑھنا کہیں گے۔

نماز قضا کرنے کے مسائل:‏

{1}شَرْعِی اجازت کے بغیر نماز قضا کر دینا بہت سَخْت گُنَاہ ہے۔ اس شخص پر فرض ہے کہ اس نمازکی قضا پڑھے اور سچے دل سے تَوْبہ کرے۔ توبہ اُسی وقت صحیح ہے کہ(جو نماز چھوڑی تھی، اُس کی ) قضا پڑھ لے۔ قضا نہ پڑھے اور توبہ کرتا رہے تویہ توبہ صحیح نہیں ہے کہ یہاں دو باتیں لازم تھیں(۱) پہلی:نماز پڑھنا(۲) دوسری:وقت میں پڑھنا۔جو صرف توبہ کر تا ہو اور نماز نہیں پڑھتا تو جو نماز اس پر لازم تھی، اس کو پڑھنا تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ سے ہی نہ رُکا، تو توبہ کہاں سے ہوئی؟ حدیثِ پاک میں فرمایا: گناہ پر رہ کر توبہ کرنے والے کی مثال،ایسی ہے جو اپنے ربّ سے مذاق کرتا ہے۔(مَعَاذَاللہ!۔ یعنی اللہ کریم ہمیں اس سے بچائے) )بہارِ شریعت، ح ۴ ، قضا نماز کا بیان، ۱/۷۰۰، ملتقطًا(

{2} جس پر چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاباقی ہو، تو ان نمازوں کو جلد سے جلد پڑھنا واجب ہے مگراپنی ، اپنے گھر والوں کی، اپنے بَچّوں کی ضرورت پوری کرنے کی وجہ سے تاخیر(delay کرنا) جائز ہے۔ کاروبار بھی کرے اور جیسے جیسے وقت ملے اس میں قضا پڑھتا رہے یہاں تک کہ(سب نمازیں) پوری ہو جائیں۔ )بہارِ شریعت، ح۴، قضا نماز کا بیان، ۱/ ۷۰۶ بالتغیر(

{3} قضا نمازیں پڑھنا، نفل نماز پڑھنے سے اہم(important) ہے یعنی جس وقت نفل نماز پڑھتا ہے، انھيں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھےتا کہ جلدی جلدی فرض نمازیں پوری ہو جائیں ۔ہاں! تراویح اور بارہ(۱۲) رکعتیں سنّت مؤکدّہ (یعنی فجر کی دو(۲)، ظہر کے فرض سے پہلے کی چار(۴)، بعد کی دو(۲)، مغرب کی دو(۲)،عشاء کی دو(۲) 12=2+2+2+4+2)نہ چھوڑے۔ )بہارِ شریعت، ح۴،ص، مسئلہ ۳۶، مُلخصاً(

{4} اِمامِ اَہْلِ سُنَّت، احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلیَہ کچھ اس طرح فرماتےہیں : اگر کسی پر تیس(30) یا چالیس(40) سال کی نمازیں قضا پڑھنا باقی ہیں، اُس نے اپنے اُن ضروری کاموں کے علاوہ (other)جن کے بغیر گزارہ نہیں ، دیگر کاروبار اور کام وغیرہ چھوڑکر قضا نمازیں پڑھنا شرو ع کیں اور پکا اِرادہ (firm intention)کرلیا کہ سب نمازیں پڑھ لے گا! اب فرض کیجئے! (suppose) ا ِسی طرح قضا پڑھتے پڑھتے، ایک مہینا یا ایک دن کے بعد ہی اُس کا اِنتقال ہوجائے تو اللّٰہ کریم اپنی رَحمت سے اس کی سب نمازیں ادا کر دے گا(یعنی اس پر کوئی نماز باقی نہیں رہے گی) کیونکہ خود اللّٰہ کریم فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اور جو اپنے گھر سے اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے (پ۵، سورۃ النساء، آیت:۱۰۰) (ترجمہ کنز العرفان)۔ اس آیت میں بغیر کسی شرط (precondition) کے فرمایا ، گھر سے اگر ایک ہی قدم نکالا اور موت آگئی تو اُس کے لیے پورے کام کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ مکمل ثواب پائے گا۔ اللّٰہ کریم نیّت دیکھتا ہے اور ساری بات اچّھی نیّت کی ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت ص، ۱۲۶، مُلخصاً)

{5} قضانَمازیں چُھپ کر پڑھے لوگوں کو ( یا گھر والوں بلکہ قریبی دوستوں کو بھی ) نہ بتائے ( مَثَلاً یہ مت کہے کہ میری آج فَجر کی نمازقضا ہو گئی یا میں قَضائے عمری پڑھ رہا ہوں وغیرہ ) کہ گناہ کا اِظہار(مثلاً دوسروں کو اپنے گناہوں کا بتانا)بھی مکروہِ تحریمی وگناہ ہے (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۵۰) ۔فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:‏ آدمی کی بے باکی(یعنی اللہ کریم کے خوف کی کمی ) سے یہ ہے کہ رات میں اس نے کوئی(گناہ کا) کام کیا اور اللہ کریم نے اس کو چھپایا اور یہ صبح کو خود کہتا ہے، کہ آج رات میں میں نے یہ کیا، اللہ کریم نے اس پر پردہ ڈالا تھا اور یہ شخص اُس پردے کو ہٹا دیتا ہے ( صحیح البخاري،کتاب الأدب،الحدیث:۶۰۶۹،ج۴،ص۱۱۸) ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلیَہ کچھ اس طرح فرماتےہیں : جوگناہ چھپ کر کیا،اُس کے بارے میں دوسرے کو بتانا، چھپ کر کرنے والے گناہ سے بھی بُرا گناہ ہے۔(فتاوی رضویہ ، ۲۱ / ۱۴۴مُلخصاً)

{6} اگر لوگوں کے سامنے وِتر کی نماز، قضا پڑھے تو(تیسری 3rd رکعت میں) تکبیرِقنوت کیلئے ہاتھ نہ اُٹھائے ۔

{7} رمضان المبارک کے آخِری جُمُعہ میں کچھ لوگ جماعت کے ساتھ قضائے عُمری (یعنی ساری زندگی کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کی نیّت سے دو(2) رکعت)پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی بھر کی چھوٹی ہوئی نمازیں اِسی ایک نَماز سے ادا ہو گئیں یہ باطِل (اور غلط) ہے ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۰۸) بلکہ یہ بُری بدعت ہے۔(فتاوی رضویہ،۸/۱۵۶ ملخصاً) ہاں!عُلَمائے کِرام یہ فرماتے ہیں کہ : جمعۃُ الوَدَاع (یعنی رمضان المُبَارَک کے آخری جُمُعے)کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ (12)رکعت نفل دو(2) دو رکعت کی نیّت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیتُ الکرسی اور تین بار ’’ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ‘‘ اور ایک ایک بار ’’ سورۃُ الفلق‘‘اور’’ سورۃُالناس‘‘ پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ ،إنْ شَاءَاللہُ الْکَرِیْم!معاف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔(اسلامی زندگی ص۱۳۵)

{8} جس نے کبھی نَمازیں ہی نہ پڑھی ہوں پھر اللہ کریم کی رحمت سےنمازیں پڑھنا شروع کیں اور اب زندگی بھر کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا پڑھنا چاہتا ہے تو:

(۱) وہ جب سے بالِغ(grown-up) ہوا ہے اُس وَقت سے نَمازوں کا حساب لگائے(مثلاً چاند کی تاریخوں کے مطابق چودہ(14) سال کی عمر میں بالغ ہوا اور پچیس(25) سال کی عمر میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں تو گیارہ(11) سال کی نمازیں قضا پڑھے)۔

(۲)اور بالغ ہونے کا وقت یادنہیں تو اِحتیاط (caution) اِسی میں ہے کہ ہجری سِن کے حساب سے عورت نو(9) سال کی عُمر سے حساب لگائے(مثلاً چاند کی تاریخوں کے مطابق پچیس(25) سال کی عمر میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں تو اس میں سے نو(9) سال نکال دے ، باقی سولہ(16) سال کی نمازیں قضا پڑھے)۔

(۳) اور مَرد بارہ (12)سال کی عُمر سے نَمازوں کا حساب لگائے(مثلاً چاند کی تاریخوں کے مطابق پچیس(25) سال کی عمر میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں تو اس میں سےبارہ(12) سال نکال دے ، باقی تیرہ(13) سال کی نمازیں قضا پڑھے)۔

{9}قَضائے عُمری میں یوں بھی کر سکتے ہیں کہ پہلے تمام فجر یں پڑھ لے پھر تمام ظُہر کی نَمازیں اسی طرح عصر ،مغرِب، عشاء کے فرض اور وتر پڑھ لے۔

{10}اگر سفر کی حالت میں نماز چھوٹ گئی تو گھر آکر بھی مسافر والی نماز قضا پڑھیں گے۔ اسی طرح جو نماز اپنے شہر میں چھوٹ گئی اور سفر کی حالت میں اس کی قضا پڑھی تو قضا میں پوری نماز پڑھیں گے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۲۱ مُلخصاً)

قَضا ئے عُمری کا طریقہ(حنفی):

{1 }ہر دن کی بیس(20) رَکْعَتوں کی قضا پڑھنی ہوتی ہیں ۔ دو (۲) فرض فجرکے، چار(۴) ظہر، چار(۴) عصر، تین(۳) مغرِب ، چار (۴) عشاء کے اور تین(۳) وِتر ۔

{2}نیّت اِس طرح کیجئے،مَثَلاً: سب سے پہلی فَجرجو مجھ سے چھوٹی اُس کی قَضا پڑھتا ہوں۔ہرنَماز میں اِسی طرح نیّت کیجئے(کہ سب سے پہلی جو مجھ پر ہے ) ۔

{3}جس کی بہت زیادہ نَمازیں چھوٹی ہیں وہ آسانی کیلئے اگر یُوں بھی قضا پڑھے تو جائز ہے کہ:

(۱) پہلی آسانی یہ ہے کہ: ہر رُکوع اور ہرسَجدے میں تین(3) تین(3) بار ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ‘‘،’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ‘‘کی جگہ صرف ایک(1) ایک(1) بار کہے مگر یہ ہمیشہ اور ہر طرح کی نَماز میں یاد رکھنا چاہئے کہ جب رکُوع میں پوراپَہنچ جائے اُس وقت سُبْحَان کی’’سین ‘ ‘ شُروع کرے اور جب عظیم کا ’’ میم‘‘ ختم کر چکے اُس کے بعد رُکوع سے سر اٹھا ئے ۔ اِسی طرح سَجدے میں بھی کرے۔ اور

(۲) دوسری آسانی یہ ہے کہ: فرضوں کی تیسری (3rd )اور چوتھی (4th )رَکْعَت میں اَلحَمْدُ لِلّٰہکی جگہ صرف’’ سُبْحَانَ اللہ ‘‘ تین (3)بار کہہ کر رُکوع کر لے ۔ مگر وِتر کی تینوں رَکْعَتوں میں اَلحَمْدُ لِلّٰہ (مکمل) اور(دوسری) سُورت (یا بڑی آیت وغیرہ) ضَرور پڑھنی ہیں۔

(۳) تیسری آسانی یہ ہے کہ:قعدہ اَخیرہ میں تشّہد یعنی اَلتَّحِیَّات کے بعد دُرُود شریف اور دعا کی جگہ صِرْف ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِہ‘‘ کہہ کر سلام پھیر دے ۔

(۴) چوتھی آسانی یہ ہے کہ: وِتْر کی تیسری رَکْعت میں دعائے قُنُوت(یعنی اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ۔۔ ) کی جگہ اللہُ اَکْبَر کہہ کر تین مرتبہ ’’ ربِّ اغُفِرُلِی‘ ‘ کہے ۔ (مُلَخَّص اَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ ص۱۵۷) (قضاء نمازوں کا طریقہ ص۱۰ تا ۱۳ مُلخصاً) یاد رہے: اس طریقے کی عادت ہر گز نہ بنائی جائے گی۔جس نماز میں سنّتیں اور مستحب چھوڑ دیے گئے ہوں، چاہے غلطی سے ہی چھوٹ گئے ہوں، ایسی نماز دو بارہ پڑھنا مُستحب ہے۔(بہارِ شریعت ج۱،ص۷۰۹، مسئلہ ۵مُلخصاً)

’’ایسے شخص کے مسائل جس پر چھ(6)سے کم نمازیں قضاء ہوں‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جو جا ن بوجھ کر ایک نَماز چھوڑ دیتا ہے اُس کا نام جَہَنَّم کے اُس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے کہ جس سے وہ (دوزخ میں) جائےگا۔ (حلیۃ الاولیاء ج۷ص۹۹۲حدیث ۱۰۵۹۰) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں :جس نے جان بوجھ کر(deliberately) ایک وَقت کی نَماز چھوڑ دی تو اس کی سزا ’’ہزاروں سال جہنّم میں رہنا‘ ‘ ہے، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ پڑھ لے۔ مسلمان اگر اُس سے بالکل الگ ہو جائیں ، اُس سے بات نہ کریں ،اُس کے پاس نہ بیٹھیں تو ضرور اُس بے نمازی کو دنیا میں یہ سزا دی جانی چاہیے۔(فتاوٰی رضویہ ج ۹ص۱۵۸تا ۱۵۹ مُلخصاً)بے نمازی سے دور رہنا چاہیے، اللہ کریم فرماتا ہے،

ترجمہ (Translation) : اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ (پ ۷، سورۃ الانعام، آیت ۶۸) (ترجمہ کنز العرفان) ۔عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں: یہاں ظالموں سے مراد کافر، بدعت کرنے والے یعنی گمراہ لوگ اور فاسق یعنی گناہ کرنے والے(مثلاً بے نمازی) ہیں ۔ (تفسِیرات اَحمدیہ ص۳۸۸)

واقعہ(incident): نماز چھوٹ گئی

حضرت عبداللہ بن مرزُوق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شروع میں خلیفہ(caliph)کے دربار(court)میں ہوتے تھے۔ایک دن نشے کی حالت میں ان کی نماز چھوٹ گئی تو ان کی ایک کنیزآئی( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو مرد ملا اُسے غلام کہتے تھے اور جو عورت ملی، اُسے کنیز کہتے تھے، آج کل غلام اور کنیزیں نہیں ہوتیں ) اور اس نے آگ کا ایک انگارہ (embers of fire)اٹھا کر اُن کے پاؤں پر رکھ دیا تو تکلیف کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھ کُھل گئی۔ کنیز بولی: جب آپ دنیا کی آگ برداشت(endure) نہیں کرسکتے تو آخرت کی آگ کیسے برداشت کر پائیں گے؟ آپ نے اسی وقت اُٹھ کر تمام نمازیں پڑھیں ، سب مال ودولت اللہ کریم کی راہ میں صدقہ کردیا اور سبزی بیچنے کا کام شروع کردیا۔ حضرت فضیل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور حضرت سفیان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ سر کے نیچے اینٹ(brick) رکھ کر سورہے ہیں ۔دونوں نے ان سے کہا کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو چھوڑ دیتا ہے تو اللہ کریم اسے اس کا اچھا بدلہ(good reward) دیتا ہے، آپ نے اللہ کریم کے لئے جو کچھ چھوڑا تو اس کے بدلے میں ، آپ کو کیا ملا؟ حضرت عبداللہبن مرزوق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کہا: (میرے لیےبدلہ یہ ہے کہ اللہ کریم کی طرف سے ) میں جس حال میں ہوں اس پر(اللہ کریم سے) راضی اور خوش رہوں ۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص۱۲۹،۱۳۰ مُلخصاً)

صاحبِ ترتیب کون؟:

۱) جس کی چھ(6) نمازیں نہ چھوٹی ہوں۔
)اور اگر چھ(6)یا زیادہ نمازیں چھوٹ گئیں ہوں تو اس نے ساری قضاء پڑھ لی ہوں، یہ شخص صاحبِ ترتیب ہے (تفصیل کے لیے بہارِ شریعت ح۴ ، قضاء نماز کا بیان،ص۶۵۳، ۷۰۶،۷۰۵ پڑھ لیجیے)۔نوٹ: اگر کسی کی ایک نماز بھی چھوٹی ہو تو ، شریعت کی اجازت کے بغیر اس کی قضا نہ پڑھنے والا یا قضا پڑھنے میں دیر کرنے والا گناہ گار اور جہنّم کی طرف جانے کا سامان کرنے والا ہے۔

صاحبِ ترتیب کے مسائل:

{1} (ایسا شخص جس پر چھ (6) سے کم نمازیں قضاء ہوں، جب چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء پڑھیں گے تو)پانچوں فرضوں میں اور عشاء کے فرض کے بعد وتر کی نماز ترتیب(sequence) سے ہونا ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے۔
{2}ایک(1) نماز چھوٹ گئی یا دو(2) یا تین(3) یا چا ر (4)یا پانچ(5) نمازیں اور اس کے ساتھ ابھی وقت کی نماز بھی پڑھنی ہے، مثلاً عصر کا وقت ہے اورظہر یا فجر اور ظہر کی نماز چھوٹی تو فرض ہے کہ پہلے چھوٹی ہوئی ترتیب (sequence) کے ساتھ پڑھے پھر عصر پڑھے،اسی طرح(جس نے عشاء کے فرض تو پڑھ لیے تھے مگر وتر نہیں پڑھے تھے اور فجر کی نماز کا وقت آگیا یعنی) وتر قضا ہوگئے تو اُسے پڑھ کر فجر کی نماز پڑھے۔ اگر یاد ہوتے ہوئے عصر کی نماز ظہر سے پہلے یا فجر کی نماز وتر سے پہلے پڑھ لی تو یہ جائز نہیں ہے۔ (بہار شریعت،جلد۱،صفحہ۷۰۳،مسئلہ۱۸، مُلخصاً)
{3}چھ(6) نمازیں جس کی قضا ہو گئیں کہ چھٹی(6) کا وقت ختم ہوگیا اس پر(اوپر بتائی ہوئی) ترتیب فرض نہ رہی(یعنی اب اس وقت کی نماز، قضا نمازوں سے پہلے پڑھ سکتا ہے مگر جلد سے جلد قضا پڑھ لینا ضروری ہے)۔(صفحہ۷۰۵،مسئلہ۲۹)
{4}(جس کی چھ(6) سے کم نمازیں چھوٹی ہیں)اگر اتناوقت نہیں ہے کہ اس وقت کی اورپچھلی چھوٹی ہوئی نمازیں سب کی سب پڑھ لے تو اِس وقت کی پڑھے اور پچھلی میں سے جتنا وقت ہے، اُتنی پڑھے(یعنی اس صورت (case) میں پچھلی ترتیب (sequence)کے مطابق پڑھنا لازم نہیں ہے)، مثلاً عشا کی نماز اور وتر چھوٹ گئے اور فجر کا وقت بھی ختم ہونے کے قریب ہے،اگر صرف پانچ(5) رکعت کا وقت ہے تو وتر اور فجر پڑھے،اگر چھ(6) رکعت کا وقت ہے تو عشا اور فجر کی نمازپڑھے۔(شرح وقایہ)(صفحہ۷۰۳،مسئلہ۱۹)
{5} (جس کی صرف ایک(1) نماز چھوٹی ہو اور)اگر اتنا وقت ہے کہ مختصر(short) نمازپڑھے تو دونوں پڑھ سکتا ہے اور عمدہ طریقہ(سنّتوں اور مستحب ) سے پڑھے تو دونوں نمازوں کا وقت نہیں ہے تو اس صورت (case) میں بھی ترتیب (sequence) فرض ہی ہے اور جہاں تک جائز ہو(یعنی فرائض اور وقت ہو تو واجبات کے ساتھ)مُختصر (short) نماز پڑھے ۔ (ص۷۰۳،مسئلہ۲۶)یاد رہے: (۱)فجر کی نماز کا سلام، فجر کے وقت کے اندر پھیرنا لازم ہے، ورنہ نماز نہیں ہوگی(۲)نماز مختصر کرنے میں فرض چھوڑ دیے تو بھی نماز نہیں ہوگی (۲)اگر نماز میں واجبات چھوڑ دیے تو نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔اس وقت میں(time کی کمی کی وجہ سے واجبات چھوڑ کر ) جو نماز پڑھی گئی وہ اس لیے پڑھی ہےتاکہ نماز چھوڑنے کا گناہ نہ ہو اور بعد میں جو پڑھنی ہے، وہ اس لیے پڑھنی ہے تاکہ نماز کی کمی کو دور کیا جائے۔
{6} (جس کی چھ(6) سے کم نمازیں چھوٹی ہیں، اُسے)قضا نماز یاد ہی نہ رہی اوراُس وقت کی نماز پڑھ لی،بعد میں چھوٹی ہوئی نمازیاد آئی تو جس نماز کا وقت تھا اور اُسے پڑھ لیا تھا تو وہ نماز ہوگئیعَنْہُمَا اگروقتی نماز پڑھنےکے درمیان میں (in between) چھوٹی ہوئی نمازیاد آگئی تو وقتی نماز نہیں ہوگی۔ (صفحہ۷۰۵،مسئلہ۲۶)
{7} جس کی چھ(6) سے کم نمازیں قضا ہوئی ہیں، اُس کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اُسے اپنی قضا نمازیں یاد ہوں اور نماز کا وقت ختم ہونے میں اتنا وقت ہو کہ وہ قضا نماز پڑھ کر وقتی نماز پڑھ سکتا ہو پھر بھی قضا پڑھے بغیر اُس وقت کی نماز پڑھ لے تو اُس وقت کی نماز نہیں ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بالکل ہی قضا ہو گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز موقوف ہے یعنی اگروقتی پڑھتا گیا اور قضا بالکل بھی نہیں پڑھی پھر جب دونوں(یعنی قضا اور وقتی ) مل کر چھ(6) نمازیں ہو جائیں گی یعنی چھٹی کا وقت ختم ہو جائے گا تو جو جو نماز وقت میں پڑھ لی تھیں ، وہ نماز صحیح ہو گئیں( اورجو قضا، پڑھنے سے رہ گئی تھی ، اب صرف وہ نماز پڑھ لے)۔ اور() اگر ان چھ وقتوں کے درمیان میں(قضا پڑھنے کا وقت ہونے کے ساتھ قضا یاد بھی ہو پھر بھی قضا پڑھے بغیر) وقتی نماز پڑھ لی اور اُ س کے بعد اُسی نماز کے وقت میں یا بعد والے وقت میں (یعنی چھ نمازوں کے درمیان میں) قضا نماز بھی پڑھ لی تو سب گئیں یعنی(جتنی فرض نمازیں پڑھی تھیں، چاہے وقت میں چاہے قضا سب) نفل ہوگئیں، سب (فرض نمازوں)کو (قضا کی نیّت سے)دوبارہ سے پڑھے۔(مسئلہ۳۶)
{8} جب چھ (6)نمازیں قضا ہونے کی وجہ سے ترتیب(sequence) کے ساتھ پڑھنا واجب نہ رہا تواب اگر ان میں سے کچھ پڑھ بھی لی کہ قضاء چھ (6)سے کم رہ گئیں تو اب دوبارہ ترتیب سے پڑھنےکا حکم نہیں رہے گا یعنی ان میں سے اگر دو(2) باقی ہوں تو یاد ہونے کے باوجود، اُس وقت کی نماز پہلے پڑھ لی تو وہ نماز ہو جائے گی ۔ہاں! اگر چھوٹی ہوئی سب نمازیں قضا پڑھ لیں تو اب پھر صاحب ترتیب ہوگیا کہ اب اگر کوئی نماز قضا ہوگی تو پچھلی شرطوں (preconditions)کے مطابق چھوٹی ہوئی کو پہلے پڑھے گا پھر اُس وقت کی نماز پڑھے گا۔ (درمختار، ردالمحتار) (صفحہ۷۰۶،مسئلہ ۳۵مُلخصاً) یاد رہے!اگر ایک نماز بھی چھوٹی ہے تواُس نماز کی قضاجلد از جلد پڑھنا واجب ہے۔

’’رات دیر سے سونا‘‘

دعائےآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

اےاللہ ! میری اُمّت کیلئے صبح کے کاموں میں بَرَکت(blessing) عطا فرما (ترمذی ج۳ ص۶حدیث ۱۲۱۶) ۔ یعنی (یااللہ! )میری اُمّت کے تمام ان دینی ودنیاوی(جائز) کاموں میں بَرَکت دے جو وہ صبح سویرے کیا کریں۔ جیسے سفر،علم حاصل کرنا، تجارت وغیرہ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۵ ص۴۹۱)

واقعہ(incident): میرے نزدیک یہ رات جاگنے سے بہتر ہے

(7) جواب دیجئے:
س۱) صاحبِ ترتیب کسے کہتے ہیں؟
س۲) اگر کسی کی نماز چھوٹی اور پہلے کی کوئی نماز اُس پر باقی نہیں ہے،، اب وہ اس وقت کی نماز کس طرح پڑھے گا؟اور وقت کم ہو تو؟

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ،امیرُالْمُؤمِنِین،حضرتِ عُمَرفاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہنَمازیوں کا خیال رکھتے تھے، ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فجرکی نَماز میں ایک نمازی کو نہیں دیکھا۔ نماز وغیرہ کے بعدبازار تشریف لے گئے،راستے میں اُن کا گھر تھا ، آپ اُن کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی والدہ گھر میں موجود تھیں ۔ حضرتِ عمرِ فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْھُ نے اُن سے فرمایا کہ صُبح کی نَماز میں،میں نے آپ کے بیٹے کو نہیں دیکھا! تو اُن کی امّی کہنے لگیں کہ :رات میں نَماز(یعنی نَفل)پڑھتے رہے پھر نیند آگئی(اور فجر میں مسجد نہ آسکے)۔یہ سن کر امیرُالْمُؤمِنِین،فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کچھ اس طرح فرمایا کہ : فجر کی نَماز جماعَت سے پڑھنا، میرے نزدیک ساری رات نفل پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (موطّا امام مالک ج۱ص۱۳۴حدیث۳۰۰)

نماز قضا ہونے کا خوف ہو تو رات دیر سے سونا کیسا؟:

رات دیر سے سونے کی وجہ سےاگر فجر کی نماز قَضا ہونے کا ڈر ہو تو شرعاً دیر سے سونے کی اِجازت نہیں ۔ اس کی کچھ صورتیں(cases) ہیں: {1} نَماز کا و قت شروع ہو جانے کے بعد سو گیا اور نماز کے وقت کے اندر جاگنے یا نماز پڑھ لینے پر صحیح اِعتماد (surety) نہ ہو اور نہ ہی کوئی جگانے والا آدمی موجود ہو، اب نماز کا وقت نکل گیا اور نَماز قَضا ہو گئی تو یقیناًگنہگار ہوا۔
{2}اگر یہ خیال مضبوط ہو کہ اب سو گیا تو نماز کے وَقت کے اندر آنکھ نہ کھلے گی تو اب فجر کا وقت شروع ہونےسے پہلے بھی سونے کی اِجازت نہیں بلکہ اس صورت (case) میں رات کا اکثرحصّہ (یعنی آدھی سے زیادہ رات) جاگنے کے بعد بھی نماز پڑھنے سے پہلے سونے کی اجازت نہیں۔(بہارِ شریعت ،جلد اوّل ،ص ۷۰۱ مُلخصاً)
نعت خوانیوں، ذِکر و فِکر کی محفلوں نیز سنَّتوں بھرے اِجتماعات وغیرہ میں رات دیر تک جاگنے کے بعد سونے کے سبب اگر نَمازِ فجر قَضا ہونے کا ڈر ہو تو اعتکاف کی نیّت سے( تلاوت یاذکر یا نماز پڑھنے کے بعد) مسجِد میں ہی رُکیں یا ایسی جگہ سوئیں جہاں کوئی بھروسے والا(trustworthy)اسلامی بھائی جگانے والا موجود ہو ۔ یا اَلارم والی گھڑی ہو جس سے آنکھ کُھل جاتی ہو مگر ایک(1) عدد گھڑی پر بھروسا (trust)نہ کیا جائے کہ نیند میں ہاتھ لگ جانے سے یا یوں ہی خراب ہو کر بند ہو جانے کا اِمکان رہتا ہے ، دو(2) یا ِ ضَرورۃً زیادہ گھڑیاں ہوں تو بہتر ہے (گھڑی کی جگہ مؤبائل کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے)۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں : جب یہ خوف ہو کہ صبح کی نَماز نکل جائے گی تو شرعی ضَرورت کے بغیر رات دیر تک جاگنا منع ہے ۔ (قضا نمازوں کا طریقہ ص ۶،مُلخصاً)

جماعت سے نماز پڑھنے کے چند طریقے(مگر یہ اُن کے لیے بھی ہیں کہ جن کی فجر میں آنکھ نہیں کھلتی):

سونے کی وجہ سے نماز کی جماعت فوت نہ ہو اس کے لیے امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سات (7)باتیں کچھ اس طرح فرمائی ہیں

{1} اگر لمبی نیند سے جماعت نکلنے کا ڈر ہے توتکیہ نہ رکھ، بچھونا (bed linen)نہ بچھا کہ بے تکیہ و بے بستر سونا بھی سُنَّت سے ثابت (یعنی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ )ہے ۔

{2} سوتے وقت دِل میں جماعت کا خوب خیال رکھ کہ فِکر کی نیند غافل(unmindful) نہیں ہونے دیتی ۔

{3} کھانا جلدی کھا،تاکہ سونے کے وقت تک کھانے کے سبب جسم میں پیدا ہونے والا بھاری پن ختم ہو جائےاور یہ کھانا لمبی نیندکا سبب نہ بنے۔

{4} سب سے بہتر عِلاج کم کھانا ہے ۔ جو بہت کھائے گا ،وہ بہت پئے گا۔ جو بہت پئے گا، وہ بہت سوئے گا۔ جو بہت سوئے گا، آپ ہی خیرو بَرکات کھوئے گا ۔

{5} یوں بھی مسئلہ حل نہ ہو تو رات کی عبادت میں کمی کرو ۔ دو(2) رَکعتیں خَفیف و تام (یعنی جہاں زیادہ پڑھنا ضروری نہ ہو، وہاں زیادہ نہ پڑھے مگر نماز سنّت کے مطابق ہو)بعدنمازِعشا ، کچھ دیر سونے کے بعد رات میں کسی وقت تَہَجُّد پڑھ لے اگرچہ آدھی رات سے پہلے ،مثلاً نو (9)بجے عشا پڑھ کر سو گیا، دس (10)بجے اُٹھ کر دو (2)رَکعتیں پڑھ لے، تَہَجُّد ہو گئی ۔

{6} سوتے وقت اللہ کریم سے جماعت کے ساتھ نماز (یا فجر کی نماز)کی توفیق ملنےکی دُعا کرےاور اس(معاملے میں) اللہ کریم پرسچا بھروسا (trust)رکھے ۔ اللہ کریم جب تیری سچی نیّت او ر پکا ارادہ( firm intention) دیکھے گا تو ضرور تیری مدد فرمائے گا ۔ اللہ کریم فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-(پ۲۸، الطلاق : ۳ ) ، ترجمہ (Translation) : اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے ۔(ترجمہ کنز العرفان)

{7} اپنے گھر والوں وغیرہ میں سے کسی قابلِ اِعتماد فرد(یعنی بھروسے والے )کو اس بات کا پابند(یعنی اس پر لازم)کرے کہ جماعت کے وقت سے پہلے جگادے ۔ اِن ساتوں(7) تَدبیروں(tactics) کے بعد کسی وقت سوئے اِنْ شَاءَ اللہُ ! (یعنی اللہ کریم نے چاہا تو) جماعت نکلنے سے محفوظ ہو گا اور اگرشاید اِتفاق سے کسی دن آنکھ نہ بھی کھلی یا جگانے والا بھی بھول گیا اوریہ سوتا رہا تو یہ اِتفاقی عُذر مَسْمُوْع ہو گا (یعنی اب گناہ گار نہیں ہو گا)اور اُمّید ہے کہ سچّی نیّت اور اچھی کوشش پر جماعت کا ثواب پائے گا (فتاویٰ رضویہ، ۷ / ۸۸تا۹۱ ماخوذاً)۔ یہ سات (7) باتیں تو نفل (یعنی نمازِ تَہَجّد )ادا کرنے کے لیے جماعت چھوڑنے والوں کے لیے ہیں تو اس سے ان لوگوں کو دَرس حاصِل کرنا چاہیے جو دِیگر کاموں کی وجہ سے مَعَاذَ اللہ ! (یعنی اللہ کریم کی پناہ)نماز ہی قضا کر دیتے ہیں۔

’’تنگ وقت(short time) میں نماز‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جب کوئی دوسروں کو نماز پڑھائے تو نماز کو مختصر(short) کرے کہ ان میں بیمار ، کمزور اور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب اپنی پڑھے تو جس قدر چاہے لمبی پڑھے۔(صحيح البخاري، کتاب الأذان، الحدیث: ۷۰۳، ج۱، ص۲۵۲،وغیرہ)

واقعہ(incident): مختصر (short)نماز پڑھائی

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو فجر کی نماز کے لئےتشریف لانے میں دیر ہوئی، یہاں تک قریب تھا کہ ہم سورج دیکھنے لگیں(یعنی نماز کا وقت بہت کم رہ گیا تھا) کہ جلدی جلدی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تشریف لائے، اقامت ہوئی اور مختصر نماز پڑھی، سلام پھیر کر بلند(یعنی اونچی) آواز سے فرمایا: سب اپنی اپنی جگہ پر رہو، میں تمہیں خبر دوں گا کہ کس چیز نے مجھےصبح کی نماز میں آنے سے روکا؟، میں رات میں اٹھا، وضو کیا اور جو نماز پڑھنی تھی وہ نماز پڑھی، پھر معراج کے واقعات بتائے۔
(المسند للإمام أحمد بن حنبل، حديث معاذ بن جبل، الحديث: ۲۲۱۷۰، ج۸، ص۲۵۸. و مشکاۃ المصابيح، کتاب الصلاۃ، الحديث: ۷۴۸، ج۱، ص۲۳۵، مُلخصاً)
اللہ کریم کی طرف سے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ملنے والے انعامات(rewards) میں سے ایک خاص انعام معراج ہے ۔ایک رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جس گھر میں سو رہے تھے وہاں کی چھت کھلی اورحضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلاَم کچھ فرشتوں کےساتھ آئے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو مسجد حرام ( یعنی جس مسجد میں کعبہ شریف ہے) سے بیتُ المقدس لے گئے ( یعنی دوسرے ملک میں بنی ہوئی’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘آئے(شروع میں مسلمان اس کی طرف منہ کر کہ نماز پڑھتے تھے))۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲مُلتقطاً) وہاں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو نماز پڑھائی پھرحضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ساتھ لے کر آسمان کی طرف چلے ۔ پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچوے، چھٹے، ساتوےآسمان لے گئے وہاں بھی انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام پہلے سے موجود تھے۔ جس آسمان پر جن سےملاقات ہوئی ، اُن نبی عَلَیْہِ السَّلاَم نے پیارے آقا کو ” خوش آمدید!(یعنی welcome) اے نیک نبی“کہا۔ پھر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جنّت کی سیر کرائی گئی۔اس کے بعد آپ سدرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پر پہنچے(یہ آسمانی دنیا کا آخری کوناend) )ہے)۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلاَم یہ کہہ کر رُک گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں جا سکتا۔پھر عرش پر پہنچنے کے لیےآپ نے اکیلے(alone)سفر کیا۔معراج کی رات آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےاپنے سر کی آنکھوں سےاللہ کریم کا دیدار کیا (یعنی اللہ کریم کو دیکھا)اور بغیر کسی واسطہ کے(یعنی فرشتے وغیرہ کے بغیر ) اللہ کریم کا کلام سنا۔ (بہارشریعت ج۱، ص۶۷مُلتقظاً وغیرہ)
اس معراج شریف کے علاوہ (other) خواب میں بھی معراج کے سلسلہ رہا۔ یہ واقعہ خواب کی معراج کا ہے۔ کچھ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو چونتیس(34) مرتبہ معراج ہوئیں، ان میں سے ایک ظاہری طور پرجسم اور روح(دونوں) کے ساتھ اور باقی خوابوں میں صرف روح کے ساتھ ہوئیں۔(مواھب لدنیہ،ج۲،ص،۳۴۱ مُلخصاً)

(8) جواب دیجئے:
س۱) رات دیر سے سونے پر اگر فجر قضاء ہونے کا ڈرہو پھر بھی دیر کرنا کیسا؟
س۲) فجر میں اٹھا نہ جاتا ہو تو کیا کرے؟

تنگ وقت میں نماز پڑھنے کے لیے کچھ چیزیں سمجھنا ضروری ہیں:

{1} وقت اتناہے کہ وضو اور اگر لازم ہو تو غسل کر کے کپڑے بدل کر یا وہی کپڑے پاک کر کے یا پاک چادر اوڑھ (یعنی جسم پر لپیٹ)کر نماز پڑھ سکتا ہے، تو اسی طرح کرنا ہو گا ۔

{2}وقت اتناہے کہ وُضو اور اگر لازِم ہو تو غسل کر کے فجر کی نماز کی دو(2) رَکعت فرض صِرف فرَائض و واجبات کے ساتھ پڑھ سکتا ہے یاعصر کی نماز میں وقت کے اندر صِرف فرض نماز کی نیَّت باندھ سکتا ہے یا ظہر ، مغرب اور عشا کی نمازیں فرض اور بعد کی سُنّتیں(اور وتر) پڑھ سکتا ہے تو اسی طرح کرنا ہو گا۔

نوٹ: اس صورت (case) میں فجر کی فرض نماز کے مستحب اور سنّتوں مثلاً سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ، اَعُوْذُ بِاللّٰہِ ، بِسْمِ اللہِ ، دُرُودِ اِبراہیمی اور دُعائے ماثورہ (مثلاً رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً۔۔۔۔)وغیرہ چھوڑ کر صِرف فَرائض و واجبات پورے کر کے نماز مکمل کی جائے گی جبکہ عصر جس طرح پڑھتے ہیں، اُسی طرح پڑھیں گے چاہے مغرب کا وقت شروع ہوجائے کیونکہ صرف فجر(اسی طرح جُمُعہ اور عید) کی نماز میں سلام اپنے و قت کے اندر پھیرنا ضروری ہے۔

{3}اگر وقت اتنا بھی نہیں کہ وُضو اور لازِم ہو تو غسل کر کے فجر کی صرف فرض نماز، فَرائض و واجبات کے ساتھ مکمل کر سکتا ہے لیکن اتنا وقت ہے کہ طہارت(یعنی پاکی وغیرہ) کے ساتھ صِرف فَرائض پورے کر سکتا ہے تو نماز اِسی طرح ادا کرے (یعنی دو(2) رکعت فرض، صرف فرائض کے ساتھ پڑھے)۔

{4} فجر کے لیے اتنا وقت نہیں کہ وضو اور اگر غسل کرنا ضَروری ہو تو غسل کر کے پوری نماز سلام کے ساتھ وقت کے اندرپڑھ سکے یا عصر کی نماز میں وقت کے اندر(لازم ہو تو غسل ورنہ وضو کر کے) صِرف نیَّت بھی نہ باندھ سکے یا ظہر و مغرب میں فرض نماز پڑھ کر وقت کے اندرسنّتوں کی نیّت بھی نہ باندھ سکے یا عشا کے فرض و سنّت پڑھ کر وتر کی نیّت وقت کے اندر نہ کر سکےتو تَیَمُّم کر کے پاک کپڑوں میں یہ نمازیں پڑھ لے مگر بعد میں وُضو یا غسل کر کے یہ نمازیں دوبارہ پڑھنی ہوں گی۔( فتاویٰ رضویہ ، ۳ / ۴۳۹ماخوذاً وغیرہ)

نوٹ: وُضو کرے گا تو ظہر یا مغرب یا عشاء یا جُمُعہ کی پچھلی(یعنی آخری) سُنّتوں کا وقت جاتا رہے گا تو تیَمُّم کرکے یہ نمازیں پڑھ لے (بہارِ شریعت ج۱، ص۳۵۱،مسئلہ، ۲۶، مُلخصاً) ۔فرض کا وقت تنگ (short time)ہو تو ہر نماز مکروہ ہے، یہاں تک کہ فجر او رظہر کی سنّتیں پڑھنا بھی مکروہ ہیں۔ (بہارِ شریعت ض۳، ص۴۵۷، پوائنٹ ۱۱،مُلخصاً)

مختصر (short)نماز پڑھنے کا طریقہ:

پہلی بات:

اگر سُنّت، مستحب اور واجبات کے ساتھ، صرف فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی نہ ہو تو فجر، جُمُعہ اور عیدمیں صِرف فَرائِض کے ساتھ نماز پڑھی جائے کیونکہ ان نمازوں میں وقت کے اَندر سلام پھیرنا ضَروری ہے(یہ بھی یاد رہے کہ جمعہ اور عید کی نماز اپنی شرطوں کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہیں، جن میں سے ایک جماعت کے ساتھ ہونا بھی ہے بغیر شرطیں (preconditions)پورے کر کے اکیلے(alone) جمعہ اور عید کی نماز نہیں ہوتی)، لیکن ظہر ، عصر ، مغرب اور عشا کی نمازوں میں اگر وقت میں تکبیرِ تحریمہ باندھ لی(یعنی اَللہُ اَکْبَر کہہ کر نماز شروع کر لی) اور اب دوسری نماز کا وقت بھی شروع ہو گیا تب بھی یہ نماز قضا نہ ہوئی بلکہ ادا (یعنی صحیح وقت میں ہوگی) لھذا اب نماز مختصر(short) کر کے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

فجر میں کسی کی آنکھ دیر سے کھلی، وقت ختم ہونے والا ہے تو اس کی کچھ صورتیں(conditions) ہیں :

{1} وُضو اور اگر لازم ہو تو غسل کر کے ، پاک کپڑوں میں فَرائض و واجبات کے ساتھ فجر کی سنّتیں اور فرائض پڑھ سکتا ہے تو پڑھے ۔
{2} وضو اور اگرلازم ہو تو غسل کرنے کے بعد ، پاک کپڑوں میں فرائض و واجبات کے ساتھ صِرف فجرکے فَرض پڑھ سکتا ہے تو پڑھے ۔ ان دونوں صورتوں میں مختصر نماز پڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے : نیّت کر کے اَللہُ اَکْبَر کہے پھر قیام میں سورۃُ الفاتحہ اور ایک چھوٹی سورت جو یاد ہو مثلاً سورۃُ الکوثر(اِنَّااَعْطَینٰکَ الْکَوْثَرَ )مکمل پڑھ لے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رکوع کرے اور رکوع میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہے پھر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے کھڑا ہو پھر کھڑے ہو کر رَبَّنا لَکَ الْحَمْد کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے سجدہ کرے اور سجدے میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے جلسے میں بیٹھے اور مکمل بیٹھ کر اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں جائے اور سجدے میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو پھر قیام میں سورۃُ الفاتحہ اور ایک چھوٹی سورت جو یاد ہو مثلاً سورۃُ الاخلاص (قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ ) مکمل پڑھے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رکوع کرے اور رکوع میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہے پھر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے کھڑا ہو پھر کھڑے ہو کر رَبَّنا لَکَ الْحَمْد کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور سجدے میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے جلسے میں بیٹھے اور مکمل بیٹھ کر اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں جائے اور سجدے میں مکمل پہنچ کر ایک مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے بیٹھ کر اَلتَّحِیَّات پڑھے : اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْنَ اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ پھر سیدھی طرف گردن پھیر کر اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہ پھر اُلٹی طرف گردن پھیر کر اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہ کہے ۔
نوٹ: اِس طریقے میں ہر چیز واجب نہیں ہے مگر بہت سی باتیں واجب کے لیے مددگار اور نمازی کے لیے آسان ہیں ۔

{3} وُضو اور اگر غسل کی حاجت ہو تو غسل کر کے فجر کی صِرف دو(2) فرض رکعتیں فَرائض کا لحاظ رکھتے ہوئے پڑھ سکتا ہے تو پڑھے اور بعد میں اس نماز کو دوبارہ پڑھنا ہوگا( اِس وقت یہ نماز اس لیے پڑھی جائے گی تاکہ قضا کا گناہ نہ ہو اور بعد میں اس لیے دہرانی ہے کہ نماز میں جو کمی رہ گئی ہے، وہ دور ہوجائے) ۔

{4} وقت اتنا تنگ (کم)ہے کہ تَیَمُّم کے ساتھ صِرف فرض کی دو(2) رَکعت، صرف فرائض کا لحاظ رکھتے ہوئے پڑھ سکتا ہے تو پڑھے مگر بعد میں وُضو یا لازِم ہو تو غسل کر کے یہ نماز بھی دوبارہ پڑھنی ہو گی ۔ ان دونوں صورتوں میں مختصر نماز پڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے : نیّت کر کے اَللہُ اَکْبَر کہے پھر قیام میں صرف ایک آیت پڑھے مثلاً اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ (پڑھے )پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رکوع کرے پھر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے رکوع سے کھڑا ہو پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے سجدے میں جائے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے جلسے میں بیٹھے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں جائے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو پھر قیام میں صرف ایک ہی آیت پڑھے مثلاً اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ (پڑھے ) پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رکوع کرے پھر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے کھڑا ہو پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے سجدہ کرے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے جلسے میں بیٹھے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں جائے پھر اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے بیٹھ کر اَلتَّحِیَّات پڑھے: اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْنَ اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ پھر پہلے سیدھی طرف گردن پھیر کر اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہ کہہ کر سلام پھیرے پھر اُلٹی طرف ۔
نوٹ: اِس طریقے میں ہر چیز فرض نہیں ہے مگر بہت سی باتیں فرض کے لیے مددگار اور نمازی کے لیے آسان ہیں ۔

کم وقت میں مختصر نماز پڑھنے کے لیے علم ہونا اوراسی وقت صحیح فیصلہ کرنا ضَروری ہے ۔ تنگ وقت میں مُختصر نماز، صحیح طریقے سے وہی پڑھ سکتا ہے جسے نماز کے فرائض ، واجبات، سنّتوں اور مستحب کا علم ہو،اگر علم نہیں ہو گا تو ممکن ہے کہ سنّت اور مُستحب کی جگہ فرض اور واجب چھوڑ کر اپنی نماز خراب کر دے ۔ کچھ نمازی ثنا، دُرُودِ اِبراہیمی اور دُعائے ماثورہ وغیرہ مکمل پڑھتے ہیں مگر جلدی میں تعدیلِ اَرکان یا اَلتَّحِیَّات کے اَلفاظ چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نمازمیں مسائل ہو جاتے ہیں بلکہ بہت تیز تیز سورۃُالفاتحہ یا اَلتَّحِیَّات پڑھنے سے الفاظ مکمل ادا نہیں ہوتے اور اس وجہ سے بھی نماز میں خرابی آتی ہے ۔ بہر حال نماز کا وقت کم رہ گیا ہو تو بھی کئی باتوں کا خیال رکھنا بہت ضَروری ہے ۔ (تنگ وقت میں نماز کا طریقہ ص۲ تا ۹ مُلخصاً)

’’ بیمار شخص کی نماز‘‘

حدیث شریف میں ہے:

عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیمار تھے،انہوں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نماز کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: کھڑے ہو کر پڑھو، اگرطاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر، اللہ کریم کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی کہ جس کی، اُس میں طاقت ہو۔ (نصب الرایۃ للزیلعي، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۷۷۔ ۱۷۸)

واقعہ(incident): نماز کیلئے بھی آئو!

امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےایک شخص کو فجر کی نماز میں غیر حاضر (absent)پایا تو اسے پیغام (message) بھجوایا، وہ شخص حاضر ہوگیا۔آپ نے اُس سے پوچھا: تم کہاں تھے؟ اس نے عرض کی: میں بیمار تھا، اگر آپ کی طرف سے پیغام(message) نہ آتا تو میں گھر سے نہ نکلتا،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا: اگر تم کسی اور کے پاس آسکتے ہو تو نماز کے لیے بھی آیا کرو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ص۳۷۹ حدیث ۱، مُلخصاً)

اہم مسئلہ :

(11) ” تعدیلِ ارکان “ کی تفصیل(detail) جاننے کے لیے، Topic number : 67دیکھیں۔
(12) جواب دیجئے:
س۱) تنگ وقت میں نماز پڑھنے کے لیے، کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
س۲) تنگ وقت میں نماز پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟

{1} فرض، واجب(مثلاً: وتر، عید کی نماز) ا ور فجر کی سنّتوں میں کھڑے ہو کر قیام کرنافرض ہے۔ شریعت کی اجازت کے بغیر یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گا، تونہیں ہوں گی۔ (بہار شریعت،ج۱،ص۵۱۰،مسئلہ ۱۶ مُلخصاً) (فجر کی سنّتوں کے علاوہ (other) تمام سنّت مؤکّدہ نمازیں اور) تراویح، شرعی اجازت کے بغیر بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے۔(ح۴،ص۶۹۳، مسئلہ۳۰، مُلخصاً)

بیمار شخص کب بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے؟:

{2}جس مریض کوسجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو مگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت ہو تب بھی وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔(بہار شریعت،ج۱،ص۵۱۱،مسئلہ۲۲ ماخوذاً)مگر یہ بات یاد رہے کہ اگر کوئی زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا مگر ، زیادہ سے زیادہ بارہ(12) اُنگل(twelve fingers) اونچی رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرسکتا ہے تو اُسی پر سجدہ کرنا ضروری ہےاور اب اس وجہ سے بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں! جس چیز پر سجدہ کرنا ہو، وہ ایسی سخت ہو کہ اتنی پیشانی (forehead)دب جائے (pressed)کہ پھر دبانے سے نہ دبےاور اس کی اونچائی(height) بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو۔( بہارِ شریعت،ج۱،ص۷۲۲، مسئلہ ۱۱ مُلخصاً)
{3} جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نما زپڑھنے پر قادر نہیں کہ کھڑے ہو کر پڑھنے سے نقصان اور تکلیف کا شکار ہوگا یاعَنْہُمَا بیماری بڑھ جائے گا یا()مریض دیر میں اچھا ہو گا یاعَنْہُمَاچکّر(dizziness) آتا ہے یاعَنْہُمَاکھڑے ہو کر پڑھنے سے(پیشاب وغیرہ کا) قطرہ آئے گا یا()کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں درد بہت زیادہ ہوگا جو برداشت نہ ہو سکے تو ان سب صورتوں (cases)میں بیٹھ کر نماز پڑھے مگر رکوع کے لیے جھکے گا اور سجدہ طریقے کے مطابق کر ے گا۔( بہارِ شریعت، ج۱(ب)، ص۷۲۰، مسئلہ ۱ مُلخصاً) (۱) کھڑے ہونے سے کچھ تکلیف ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ، بلکہ کھڑے ہو کر قیام اس وقت معاف ہوگا کہ بالکل کھڑا نہ ہو سکے یا (۲)درد بہت زیادہ ہوگا جو برداشت نہ ہو سکے یا(۳) سجدہ نہ کر سکے یا (۴) کھڑے ہونے(میں زخم بہتا ہے) یا(۵) سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا(۶) کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا (۷) چوتھائی ستر کھلتا ہے یا (۸) کھڑے ہونے میں ایسی تکلیف ہے کہ قراء ت ہی نہیں ہو پاتی یا(۹) کھڑا ہو تو سکتا ہے مگر اس سے بیماری بڑھ جاتی ہے یا (۱۰) مریض دیر میں اچھا ہوگا تو ان صورتوں (cases) میں مریض بیٹھ کر نماز پڑھے (بہار شریعت،ج۱،ص۵۱۱،مسئلہ۲۲ مُلخصاً) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ: (۱)اگر کسی شرعی اجازت کی وجہ سے کھڑا ہی نہیں ہوسکتا تو بیٹھ کر نماز پڑھنی ہوگی۔
(۲)اسی طرح سجدہ نہیں کر سکتا تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے کھڑے ہونے کی طاقت ہو۔ہاں! اگر ایسا بیمار آدمی جماعت سے نماز پڑھنے میں کرسی استعمال کر رہا ہے تو اب یہ بیٹھ کر ہی نماز پڑھے گا(تفصیل(detail) اگلے سبق میں آرہی ہے)۔
یاد رہے کہ ان صورتوں (cases) میں نماز قضاء کرنے کی اجازت نہیں۔

ایسابیمار شخص جو مکمل بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتے

{4} (جو شخص سجدہ کر سکتا ہے مگر خود قیام نہیں کر سکتا تو)اگر عصا (stick)یا خادم یا دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو سکتا ہے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر پڑھے۔ ( ص۵۱۱، مسئلہ ۲۳)

{5} (جو شخص سجدہ کر سکتا ہے مگر مکمل قیام نہیں کر سکتا تو) اگر کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہو، چاہے اتنا ہی کھڑا ہو سکتا ہے کہ کھڑے ہو کر’’ اَﷲ ُاَکْبَر ‘‘ کہہ لے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر’’ اَﷲ ُاَکْبَر ‘‘ کہہ لے پھر بیٹھ جائے۔(ص۵۱۱، مسئلہ ۲۴)نوٹ: ایسا مریض اگر فجر کی سنّتوں کے علاوہ (other)تمام سنّت مؤکّدہ نمازیں اور تراویح شروع ہی سے بیٹھ کر پڑھ لیتا ہے تو یہ نمازیں ہو جائیں گی۔وہ مریض جو تراویح کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں پھر وتر کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت نہیں رہتی، انہیں چاہیے کہ تراویح بیٹھ کر پڑھیں اور وتر کھڑے ہو کر پڑھیں۔

جسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہو، وہ نماز کیسے پڑھے؟:

{6} بیٹھ کر پڑھنے میں کسی خاص(specific) طریقے پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ مریض پر جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے۔ ہاں! دو زانو (جیسے نماز میں اَلتَّحِیَّات میں بیٹھتے ہیں، اس طرح)بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو (یعنی ہر طرح بیٹھ سکتا ہے)تو دو زانو بہتر ہے ورنہ جس طرح بیٹھنا آسان ہو، اُس طرح بیٹھے۔( ج۱(ب)، ص۷۲۰، مسئلہ ۳، مُلخصاً)
{7} اگر مریض (بیمار آدمی)خود بیٹھ بھی نہیں سکتا مگر لڑکا یا خادم یا کوئی شخص وہاں ہے کہ بٹھا دے گا تو بیٹھ کر پڑھنا ضروری ہےعَنْہُمَا کسی نے بیٹھا دیا اور مریض بیٹھ بھی گیا، لیکن صورت ِ حال(condition)ایسی نہیں کہ وہ تھوڑی دیر بھی خود(اپنی طاقت ) سے بیٹھا نہیں رہ سکتا تو تکیہ یا دیوار یا کسی شخص پر ٹیک لگا کر نمازپڑھے۔( ج۱(ب)، ص۷۲۰، مسئلہ ۲)
{8} پیشانی(forehead) میں زخم ہے کہ سجدہ کے ليے پیشانی نہیں لگا سکتا تو ناک پر سجدہ کرے اور ایسا نہ کیا بلکہ اشارہ کیا تو نماز نہیں ہوگی۔ ( ج۱(ب)، ص۷۲۲، مسئلہ ۱۲)

جو بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ نماز کیسے پڑھے؟:

{9} اگر مریض(بیمار آدمی) بیٹھ ہی نہیں سکتا تو لیٹ کر اشارہ سے پڑھے، چاہے سیدھی طرف یا اُلٹی طرف کروٹ پر لیٹ کر قبلے شریف کومنہ کرےعَنْہُمَاچاہے سیدھا لیٹ کر قبلے کی طرف پاؤں کرے مگر پاؤں قبلے کی طرف لمبےنہ کرے کیو نکہ کعبۃُ اللہ کی طرف پاؤں پھیلانا مکروہ ہے بلکہ گھٹنے(knees) کھڑے رکھے(ہو سکے تو گھٹنوں پر چادر ڈال دے) اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر اونچا کر لے تاکہ منہ قبلے کو ہو جائے(یاد رہے کہ اس طرح لیٹنا قبلے کی طرف پاؤں کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ منہ کعبۃُاللہ شریف کی طرف ہو جائے) اور یہ صورت (case) یعنی سیدھا لیٹ کر قبلے کو منہ کر کے نماز پڑھنا افضل ہے۔ (بہارِ شریعت، ج۱(ب)، ص۷۲۲، مسئلہ ۱۳، مُلخصاً)
{10} اشارہ کی صورت (case) میں سجدہ کا اشارہ رکوع سے نیچے ہونا ضروری ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ سر کو بالکل زمین سے قریب کر دے سجدہ کے ليے تکیہ وغیرہ کوئی چیز پیشانی(forehead) کے قریب اٹھا کراس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہےخود اسی نے وہ چیز اٹھائی ہو یا دوسرے نے اُٹھا کر اس کے سر کے سامنے رکھ دی ہو۔ (بہارِ شریعت، ج۱(ب)، ص۷۲۱، مسئلہ ۹، مُلخصاً)
{11} مریض اگر قبلہ کی طر ف نہ اپنے آپ منہ کر سکتا ہے ،نہ دوسرے کے ذریعہ سے اپنا منہ قبلے کی طرف کروا سکتا ہے توجہاں منہ ہے، وہیں نماز پڑھ لے اور صحت کے بعد بھی اس نماز کو دوبارہ نہیں پڑھا جائے گا( کیونکہ یہ نماز صحیح ہو گئی ہے)اور اگر کوئی ایساشخص موجود ہے کہ اس مریض کے کہنے سے ،وہ مریض کوقبلہ رُو کردے گا مگرپھر بھی اُس مریض نے اس شخص سے نہ کہا تونماز نہ ہوئی۔
{12} جس شخص کو اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت تھی، اس نےاشارے سے جو نمازیں پڑھی ہیں صحت کے بعد ان کو دہرانا (repeatکرنا)نہیں ہوگا کہ وہ ادا ہوگئی ہیں۔ (بہارِ شریعت، ج۱(ب)، ص۷۲۲، مسئلہ ۱۵مُلخصاً)

جو اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کیا کرے؟:

{13} اگر سر سے اشارہ بھی نہ کرسکے تو اب نماز معاف ہے، اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھوں(eyebrows) یا دل کے اشارہ سے پڑھے پھر اگر چھ(6) وقت اسی حالت (condition)میں گزر گئے تو ان کی قضا پڑھنے کا بھی حکم نہیں، فدیہ(یعنی پیسے وغیرہ صدقے میں دینے) کی بھی ضرورت نہیں اورنہ ہی صحت کے بعد ان نمازوں کی قضا لازم ہے ۔ (ص۷۲۲، مسئلہ ۱۴مُلخصاً)

’’کرسی پر نماز ‘‘

اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں :

جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خدمت میں سخت بیماری حاضر تھی(یعنی آپ بہت بیمار تھے)،(حضرت) بلال(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)،آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نماز کی خبردینے کے لیے حاضر ہوئے تو حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ابوبکر (رَضِیَ اللہُ عَنْہ)سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔پھر جب مسلمانوں کے پہلے(1st ) خلیفہ، صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز پڑھا نا شروع کر دی پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو طبیعت(health) اچھی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تودو (2)آدمی آپ کو لےکر مسجد کی طرف آئے ، حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جب پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آ واز محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں اشارہ فرمایا(کہ پیچھے نہ ہٹیں) پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،(حضرت) صدّیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی بائیں (left) طرف بیٹھ گئے، اب ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بیٹھ کر نماز پڑھانے لگے اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ بھی رہے تھے اور پڑھا بھی رہے تھے(یعنی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ، مسلمانوں کے امام تھے اور حضرت ابوبکررَضِیَ اللہُ عَنْہ کے امام ،ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تھے)۔(بخاری ج۱ص۲۵۴حدیث۷۱۳ ملخّصاً)

واقعہ(incident): وہ بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں

حضرت ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ہم عبادت کرنے والی ایک بزرگ خاتون کے پاس گئے ۔یہ بہت روزے رکھا کرتی تھیں اور(اللہ کریم کےڈر سے)اتنا روتیں کہ ان کی آنکھوں نے دیکھنا بند کر دیااور صبح و شام (مکروہ وقتوں کے علاوہ۔ other) نمازیں بھی بہت پڑھتی تھیں۔عمر (age)بہت زیادہ ہوگئی تھی ، اب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ رہی تھی ،لہٰذا بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں ۔ ہم نے انہیں سلام کیا ، انہوں نے جواب دیا (کہ بالکل بوڑھی عورت چاہے رشتہ دار نہ ہو، تب بھی اُسے سلام کیا جا سکتا ہے اور وہ جواب بھی دے سکتی ہیں)پھر ہم نے اللّٰہ کریم کی رحمت کی باتیں کیں تاکہ وہ اتنی کوشش کے ساتھ عبادت کرنے میں کمی کریں ۔ انہوں نے یہ بات سن کر کہا کہ: میں اپنے آپ کو جانتی ہوں، جس کی وجہ سے میرا دل بے چین(anxious) ہوگیا ہے، خدا کی قسم!میں چاہتی ہوں کہ کاش! اللّٰہ کریم نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا اور لوگ مجھ کو نا جانتے۔ یہ فرما کر دوبارہ نماز پڑھنا شروع کر دی ۔ (احیاء العلوم ج۵ ،ص۳۸۶ ، ۳۸۷ بالتغیر)

(14) جواب دیجئے:
س۱) مریض کب بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے؟اور بیٹھ کر کیسے نماز پڑھے گا؟
س۲) مریض کب لیٹ کر نماز پڑھ سکتا ہے؟اور لیٹ کر کیسے نماز پڑھے گا؟

کرسی پر نماز:

{1} مریض (بیمار آدمی)ایسا ہے کہ کھڑا تو ہوسکتا ہے مگر سجدہ نہیں کر سکتا ہے، مَثَلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا (boils)ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا (یعنی خون وغیرہ نکلے گا)تو اب ان نمازوں (یعنی فرض، واجب(مثلاً: وتر، عید کی نماز) ا ور فجر کی سنّتوں)میں کھڑے ہو کر قیام کرنا فرض نہیں ہے۔(بہارِ شریعت،ج۱، ص ۷۲۱،مسئلہ۸ مُلخصاً)

{2} اگر کوئی زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا مگر ، زیادہ سے زیادہ بارہ(12) اُنگل(twelve fingers) اونچی رکھی ہوئی چیز پر سجدہ کرسکتا ہے تو اُسی پر سجدہ کرنا ضروری ہےاور اب اس وجہ سے بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا ۔( بہارِ شریعت، ج۱،ص۷۲۲، مسئلہ ۱۱ مُلخصاً)

{3} جب رکوع اور سجدہ کر سکتا ہے تو اب صحیح طریقے سے پیٹھ جھکاکر رکوع کرنا ہوگا اور طریقے کے مطابق سجدہ بھی کرنا ہوگا یا کم از کم بارہ(12) اُنگل(twelve fingers) اونچی سخت چیز پر سجدہ کرنا ہوگا ،اِشاروں سے رکوع اور سجود کرنے سے اس کی نماز نہ ہوگی۔( کرسی پر نماز کے احکام ص۷، مُلخصاً)

{4}جس مریض کو مکمل بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہو یا کچھ دیر قیام(یعنی کھڑے ہونے) کے بعد(مثلاًچکّر آنے کی وجہ سے ) ، بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہومگر اسے سجدہ کرنے کی طاقت بھی ہو تو اُسے طریقے کے مطابق (according)، زمین ہی پر سجدہ کرنا ہوگا۔ اب اگر وہ پوری نماز،زمین پر بیٹھ کر طریقے کے مطابق پڑھے تو اُس کیلئے آسانی ہے() ایسا بیمار آدمی اگرزمین کی جگہ، کرسی پر بیٹھا تو سجدے کیلئے اُسے زمین پر آنا لازِم اور صحیح طریقے پر سجدہ کرنا بھی لازم ہے۔ اب یہ کرسی سے اُتر کر سجدہ بھی کرے گا اور سجدہ کرنے کے بعد پھر کرسی پر بیٹھنا ہوگا تو اس طرح نماز پڑھنے میں بہت مشکل ہو گی()ایسا بیمار آدمی اگرجماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے تواگلی صف والوں(یعنی آگے والوں) کو بھی پریشانی ہو سکتی ہے(کہ جب وہ سجدہ کرے گا تو آگے نماز پڑھنے والے پریشان ہونگے) اوراس طرح صف بھی صحیح نہیں بنے گی۔ لھذا زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت (یعنی طاقت)ہونے کی صورت (case) میں(جماعت سے پڑھی جانے والی نماز میں) ہر گز کرسی پر بیٹھ کر نماز نہ پڑھی جائے۔( کرسی پر نماز کے احکام،ص۷،۸، مُلخصاً)

{5} زمین پرسجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو مریض کے لیے افضل یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے۔ البتہ بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز میں جہاں تک ممکن ہو دو زانو (جیسے نماز میں اَلتَّحِیَّات میں بیٹھتے ہیں، اس طرح) بیٹھنا مستحب (اور ثواب کا کام)ہے لہٰذا کرسی پر پاوں لٹکاکر بیٹھنے سے بچنا اور زمین پر بیٹھ کر ہی مکمل نماز پڑھنامناسب ہے() زمین پر بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز میں اگر دو زانو( اَلتَّحِیَّات میں بیٹھنے کی طرح) بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بیٹھنا مستحب ہے ورنہ جس میں آسانی ہو مَثَلاًچار زانو یعنی چوکڑی ما ر کریا اُکڑوں(یعنی دونوں پاؤں کھڑے کر کے) یا ایک پاؤں کھڑا کرکے ایک بچھا کر بیٹھ جائے ۔( کرسی پر نماز کے احکام،ص۸،۹، ملخصاً)

{6} یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ سجدے کرنے کی طاقت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی جائزہے۔کیونکہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے بھی رُکوع اور سجدے(سر کے) اشارے سے کئے جاسکتے ہیں اور اس صورت (case) میں کھڑے ہو کر قیام کرنا بھی فرض نہیں، یوں پوری نماز بیٹھے بیٹھے پوری ہوجائے گی۔ (کرسی پر نماز کے احکام، ص۸،مُلخصاً)

{7} اس طرح کا مریض اگر زمین پر بیٹھ ہی نہ سکے تو اِس صورَت (case) میں کرسی یااِسٹول یا تخت وغیرہ پر پاوں ٹکاکر بیٹھ سکتے ہیں مگر بلا وجہ ٹیک لگانے سےپھر بھی بچا جائے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی جنہیں اجازت ہوتی ہے انہیں جتنا ممکن ہو ٹیک لگانے سے بچنا چاہئے اور ادب کے ساتھ نمازپڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(کرسی پر نماز کے احکام،۹،مُلخصاً) یاد رہے :اس صورَت (case) میں چونکہ سجدہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے رکوع اور سجدے کا اشارہ کرنا ہوگا اور سجدے کے اشارے میں رکوع سے زیادہ سر جھکانا ضروری ہے،اس بات کا بھی خیال رکھا جائے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔(کرسی پر نماز کے احکام، ص۹،مُلخصاً)

{8} کچھ مسجدوں میں کُرسی پر سجدے کے لیے لکڑی کی تختی(wooden plank) لگی ہوتی ہے، سجدے میں اس پر سر رکھ دینا بھی اشارے سے سجدہ کرنا ہی ہے، اس لیےکہ اشارے سے سجدہ کرنے میں کمر(back) جُھکانا ضروری نہیں)یہ بات یاد رہے کہ رکوع کے اشارے میں جتنا سر جھکایا تھا، سجدے کے اشارے میں سر کو اِس سے زیادہ جُھکا نا ہوگا(۔ اس تفصیل (detail) سےمعلوم ہوا کہ اشارے سے سجدے کے لیے سر کو تختی پر رکھنا ضروری نہیں ہے، لھذا نماز کی کرسی میں تختی بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ (کرسی پر نماز کے احکام، ص۲۷،مُلخصاً)

{9}اگر مریض زمین پرسجدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو پھر بھی کرسی کے آگے لگی ہوئی تختی پر سجدہ کرے گا تو اُس کی نماز نہیں ہو گی (کیونکہ یہ حقیقت میں سجدہ نہیں بلکہ اشارے سے سجدہ ہے اور جو سجدے کی طاقت رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ حقیقی سجدہ کرے)۔ (کرسی پر نماز کے احکام، ص۲۷،مُلخصاً)

{10} حدیثوں میں جماعت کے ساتھ نماز میں صفیں سیدھی رکھنے کا حکم آیا ہے اور اس کی بہت تاکید (emphasis) ہے کہ صف برابر ہو، مقتدی(یعنی امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے) آگے پیچھے نہ ہوں، سب کی گردنیں(necks) ، کندھے(shoulders) اور پاوں کے ٹخنے (ankles)آپس میں ایک سیدھ میں(in a row) ہوں،کندھے سے کندھا اچھی طرح ملا ہوا ہو لہٰذا جس مریض وغیرہ کو شریعت نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے :عَنْہُمَا وہ صف میں کرسی کے بجائے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے()اگر زمین پر نہیں بیٹھ سکتا تو مجبوری کی وجہ سے بے شک کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے اور(جب پوری صف میں نمازی ہوں تو) کرسی صف کے کونے(side) میں رکھ کر اس پر بیٹھے()اگر نمازی کم ہیں ، صف مکمل نہیں ہو رہی تو کونے(side) کے بجائے صف کے(نمازیوں کے) ساتھ ملا کر کرسی رکھ لے۔ اس صورت (case) میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کرسی صف کی سیدھ میں رکھے نیز قیام کی حالت میں بھی کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھے،ورنہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی صورت (case) میں یہ صف کے دوسرے نمازیوں سے آگے کھڑا ہوگا جو کہ صف بنانے کی ایک مکروہ صورت ہے۔یاد رہے کسی بھی صورت (case) میں ساتھ والے نمازی اور کرسی کے درمیان فاصلہ (gap) باقی نہ رہے۔(کرسی پر نماز کے احکام، ص۱۰،۱۱،مُلخصاً)

{11} عام طور پر مریض وغیرہ جو کرسی استعمال کرتے ہیں، وہ صفوں کے کونوں میں کُرسی لے کر بیٹھتے ہیں، یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔کچھ نمازی اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ صف پوری ہو رہی ہے یا نہیں، اس لیے پہلے سے صفوں میں کرسیاں نہ رکھی جائیں،(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آگے خالی کُرسیاں ہوتی ہیں اور پیچھے نمازی کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں لھذا لکڑی کی بھاری کرسیاں بنانے کی جگہ پلاسٹک کی ہلکی کُرسیاں پیچھے رکھی جائیں بلکہ ہو سکے تو پلاسٹک کے اسٹول رکھ دیں تاکہ) جب کوئی مریض وغیرہ آئے تو(کُرسی یا اسٹول لے لے اور) پہلی(1st )، دوسری(2nd ) ،تیسری(3rd )، جس صف میں جہاں اُسے جگہ ملے، وہاں کرسی یا اسٹول رکھ کر اُس پر بیٹھ جائے (اسٹول کا فائدہ یہ ہوگا کہ نمازی اپنی نماز میں بلاضرورت ٹیک لگانے سے بھی بچ جائے گا ) (کرسی پر نماز کے احکام، ص۱۱،۱۲،مُلخصاً) ۔ مریض حضرات کو چاہیے کہ کوشش کر کے جماعت کے وقت سے پہلے آجائیں تاکہ صفوں کے کونوں میں جگہ مل جائے کیونکہ جن مسجدوں میں نمازی کم ہوتے ہیں اور مریض دیر سے آتے ہیں تو انہیں صفیں پوری کرنے کے لیے نمازیوں کے ساتھ ،صف کی سیدھ میں کرسی رکھ کر بیچ صف میں، نمازی سے مِل کر نماز پڑھنی ہوگی۔(کرسی پر نماز کے احکام، ص۱۱،ماخوذاً)

{12} اگر کسی مسجد میں پہلے سےآگے کی صفوں میں کرسیاں رکھ دی جاتی ہیں اور کوئی مریض نمازی جمعہ کی نماز کے لیے دیر سے آیا تو وہ کرسی پر بیٹھنے یا کرسی لینے کے لیے لوگوں کے کندھوں کو ٹاپتے ہوئے(leaping over the shoulders) آگے جائے گا جو کہ جائز نہیں ہے (کرسی پر نماز کے احکام،ص ۱۲،مُلخصاً) ۔حدیث شریف میں ہے کہ:جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اس نے جہنّم کی طرف پل بنایا (سنن الترمذی، ابواب الجمعۃ، ۲/ ۴۸، الحدیث: ۵۱۳)۔ عُلَمائے کِرام فرماتے ہیں:اس کے ایک معنیٰ یہ ہیں کہ اس پر چڑھ چڑھ کر لوگ جہنَّم میں جائیں گے ۔ (حاشیۂ بہارِ شریعت ج ۱ ص۷۶۱تا۷۶۲)

’’جُمُعہ کی شرطیں (preconditions) اور عید کی نماز‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

جو عیدین کی راتوں میں قیام (یعنی عبادت) کرے، اس دن اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگو ں کے دل مر جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ، الحدیث: ۱۷۸۲، ج۲، ص۳۶۵)

واقعہ(incident): عید کے دن غفلت(negligence) نہ ہو

حضرت وُہَیْب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے چھوٹی عید کے دن کچھ لوگوں کو ہنستے ہو ئے دیکھا تو کہنے لگے: اگر ان لوگوں کی مغفرت ہو گئی ہے تو کیا یہ شکر کرنے والوں کا کام ہے اور اگر ان کی بخشش نہیں ہوئی تو کیا یہ خائفین(یعنی اللہ کریم سے ڈرنے والوں )کا طریقہ ہے؟ (احیاء العلوم ،ج۳،ص۳۹۰) وہ لوگ غفلت(negligence) سے ہنس رہے تھے، اس لیے حضرت وُہَیْب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ بات کہی ورنہ عید کے دن خوشی ظاہر کرنی چاہیے۔ (فیضانِ نماز ص۳۵۱ مُلخصاً)

نَمازِ عید کس پر واجِب ہے؟:

عیدَین ( یعنی عیدُ الفطر اور عیدُ الاضحیٰ) کی نَماز واجِب ہے مگر صِرف ان پر لازم ہےکہ جن پر جُمُعہ واجِب ہے۔ عِید کی نماز میں نہ اذان ہے نہ اِقامت ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹ مُلخصاً)

جمعہ اور عید پڑھنا لازم ہونے کی گیارہ(11)شر طیں(conditions) ہیں:

{1} شَہر میں مقیم (یعنی مُسافر نہ )ہونا {2} صِحّت یعنی ایسےمریض پر جُمُعہ فرض نہیں جو اُس مسجِد تک نہ جاسکتا ہو ، جہاں جُمُعہ ہوتا ہویا عَنْہُمَا وہ بیمار آدمی ، جُمُعہ والی مسجد میں چلا توجائے گا مگر بیماری زیادہ ہو جائے گی یا عَنْہُمَا وہ بیمار آدمی ، جُمُعہ والی مسجد جانے کی وجہ سے دیر میں اچھّاہو گا (تو ایسے مریض پر جمعہ لازم نہیں ، تھوڑی بہت بیماری ہے تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے جانا ہوگا) {3} آزاد ہونا (اب سب لوگ آزاد ہیں) {4} مرد ہونا {5} بالِغ (grown-up)ہونا {6} عاقِل(یعنی پاگل وغیرہ نہ) ہونا {7} انکھیارا ہونا(یعنی اندھے پر جمعہ لازم نہیں) {8} چلنے کی طاقت ہونا {9} قَید(imprisonment) میں نہ ہونا {10} بادشاہ یا چوریاکسی ظالم کا ڈر نہ ہونا {11} بارش یا آندھی(wind) یا اَولے(hails) یا سردی کا اتنا زیادہ نہ ہونا جس میں جُمُعہ کی نماز کے لیے جانے میں نقصان کا صحیح خطرہ (danger)ہو(تھوڑی بہت بارش، سردی وغیرہ کی وجہ سے جُمُعہ کی نماز بالکل نہیں چھوڑ سکتے)۔(بہارِ شریعت ج۱ص،۷۷۰،۷۷۲ مُلخصاً) جن پر نَماز فرض ہے مگر کسی شَرعی اجازت سے جُمُعہ فرض نہیں ، اُن کو جُمُعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا مُعاف نہیں ہے بلکہ ظہر کی نماز تو پڑھنی ہی ہوگی۔(فیضانِ جمعہ ص ۲۰،مُلخصاً)

ایک بَہُت ضروری مسئلہ جس کی طرف عوام کی بالکل توجُّہ(attention) نہیں وہ یہ ہے کہ جُمُعہ کی نمازکو عام نَمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جُمُعہ شروع کرلیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ جُمُعہ قائم کرنا (یعنی پڑھانا)بادشاہِ اسلام یا اُس کے نائب(deputy) کا کام ہے ۔ او ر جہاں اسلامی سلطنت(مکمل شرطوں (preconditions) کےساتھ اسلامی حکومت) نہ ہو تو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ( عالم) سُنّی صحیحُ الْعقیدہ ہو، وہ شَریعت کے حکم جاری کرنے میں سلطان کا قائم مقام (deputy) ہے لہٰذا وُہی جُمُعہ قائم کرے(پڑھائے)، بغیر اُس کی اجازت کے ( جُمُعہ) نہیں ہو سکتا اور یہ بھی نہ ہو تو پھرعام لوگ ( مثلاًکمیٹی وغیرہ)جس کو امام بنائیں(مگر اُس میں امام کی شرطوں (preconditions) کا ہونا ضروری ہے) وہ جُمُعہ پڑھا دے ۔ عالم کے ہوتے ہوئے عوام اپنی طرف سے خود کسی کو امام نہیں بنا سکتےاور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ دو چار (2-4)شخص کسی کو امام بنا کر جُمُعہ کی جماعت کر لیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۶۴ مُلخصاً)

عید اور جُمُعہ کی نماز میں فرق(difference):

عید کی نماز کے لیے وُہی شرطیں (preconditions)ہیں جو جمعہ کی نماز کے لیے ہیں لیکن کچھ فرق (difference) ہیں:(۱) جُمُعہ کی نماز کے لیے خُطبہ دینا( یعنی منبر جو کہ ایک طرح کی سیڑھی ہے،پر کھڑے ہو کر امام صاحب عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں، اِسے خُطبہ کہتے ہیں ، یہ) شرط(یعنی لازم) ہے جبکہ عید کی نماز میں یہ خُطبہ سُنَّت ہے(۲) جُمُعہ کا خطبہ نَماز سے پہلے ہوتا ہے اور عید کا خطبہ نَماز کے بعد ہوتا ہے ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹،عالمگیری ج۱ص۱۵۰ مُلخصاً) (۳)اسی طرح جمعہ میں پہلا خُطبہ دینے سے پہلےخطیب صاحب کا بیٹھنا سنَّت ہے جبکہ عیدمیں نہ بیٹھنا سنَّت ہے(۴) عید میں خطیب صاحب (یعنی امام صاحب کے لیے) پہلے خُطبے سے پہلے نو(9)بار اور دوسرے خطبے سے پہلے سات (7)بار اور منبر سے اُترنے سے پہلے چودہ (14)باراَللہُ اَکْبَر کہنا سنَّت ہے اور جُمُعہ میں یہ پڑھنا نہیں ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۳)

جمعہ اورعید کی نماز وں کے شروع ہونے اور ختم ہونے کےوقت:

عید کی نماز کا وَقت سورج نکلنے کے اتنی دیر بعد ہوتا جب سورج ایک نیزہ تک (یعنی جب تک سورج اتنا ٹھنڈا نہ رہے کہ باآسانی اُسےکچھ دیر تک دیکھا جاسکے بلکہ) اوپر ہو نے ( کہ اب مسلسل(continuously) سورج کو تھوڑی دیر بھی نہ دیکھا جاسکے(یعنی مکروہ وقت کے بعد، اشراق کی نماز کے وقت میں)، پاک وہند وغیرہ کے لیے احتیاطاً سورج نکلنے کے 20 مِنَٹ کے بعد) سے ضحویٰ کُبریٰ تک ہے (ضحوۂ کُبریٰ کا وقت نماز calenderیا prayer time dawateislami سے دیکھا جاسکتا ہے)۔ مگر چھوٹی عید میں دیر سے نماز پڑھنا اور بڑی عید میں جلدی پڑھنا مُستحب(اور ثواب کا کام) ہے ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱، دُرِّمُختار ج۳ص۶۰ مُلخصاً) جُمُعہ کا وقت زوال (کے بعد اگلے لمحے۔next moment) سے لے کر عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے(یعنی ظہر کی نماز کے وقت میں جمعہ پڑھنا ہے) (بہار شریعت ج۱،ص۴۴۹، ماخوذاً) ۔جُمُعہ اور عید کی نماز کا سلام پھیرنا (یعنی ان نمازوں کو پورا کرنا)، ان نمازوں کے وقت کے اندر لازم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۳،ص۴۳۹، ماخوذاً)

صرف تین باتیں یاد کرلیں نمازِ عید کا طریقہ نہیں بھولیں گے!!! )اِنْ شَاءَ اللہ ! یعنی اللہ کریم نے چاہا تو)

{1}نمازِ عید کی دو(2) رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں عام معمول(routine) سے ہٹ کر تین(3) مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیر کہنی ہے(یعنی اَللہُ اَکْبَر کہنا ہے)۔
{2}پہلی رکعت میں نیّت باندھنے اور ثناء(یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ) پڑھنے کے بعد ،قراءت سے پہلے تین (3)مرتبہ تکبیر کہنی ہے(یعنی اَللہُ اَکْبَر ) اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد، رکوع میں جانے سے پہلے تین (3)مرتبہ تکبیر کہنی ہے(یعنی اَللہُ اَکْبَر ) ۔
{3} جہاں کچھ پڑھنا یا سنناہے وہاں ہاتھ باندھنا ہے اور جہاں کچھ پڑھنا یا سننا نہیں ہے، وہاں ہاتھ کھول کر رکھنا ہے(ثناء پڑھیں گے یا قراءت سنیں گے تو ہاتھ باندھیں گے ورنہ نہیں)۔

نَمازِ عِید کا طریقہ(حنفی):

{1} اِس طرح نیّت کیجئے : میں نیّت کرتا ہوں دو(2) رَکْعَت عید(الفطر یا عید الاضحیٰ) کی نَماز کی ، چھ(6) زائد(additional) تکبیروں(یعنی اَللہُ اَکْبَر ) کے ساتھ، نمازاللہ کریم کےلیے پڑھتا ہوں ، پیچھے اِن امام صاحب کے۔
{2}پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہہ کر عام نمازوں کی طرح ناف (navel)کے نیچے باندھ لیجئے اور ثَناء (یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ) پڑھئے ۔
{3} پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے لٹکا دیجئے(یعنی ہاتھ باندھنے نہیں ہیں، کھلے رکھنے ہیں اورہر تکبیر کے بعد دوسری تکبیر کہنے سے پہلے، اتنی دیر چُپ کھڑا رہنا ہے جس میں تین(3) بار ’’سُبْحَانَ اللہ ‘ ‘کہا جا سکے)پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہہ کر لٹکا دیجئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہہ کر اب ہاتھ باندھ لیجئے(یہ کُل(total) چار(4) تکبیریں ہوئی، پہلی (1st )تکبیر نماز شروع کرنے کے لیے اور تین(3) مزید (more)ہوئیں۔ پہلی تکبیر(1st )کے بعد ثنا پڑھنی ہے تو ہاتھ باندھ لیا، دوسری(2nd ) اور تیسری(3rd ) کے بعد کچھ نہیں پڑھنا تو لٹکا دیا اور چوتھی(4th ) کے بعد امام صاحب نے قراءت کرنی ہے، اس لیے باندھ لیا)۔
{4} پھر امام صاحب تعوّذ(یعنی اَ عُوْذُ بِاللّٰہ۔مکمل)اور تسمیہ(یعنی بِسْمِ اللہِ۔مکمل) آہِستہ پڑھ کر اونچی آواز سے اَلحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور سورۃ پڑھیں ، پھر رُکوع کریں اور یہ رکعت عام نمازوں کی طرح مکمل کر لیں۔
{5} پھر امام صاحب دوسری رَکْعَت میں پہلے اَلحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور سُورۃ اونچی آواز کے ساتھ پڑھیں ، پھر تین (3)بار کان تک ہاتھ اٹھا کر اَللہُ اَکْبَر کہیں اور ہاتھ نہ باندھیں ) اور ہر تکبیر کے بعد دوسری تکبیر کہنے سے پہلے، اتنی دیر چُپ کھڑا رہنا ہے جس میں تین(3) بار ’’سُبْحَانَ اللہ ‘ ‘کہا جا سکے) اور چوتھی بار(fourth time)بِغیر ہاتھ اُٹھائے اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رُکوع میں جائیں اور عام نمازوں کی طرح یہ نَماز بھی مکمَّل کرلیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱ دُرِّمُختار ج۳ص۶۱ وغیرہ مُلخصاً)

عید کی جماعت مکمل نہ ملی ہو تو؟:

{1} پہلی (1st )رَکعَت میں امام صاحب کے تکبیریں کہنے کے بعد مقتدی(یعنی نمازی) آکر جماعت میں شامِل ہوا تو اُسی وَقت(نماز شروع کرنے والی تکبیرِ تَحریمہ(یعنی اَللہُ اَکْبَر ) کے بعدمزید۔more) تین(3) تکبیریں(یعنی مزید (more)تین مرتبہ اَللہُ اَکْبَر ) کہہ لے،چاہے امام صاحب نے قراءَت شروع کر دی ہو۔
(۲) امام صاحب رُکوع میں ہیں اوراُسے مضبوط خیال نہیں ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام صاحب کو رُکوع میں پالیگا تو کھڑے کھڑےپہلی تکبیر(یعنی ایک مرتبہ اَللہُ اَکْبَر کہہ کر نماز شروع کرے پھر اَللہُ اَکْبَر کہہ کر) رُکوع میں جائے اور رُکوع میں (بغیر ہاتھ اُٹھائے) تکبیریں(یعنی تین مرتبہ اَللہُ اَکْبَر ) کہے ۔
(۳) رکوع میں تکبیریں کہنا شروع کی تھیں مگر ابھی مکمل تین (3) مرتبہ اَللہُ اَکْبَر نہ کہاتھا کہ امام صاحب نے’’سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ کہتے ہوئے سر اُٹھالیا تو باقی(remaining) تکبیریں اب نہ کہے(جو رہ گئیں ، وہ رہ گئیں اور نماز بھی صحیح ہوگی)۔
{3} اگر امام صاحب کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد جماعت سے ملا یاعَنْہُمَا دوسری (2nd ) رکعت میں امام صاحب سے ملا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد) جب اپنی( باقی نماز ) پڑھے، اُس وَقت کہے۔
امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیریں پڑھنے کا طریقہ:
(۱) اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس طرح دوسری(2nd ) رکعت میں قرائت کے بعد رکوع کرنے سے پہلے تکبیریں کہتے ہیں، اُسی طرح کہیں(فتح القدیر، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ العید، ج۲،ص۷۶، مطبوعہ کوئٹہ)، یعنی ثَناء (یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ) پڑھئےپھرتعوّذ(یعنی اَ عُوْذُ بِاللّٰہ۔مکمل)اور تسمیہ(یعنی بِسْمِ اللہِ۔مکمل) پڑھ کراَلحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور سورۃ پڑھیں پھرتین (3)بار کان تک ہاتھ اٹھا کر اَللہُ اَکْبَر کہیں اور ہاتھ نہ باندھیں ) اور ہر تکبیر کے بعد دوسری تکبیر کہنے سے پہلے، اتنی دیر چُپ کھڑا رہنا ہے جس میں تین(3) بار ’’سُبْحَانَ اللہ ‘ ‘کہا جا سکے) اور چوتھی بار(fourth time)بِغیر ہاتھ اُٹھائے اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رُکوع میں جائیں۔
(۲) اگر پہلی (1st )رکعت کی طرح قرائت سے پہلے تکبیریں کہیں تب بھی جائز ہے(مراقی الفلاح شرح نورالایضاح، باب احکام العیدین،ص ۲۷۳،مکتبۃ المدینہ)، یعنی پہلے سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ پڑھئےپھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے لٹکا دیجئےپھر دوسری مرتبہ ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہہ کر لٹکا دیجئے ۔ پھر تیسری مرتبہ کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَر کہہ کر اب ہاتھ باندھ لیجئےپھر اَ عُوْذُ بِاللّٰہ اور بِسْمِ اللہِ پڑھ کراَلحَمْدُ عَنْہ لِلّٰہ اور سورۃ پڑھیں۔( دارالافتاء اہلسنّت ، غیر مطبوعہ، ماخوذاً)
{4} امام صاحب دوسری (2nd ) رکعت کے رُکوع میں چلے گئے، اس کے بعد نمازی آیا تو اب بھی وہی مسائل ہیں جو پہلی(1st ) رکعت میں بیان ہوئے((۱) مضبوط خیال(strong assumption) ہے تو تکبیریں کہہ کر رکوع(۲) مضبوط خیال نہیں ہے تو رکوع میں تکبیریں(۳) امام صاحب رُکوع سے اُٹھ گئے تو باقی تکبیریں چھوڑ دے)۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۲، دُرِّمُختار ج۳ص۶۴، عالمگیری ج۱ص ۱۵۱ مُلخصاً)

عید کی جماعت نہ ملی تو کیا کرے؟:

امام صاحب نے نَماز مکمل پڑھ لی اور کوئی شخص قعدے(یعنی نماز کے آخر میں سلام سے پہلے بیٹھنے ) میں بھی نہ مل سکا ،تو اگر دوسری جگہ عید کی جماعت مل جائے گی تو وہاں جا کر عید کی نماز پڑھے ورنہ ( جماعت اور دوسری شرطوں (preconditions)کےبغیرعید کی نماز )نہیں پڑھ سکتا ۔اگر کہیں پر بھی عید کی نماز نہیں ملی تو بہتر یہ ہے کہ یہ شَخص چار(4) رَکْعَت چاشت کی نَماز (اپنے گھر میں)پڑھے۔ (فیضانِ عید ص ۳ تا ۶ مُلخصاً) ( ) یاد رہے کہ شرعی اجازت کے بغیر عید کی نماز چھوڑنا گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔

’’سفر اور مسافر کی نماز ‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں:

اللہ کریم کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سفر کی نماز کے لیے دو(2) رکعتیں مُقَرَّر (fixed)فرمائیں اور یہ(دو (2) رکعتیں) پوری(نماز) ہے کم نہیں یعنی اگرچہ بظاہر دو (2) رکعتیں کم ہوگئیں مگر ثواب میں یہ دو (2 رکعتیں)ہی چار(4) کے برابر ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، الحدیث: ۱۱۹۴، ج۲، ص۵۴)

واقعہ(incident): سفر میں بھی نفل نمازیں

حضرت ابو سلیمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکّے شریف کی طرف جاتے ہوئے میں ایک بزرگرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ آپ کا معمول تھا( routine یہ تھی)کہ قافِلہ جب بھی کسی مقام پر رُکتا تو اپنی چادر وغیرہ اُتار کر اونٹ پر رکھ دیتے اور سب سے الگ نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے جاتے۔ جب لوگ اونٹوں کو لے جانے کے لیے کھڑا کرتے تو اُن کاشور(noise) سن کر واپس آجاتے۔ ایک دن آپ کو آنے میں دیر ہوگئی۔ قافلے والے آپ کو ڈھونڈ رہے تھے (looking for him) ، (حضرت ابو سلیمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں:) میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سخت دھوپ (blazing sun)میں ایک بہت بڑے میدان(very large ground) کے بیچ میں نماز پڑھ رہے تھے اور بادَل(cloud) آپ پر سایہ(shade)کئے ہوئے تھا۔ نماز پوری کر کے جب آپ نے مجھے دیکھا تو قریب آکر کہنے لگے: ابو سلیمان! تم سے ایک کام ہے۔ میں نے پوچھا: ابو عبدُاللّٰہ! کیا کام ہے؟ فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ تم نے یہاں جو کچھ دیکھا اسے کسی کو مت بتانا۔میں نے کہا: میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زندگی میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
(اللّٰہ والوں کی باتیں ،ج ۵،ص ۱۰۳ تا ۱۰۴،مُلخصاً)

مسافر کی نماز :

{1} شہر سے باہر (ہموار(smooth)زمینی راستے پر) 92 کلو میٹر یا اس سے زیادہ دور جگہ کا سفر کرے تو شرطیں (preconditions) پائے جانے پر مسافر ہوگا( اور اب چار(4)رکعت والی فرض نماز ،دو(2)رکعت پڑھے گا)۔
{2} یہ 92 کلومیٹر شہر اور فنائے شہر کے ختم ہونے کے بعد گنِنا(count کرنا) شروع کئے جائیں گے۔
نوٹ: فنائے شہر سے مراد شہر سے ملے ہوئے قبرستان(graveyard)، گھوڑ دوڑ کا میدان(race course)، کوڑا پھینکنے کی جگہ(garbage dump) وغیرہ ہے ۔ شہر ختم ہونے کے بعد اگر باغ ملے ہوئے ہوں تویہ فنائے شہر میں شامل نہیں ہونگے(یعنی اگر شہر سےباغات(gardens) ملے ہوئے ہیں تو یہی سے سفر کا فاصلہ(distance) شمار(count) کرنا شروع کر دیں گے لیکن اگر شہر سے ملا ہوا قبرستان ہو تو قبرستان کے بعد سے کلو میٹر گننا شروع کریں گے چاہے ایسے قبرستان کے بعد گاؤں ہی کیوں نہ ملا ہوا ہو تب بھی گاؤں سے کلومیٹر گنیں گے )۔
نوٹ: ٹول پلازہ (toll plaza) شہر کی سرکاری حدود(official boundaries) کے لیے بنائے جاتے ہیں اور شرعی طور پر مسافر بننے کے لیے کچھ شرطوں (preconditions) کے ساتھ شہر بلکہ شہرسے ملی ہوئی آبادی سے باہر ہو نا ضروری ہے۔ ایسا بالکل ضروری نہیں ہے کہ شہر سے ملی ہوئی آبادی ٹول پلازہ (toll plaza) پر ختم ہو جائے لھذا شرعی سفر کے لیے ٹول پلازہ (toll plaza) کوئی معیار(standard) نہیں ہے۔ (مارچ 2023،ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دارالافتاء اہلسنّت ، مُلخصاً)
{3} جب تک سفر کے ارادے(intention) سے شہر اور فنائے شہر سے باہر نہ ہوا مسافر نہ ہوگا(مثلاً اپنے شہر کے اندر اسٹیشن پر ہے تونماز پوری پڑھے گا)۔
{4} ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہے۔ جس شہر سے جانا ہے، جب اُس شہر اور اس کے فنائے شہر سے باہر نکلا تو اب دوسرے شہر بلکہ اُ س دوسرے شہر کے فنائے شہر سے پہلے 92 کلو میٹر کا راستہ ہو تو اب مُسافر بنے گا۔

{5} اوپر بیان کردہ سب شرطیں (preconditions)پائی جارہی ہیں مگر دوسرے شہر میں پندرہ(15)یا زیادہ دن رہنے کی نیّت ہے تو اب مسافر نہیں بلکہ اس شہر میں مقیم والی نماز پڑھے گا(یعنی چار (4)رکعت والے فرض کی چار (4) رکعتیں ہی پڑھے گا (البتہ راستے میں جہاں مسافر ہو جائے گا تو مسافر والی نماز پڑھے گا)۔

{6} اگر پندرہ(15)دن سے کم دن ٹھہرنے کی نیّت ہے تو جب تک اپنے شہر میں واپس نہ آئے گا مسافر رہے گا، مسافر والی نماز پڑھے گا۔

{7} سب شرطیں (preconditions) پائی جاتی ہیں شہر وفنائے شہر سے باہر نکل گیا مگر ابھی 92 کلو میٹر کا سفر مکمل نہیں کیا (اراد ہ تو سفر ہی کا تھا) مگر کسی وجہ سے اپنے شہر واپس ہوا تو اب یہ مسافر نہیں، واپسی پر شہر آنے سے پہلے بھی جو نماز پڑھے گا وہ مکمل پڑھے گا۔

{8} پندرہ(15)دن کی باقاعدہ نیّت ہونا ضروری ہے۔اگر یہ کیفیت یا یہ حالت(condition) ہے کہ جب کام ہوجائے گا چلا جاؤں گا۔ آج کل کرتے کرتے پندرہ(15)دن ہوگئے بلکہ مہینے ہوگئے تب بھی مسافر ہی رہے گا۔

{9} اگر کسی گناہ کے ارادے سے (مثلاً کسی میوزیکل شو کے لئے ) سفر کیا تب بھی شرطیں (preconditions) پائی جانے پر مسافر ہوگا، سفر والی نماز پڑھے گا۔

10} عورت ، شوہر یاقابل اعتماد محرم(یعنی جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو اور بھروسے(trust) والا آدمی ہو) کے ساتھ ہی شرعی سفر کرے گی۔

{11} مسافر پر قصر یعنی (چار(4)رکعت والی فرض نماز ،دو(2)رکعت پڑھنا) واجب ہے(نوٹ: مغرب کے فرض میں، وتر کی تین (3)رکعتوں میں قصر نہیں ہے۔ اسی طرح چار(4)سنّتیں ، چار(4) رکعت ہی پڑھی جائیں گی)۔

{12} مسافر عام حالت میں سنّتیں پڑھے البتہ سفر جاری ہے، بھاگ دوڑ ہے تو سنّتیں معاف ہیں(فجر کی سنّتوں کے علاوہ (other) دیگر سنّتیں اپنی شرطوں (preconditions) کے ساتھ چلتی سواری(moving ride) میں بھی پڑھ سکتے ہیں)۔

نوٹ: مسافر کو سنّتوں کے ساتھ نفل نمازیں بھی پڑھنی چاہئے تاکہ عبادت کی عادت باقی رہے۔

{14} مسافر نے چار(4) رکعت والی فرض کو دو(2) کی جگہ چار(4) ہی پڑھنا شروع کردیا اور دوسری (2nd )رکعت میں قعدہ نہ کیا (یعنی دوسری رکعت کے سجدوں کے بعداَلتَّحِیَّاتکے لئے نہ بیٹھا تھا) اور نماز مکمل کر لی تو وہ نماز نفل ہوگئی (یعنی اب دو(2)رکعت فرض دوبارہ پڑھے)۔

{15} مسافر نے دو (2) کی جگہ چار (4) کی نیّت کر لی پھر دو(2) پر ہی سلام پھیر دیا ،تونماز ہوگئی(دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں)۔

{16} سفر میں جو نماز قضا ہوئی، اگر وہ چار(4) رکعت والی فرض ہے تو گھر آکر بھی دو (2) رکعت ہی قضاء پڑھنی ہوگی اور جو گھر (یعنی وطنِ اصلی) میں قضا ہوئیں وہ سفر میں بھی مکمل(مثلاً چار (4) رکعت) قضاء پڑھنی ہوگی۔

{17} وَطَنِ اصلی وہ جگہ جہاں اس کے گھر کے لوگ رہتے ہیں ،مستقل رہائش (permanent residence)ہے، وہیں رہنے کا ارادہ بھی ہے تو وہ شہر اس کا وطنِ اصلی ہے یہاں ایک دن کے لئے بھی آئے گا تو نماز مکمل ہی پڑھنی ہوگی۔

{18} ایسا شہر جس میں اس کی رہائش وغیرہ نہیں ہے مگر پندرہ(15)دن یا زیادہ دن رہنے کا ارادہ ہے تو اب یہاں مکمل نماز پڑھنی ہوگی اور یہ شہر اس کے لئے وطنِ اقامت ہے (یہاں پندرہ(15)دن سے مراد راتیں (nights) ہیں ، اگر دن میں کسی ایسے دوسرے شہر(مثلاً تجارت کے لیے یا کسی بھی کام سے) چلا جاتا ہے کہ جواُس جگہ سے کے جہاں ٹھرا ہے، وہاں سے بیانوے(92) کلو میٹر یا اس سے زیادہ دور نہ ہومگر رات اسی شہر(وطنِ اقامت) میں گزارتا ہے ، تو بھی مقیم ہے یعنی(سب جگہ) نماز مکمل پڑھے گا۔ (جد الممتار،ج۳،ص۵۶۶ مع فتاوی رضویہ ج۸،ص۲۵۱ ماخوذاً))

{19} وطن اقامت سے کسی دوسرے شہر پندرہ(15) دن کے لئے چلا گیا تو یہ پہلا شہر اب وطن اقامت نہیں رہا۔ یعنی دوسرے شہر سے دوبارہ پہلے شہر آئے تو اب اس شہر میں آکر پندرہ(15) دن رُکنے کی نیّت نہ ہو (اور دونوں شہروں کے درمیان، 92کلو میٹر یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو) تو چار(4) رکعت فرض دو(2) رکعت ہی پڑھے گا۔

{20} اسی طرح وطنِ اقامت سے اپنے رہائشی شہر (یعنی وطنِ اصلی)میں گیا،چاہے تھوڑی ہی دیر کے لئے گیااور پھر واپس وطنِ اقامت میں آگیا لیکن اب اس شہر میں اگرمزید (more) پندرہ(15) دن رُکنے کی نیّت نہیں تو چار(4) رکعت فرض دو (2)رکعت ہی پڑھے گاجبکہ دونوں شہروں کے درمیان اتنا سفر ہو کہ وہ مسافر بن جائے۔

{21}شادی کے بعد عورت عام طور پر اپنے شوہر کے شہر میں رہتی ہے۔اگر یہی صورت (case) ہے تو عورت کے ماں باپ کا شہر اب اس کا رہائشی شہر(یعنی وطنِ اصلی) نہ رہا۔ اب اگر اپنے ماں باپ کے شہرجائے گی اور پندرہ(15) دن رُکنے کی نیّت نہیں تو چار(4) رکعتی فرض دو(2) رکعت پڑھے گی جبکہ مسافر بننے کی تمام شرطیں (preconditions)پائی جائیں۔

{22} غیر قانونی کسی ملک میں مستقل بھی رہائش کرنے والے کے لئے شرعاً وہ شہر وطنِ اصلی نہیں ہوگا( )۔ (مسافر کی نماز ماخوذاً،مزید(more) تفصیلات جاننے کے لیے امیرِ اہلسنّت (دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ)کا رسالہ''مسافر کی نماز "کا مطالعہ کریں)

{23} کوئی آدمی سفر وغیرہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں قبلہ کی سمت(direction) معلوم نہیں تو کسی مسلمان سے پوچھے ، یا وہاں مسجدہے تو اس سے قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھ لے() اگرایسی جگہ پر ہے جہاں قبلہ رُخ پتا ہی نہیں چل رہا، نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جس سے پوچھ کرمعلوم کر سکے(نہ وہاں مسجديں ہیں) تو ” تَحَرِّی” کرے یعنی سوچے اور جہاں دل جمے( مضبوط خیال(strong assumption) ہو جائے) کہ یہاں قبلہ ہے تو اُسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔(بہارِ شریعت ج ۱ ،ص ۴۸۹تا۴۹۱، مسئلہ ۵۸تا ۶۵ ،مُلخصاً)

نوٹ: (۱) وہ مَمالک(countries) کہ جن کے(تقریباً) مغرب(west) میں قبلہ شریف ہے، ان ممالک (countries)میں سورج سے بھی قبلہ رُخ معلوم ہو سکتا ہے(جیسے پاکستان ، ہند وغیرہ)، مثلاً سفر کے دوران عصر تاخیر سے (late)پڑھ رہے ہیں تو سورج کی طرف اپنارخ(own direction) کرنے سے آپ قبلہ رُخ ہو جائیں گے(یاد رہے کہ شرعی اجازت کے بغیر عصر کی نماز کو مکروہ وقت تک تاخیر سے(late) پڑھنا، ناجائز اور گناہ ہے) اسی طرح نظروں کے سامنے سورج ڈوبا(sun went down) اوراسی طرف مغرب پڑھ لی۔

(۲) آج کل موبائل کے ذریعے بھی قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھا جاتا ہے، جہاں معلوم نہ ہو رہا ہو(کہ وہاں نہ مسجد ہو نہ سورج جیسے عشاء اور فجر کا وقت) اور بتانے والا بھی کوئی نہ ہو، وہاں نیٹ کے ذریعے قبلہ رُخ(Qibla direction) دیکھ کر مضبوط خیال (strong assumption) ہو سکتا ہے۔یا د رہے کہ کچھ موبائلز(mobiles) نیٹ(net) کے بغیر ڈگری بتا دیتے ہیں(مگر آہستہ آہستہ ایسی اپلیکشنز (applications) کم ہوتی جا رہی ہے، اگر واقعی(really) کسی کے پاس مؤبائل میں ایسی اپلیکشنز (applications) ہے ) تو پاکستان(Pakistan)، ہند(India)، بنگلہ دیش(Bangladesh) اور نیپال(Nepal) وغیرہ دو سو ستر ڈگری (270 degree) دیکھ کر(بغیر نیٹ (net)کے بھی ) قبلے رُخ(Qibla direction) دیکھ کر مضبوط خیال (strong assumption) ہو سکتا ہے۔ {24}پیشاب وغیرہ کرتے وقت یا (اس کے بعد)طہارت کرنے (یعنی

کے لیے پانی سے جسم دھونے) میں نہ قِبلےکی طرف منہ کر سکتے ہیں ، نہ پیٹھ(back) ۔ یہ حکم ہر جگہ کے لیے ہے چاہے مکان کے اندر ہوں یا میدان میں ۔ اگر بھول کر قِبلے کی طرف منہ یا پیٹھ(back) کر کے بیٹھ گئے ،تو یاد آتے ہی فوراً اپنارُخ (direction) بدل دیجیئے ،اس میں اُمید(hope) ہے کہ فوراً اس کے لیے مغفرت فرمادی جائے (بہارِ شریعت ج۱، ح۲، ص ۴۰۸، مُلخصاً) ۔ قِبلےکی طرف منہ یا پیٹھ کرنے سے بچنےکا مطلب یہ ہے کہ(منہ یا پیٹھ)قبلے شریف کےرُخ (direction) سے45ڈِگری (e degre) باہر ہوں (بہارِ شریعت ج۱، ح۳، ص ۴۸۷، ماخوذاً) ۔لھذا مسافر کو چاہیے کہ سفر میں بھی قبلہ رُخ(Qibla direction) کی معلومات رکھے اور استنجاء کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے بچے۔

چلتی گاڑی میں نماز :

{1} چلتی گاڑی میں شرعی اجازت کے بغیر فرض ، تمام واجب نمازیں(مثلاً وتر کی نماز) اور فجر کی سنّتیں نہیں پڑھ سکتے(سفر اس انداز (style)سے کیجیے کہ کم سے کم نمازوں کا وقت، سفر میں آئے۔ سفر اگر چھوٹا ہو تو عصر، مغرب کی نمازوں کے وقت میں سفر نہ کریں اور اگرلمبا ہو تو اسٹا پ پر جب گاڑی رُکے تو زمین پر یا رُکی ہوئی گاڑی پر کھڑے ہو کر قبلہ رُخ نماز پڑھیں) اور اگر کوئی عُذر ہو(مثلاً گاڑی نہیں رُک رہی) تو ان سب نمازوں (یعنی فرض، واجب، فجر کی سنّتوں)کوقبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوکر پڑھے ورنہ( مثلاً لوگ بہت زیادہ ہیں کہ کھڑے ہو کر پڑھنے کی جگہ ہی نہیں تو) جیسے بھی ممکن ہوپڑھ لے اور بعد میں نماز کو دہرا لے (یعنی دوبارہ پڑھ لے، اُس وقت یہ نماز اس لیے پڑھی جائے گی تاکہ قضا کا گناہ نہ ہو اور بعد میں اس لیے دہرانی ہے کہ نماز میں جو کمی رہ گئی ہے، وہ دور ہوجائے)۔(بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص۶۷۳ ، مسئلہ۷۴ مُلخصاً)

{2} چلتی ٹرین وغیرہ ایسی سواری جس میں جگہ مل سکتی ہے اُس میں نفل نماز پڑھ سکتے ہیں مگر نفل نماز بھی قبلہ رُخ پڑھنی ہو گی۔(مسافر کی نماز ص ۱۳ مُلخصاً)

{3} شہر اور فناء شہر سے نکل کر، شرطیں (preconditions)پائے جانے کی وجہ سے جب مسافر ہوگئے تو دوسرا شہر آنے سے پہلے پہلے، ایسی سواری جس میں کھڑے ہونے کی جگہ نہ ہو ( مَثَلاً چھوٹی کار، بس، ویگن )میں نفل نماز پڑھ سکتے ہیں اور اس صورت (case) میں قبلےکی طرف منہ کرنا ضروری نہیں بلکہ لازم ہے کہ سواری (یا گاڑی) جس طرف جارہی ہو، اسی طرف منہ کیا جائے مثلاً قبلہ سیدھے کندھے کی طرف ہے تو کوئی سیدھی طرف مڑ گیا اور نماز پڑھی تو، نماز نہ ہوگی بلکہ حکم یہ ہے کہ جس طرف گاڑی جا رہی ہے، اُسی طرف نماز پڑھے۔ اس نماز میں رُکوع اور سجدے ، سر(head) کے اِشارے سے کر ے اور اشارہ کرنے میں یہ ضروری ہے کہ سجدے کا اِشارہ، رُکوع کے اشارے سے زیادہ نیچے ہو( یعنی رُکوع کیلئے جتنا جھکا ہے، سجدے میں اس سے زیادہ جھکے ورنہ نماز نہیں ہوگی)۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج ۲ ص۵۸۸، بہارِ شریعت ج ۱ ص۶۷۱ مُلخصاً) ( )

’’کشتی اور جہاز میں نماز کا طریقہ‘‘

فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

میری اُمّت کے لئے ڈوبنے سے حفاظت(safety) ہے اگر وہ کشتی میں سوار ہوکر یہ پڑھ لیں’’ بِسْمِ اللّٰهِ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﳓ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۶۷)بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘۔(معجم الاوسط، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)

واقعہ(incident): کشتی نہ ڈوبی

امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت، پیر طریقت، حضرت علَّامہ مولانا ، اماماحمد رضا خان قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عمر جب تئیس (23)سال تھی۔ آپ پہلی بار اپنے والدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا کے ساتھ حج کرنے کے لیے گئے،اُن دنوں سفر پانی کے جہاز(ship یعنی بڑی بڑی کشتیوں (boats))پر ہوتے تھے۔جب اس برکت والے(blessed) سفر سے واپسی ہوئی تو تین(3) دن بہت سخت طوفان(storm) رہا، بہت تیز تیز ہوائیں چلتی تھیں، لوگوں کو زندہ بچنے کی اُمید(hope) نہ رہی ۔ وہ سمجھنے لگے کہ اب یہ پانی کا جہاز ڈوب(sink) جائے گا۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ صاحبہ بھی بہت پریشان تھیں۔ یہ دیکھ کر اعلیٰ حضرت کی زبان سے فوراً اس طرح کےجملے نکلے:اللہ کریم کی قسم! یہ پانی کا جہاز(ship) نہیں ڈوبے گا۔یہ قسم آپ نے حدیث شریف پر یقین کی وجہ سے کھائی کہ آپ نے کشتی میں چڑھتے ہوئے پڑھنے کی دعا پڑھی تھی(جو کہ اوپر موجود ہے) اور اس کے بارے میں ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ ڈوبنے سے بچا رہے گا (معجم الاوسط، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶) ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یہ دعا پڑھ چکے تھے اور آپ کو حدیث پر مکمل یقین تھا اس لیے زبا ن سے قسم کے الفاظ نکل گئے۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص ۱۸۱۔۱۸۲ ماخوذاً)

کشتی میں نماز:

{1}چلتی ہوئی کشتی یا پانی کا جہاز (یعنی بڑی کشتی)میں شرعی اجازت کے بغیر بیٹھ کر فرض، واجب نمازیں (مثلاً عشاء کے بعد تین وتر) اور فجر کی سنّتیں) ادا نہیں ہوتیں جبکہ زمین پر اتر کر نماز پڑھ سکتےہوں۔

{2}کشتی زمین پر رُکی ہوئی ہو تو اتر کر نماز پڑھنا ضروری نہیں، کشتی ہی میں کھڑے ہوکر قبلہ(یعنی کعبۃ اللہ شریف ) کی طرف منہ کر کے نمازپڑھ سکتے ہیں۔

{3}کشتی پانی میں ہے اور کنارے پر بندھی ہو اور اتر سکتا ہو تو اتر کر زمین پر نماز پڑھے۔ اور اگر اتر نہیں سکتا تو کشتی ہی میں کھڑے ہو کر، قبلہ رُخ پڑھیں۔

{4}کشتی چل رہی ہو تب بھی کھڑے ہو کر قبلہ رُخ نماز پڑھیں۔

{5}کشتی بیچ دریا (river)میں ہو یا چل رہی ہو ، وہاں اگر بہت تیز ہوا چل رہی ہو کہ کھڑے ہونے میں چکّر آنے کا گمان مضبوط (strong assumption)ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور اگر ہوا بہت تیز نہ ہو تو بیٹھ کرنہیں پڑھ سکتے۔

{6}چلتی کشتی گھوم جائے تو نمازی بھی گھوم کر قبلے کی طرف منہ کر لے اوراگر اتنی تیز گھوم رہی ہو کہ قبلے کی طرف منہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس وقت نماز نہ پڑھے بلکہ کشتی کے normal ہونے کا انتظار کرے۔

{7}اگراس صورت (case) میں کشتی normal نہیں ہو پارہی اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لے۔(بہارِ شریعت ج ا،ح ۴،ص ۵۱۰،مسئلہ۲۰ مُلخصاً) ( )

ہوائی جہاز میں نماز:

{1}ہوائی جہاز اگر زمین پر کھڑا ہو تو ہوائی جہاز میں کھڑے ہوکر قبلے کی طرف منہ کر کے نمازپڑھ سکتے ہیں، اُتر کر نماز پڑھنا ضروری نہیں ۔

{2}ہوائی جہاز جب اُڑ رہا ہو تو شرعی اجازت کے بغیر بیٹھ کر یہ نمازیں (۱)فرض(۲) وتر اور (۳)سنّت فجر ادا نہیں ہوتیں(جب کہ جہازمیں نماز پڑھنے کی جگہ ہو)۔

{3}نفل نماز بھی قبلے کی طرف منہ کر کے پڑھیں۔ زمین پر بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں مگر جگہ ہونے کے باوجود (شرعی اجازت کے بغیر)سیٹ پر بیٹھ کر نہیں پڑھیں گے۔

{4}اگر جہاز میں کھڑے ہونے کی جگہ ہی نہیں ہے تو جس طرح ہو سکے نماز پڑھیں، قضا کر نے کی اجازت نہیں (نزھۃ القاری، جلد۲، ص ۹۶، ۹۷ ماخوذاً)، البتہ یہ نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔

{5}ہوائی جہاز میں سفر سے پہلے نماز کے اوقات (prayer times)معلوم کر لیں اس کے لیے موبائل ایپ استعمال کرنا فائدہ مند ہے اور اگر نیٹ کی سہولت ہو تو ایپ(prayer time dawateislami) کے ذریعے قبلہ رُخ(Qibla direction) بھی معلوم ہو سکتا ہے۔فلائٹ اگر مسلم ممالک کی ہو تو عملے(staff)سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔یاد رہے!زمینی اور آسمانی وقتِ نماز(prayer times) میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن یہ فرق صرف سورج نکلنے(sunrise) اور غروب (sunset)ہونےمیں (یعنی فجر اور مغرب) میں ہوتا ہے لھذا صرف زمینی اوقات (ground time) کا کلینڈر کافی(enough) نہیں۔( )

’’سورج اور چاندگہن کی نماز(Sun n Moon- eclipse prayers)‘‘

سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں:

حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے گہن کی نماز پڑھائی اور ہم پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آواز نہیں سنتے تھے (سنن ابن ماجہ، أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا،الحدیث: ۱۲۶۴، ج۲، ص۹۳) یعنی قراء ت آہستہ فرمائی(بہارِ شریعت ج۱،ص۷۸۷) ۔سورج گہن میں سجدے ، قیام، رکوع بہت لمبے فرمائے۔(صحيح البخاري، کتاب الکسوف، الحدیث: ۱۰۵۹، ج۱، ص۳۶۳ مُلخصاً)

واقعہ(incident): حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے انتقال پرسورج گہن(solar eclipse)

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے جنّتی شہزادے، اُمّ المؤمنین ماریہ قطبیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بیٹے، ہمارے سردار حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا جب انتقال ہوا تو اسی دن سورج میں گہن لگا۔ کچھ لوگوں نے خیال کیا کہ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے غم(grief)اور افسوس میں ایسا ہوا ہے،تو تمام نبیوں کے سردار،مکّی مدنی سرکار، صحابہ و اہلِ بیت کے مددگار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں کوسورج گہن(solar eclipse) کی نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:سورج اور چاند اللہ کریمکی نشانیوں(signs) میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں گہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پس جب تم اسے(یعنی سورج یا چاند گہن کو) دیکھو تو اللہ کریم سے دعا کرو، اس کی بڑائی بیان کرو، نمازپڑھو اور صدقہ دو۔(بخاری،کتاب الکسوف، ۱/۳۵۷،۳۶۳ ،حدیث :۱۰۴۴،۱۰۶۰،ملخصاً)

جب سورج اور زمین کے درمیان چاند آ جا تا ہےاور اس کی وجہ سے سورج کی روشنی کبھی مکمل طور پرچھُپ جاتی ہے اور کبھی سورج کی روشنی کم ہو جاتی ہے ،اسے ’’ سورج گرہن (solar eclipse) ‘‘ کہتے ہیں۔اسی طرح جب زمین کی ایک طرف سورج آجائے اور دوسری طرف چاند یعنی سورج اور چاند کے بیچ میں زمین ہو جائے تو چاند کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ کالا نظر آتا ہے کیونکہ جو چاند ہمیں چمکتا ہوا نظر آتا ہے، وہ اصل میں اُس کی روشنی نہیں ہوتی بلکہ وہ سورج کی روشنی ہوتی ہے جو اُ س پر پڑتی ہے، جب زمین بیچ میں آگئی تو سورج کی روشنی چاند پر نہ پڑنے کی وجہ سے چاند کالا ہو جاتا ہے، اسے ’’ چاندگہن(moon eclipse) ‘‘ کہتے ہیں۔

گہن کی نمازوں کے مسائل:

{1}سورج گہن(sun eclipse) کی نماز سنّت مؤکدہ ہے ۔شرعی اجازت کے بغیر ایک بار بھی چھوڑنا بُرا اور چھوڑنے کی عادت بنانا گناہ ہے ۔

{2}سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مستحب ہے اور اکیلے اکیلے(alone) بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے علاوہ (other)، جمعہ کی نماز کی تمام شرطیں (preconditions) اس کے ليے بھی شرط ہیں، وہی امام صاحب اس کی جماعت کر سکتے ہیں جو جمعہ کی امامت کر اسکتے ہیں( ) ،اگر ایسے امام صاحب نہ ملیں تو گھر یا مسجد میں اکیلے اکیلے(alone)پڑھیں (عورتیں کسی نماز کے لیے بھی مسجد میں نہیں جائیں گی )۔

{3} سورج گہن کی نماز اسی وقت پڑھیں جب سورج پرگہن آجائے، گہن ختم ہونے کے بعد نہیں۔ گہن کم ہونا شروع ہوگیا مگر مکمل ختم نہیں ہوا یا بادل آگئےتب بھی سورج گہن کی نماز پڑھیں۔ (جوہرۂ نیرہ)

{4} یہ نماز عام نفل نماز کی طرح دو(2) رکعت پڑھیں یعنی ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے کریں۔ نہ اس میں اذان ہے، نہ اقامت، نہ بلند(یعنی اونچی) آواز سے قراء ت اور نماز کے بعد دُعا کریں یہاں تک کہ گہن ختم ہو جائے اور دو(2)رکعت سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

{5} ایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز پڑھنا منع ہے تو نماز نہ پڑھیں، بلکہ دُعا کرتے رہیں اور اگراسی حالت (condition)میں گہن ختم ہو جائے تو دُعا بھی ختم کر دیں ۔

{6} چاند گہن(moon eclipse) کی نماز مستحب ہے۔

{7} چاند گہن کی نماز میں جماعت نہیں، امام صاحب موجود ہو ں یا نہ ہوں بہرحال اکیلے اکیلے پڑھیں۔ہاں! اگر صرف دو، تین آدمی ہوں تو امام صاحب کے ساتھ جماعت کرسکتے ہیں۔

{8} تیز آندھی(wind) آئے یاعَنْہُمَادن میں سخت اندھیرا ہوجائے یاعَنْہُمَارات میں ڈر اور خوف پیدا کرنے والی روشنی ہو یا()مُسلسل (continuous)بارش ہو یا() بہت زیادہ اولے(hail) پڑیں یاعَنْہُمَاآسمان سُرخ (red)ہو جائے یاعَنْہُمَاآسمانی بجلیاں گریں(lightning strikes) ياعَنْہُمَابہت زیادہ آسمانی تارے ٹوٹیں(stars break) یاعَنْہُمَاطاعون (plague یہ ایک خاص قسم (special type)کی بیماری ہوتی ہے ، جس علاقے میں ہو، اُس میں کئی لوگ مر جاتے ہیں) وغیرہ وبا پھیلے(epidemic spread) یا() زلزلے(earthquake) آئیں یاعَنْہُمَادشمن کا خوف ہو یا() اور کوئی دہشت ناک معاملہ(یعنی ایسی بات ہو، جس سے ڈر پیدا) ہو ان سب کے ليے دو(2) رکعت نفل نماز پڑھنا مستحب ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱،ح۴،ص ۷۸۷، مسئلہ۱،۲،۳،۸،۹ مُلخصاً) ( )

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)