01)’’ اللہ پاک میرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے ‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ، میں تین سال کی عمر کا تھا کہ رات کے وَقت اُٹھا تو دیکھا کہ ماموں نَماز پڑھ رہے ہیں، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا،کیاتُو اُس اللہ کو یاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا فرمایا؟ میں نے پوچھا :میں اسے کس طرح یاد کروں ؟ فرمایا، جب رات سونے لگو تو دل میں تین مرتبہ کہو: اللہ پاک میرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دیکھتا ہے اللہ پاک میرا گواہ ہے۔ پھر میں اسی طرح دل میں پڑھتا اور ان کو بتاتا تو وہ پڑھنے کی تعداد(number ) بڑھاتے گئے۔ جب ایک سال گزر گیا تو میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے مرنے تک ہمیشہ پڑھتے رَہنا اِن شاءَ اللہ یہ تمہیں دنیا اور آخِرت میں فائدہ دے گا۔پھر میں کئی سال اکیلے میں(in private ) یہ پڑھتا رہا۔پھر ایک دن میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے میرا نام لے کر فرمایا، اے سَہْل! اللہ پاک جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو، کیا وہ اس کی نافرمانی کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا تم اپنے آپ کو گناہ سے بچاؤ ۔ اس واقعے کو بیان کرنے والے لکھتے ہیں: یہ اتنے بڑے بزرگ بن گئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے پچیس(25)دن میں ایک مرتبہ کھانا کھاتےاور باقی ساری زندگی (rest of his life) نمک (salt) کھائے بغیر زندہ رہے حالانکہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ نمک کھانا ضروری ہے۔(فیضان سنت جلد اول ص ۵۶ بتغیر) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں پیدا کرنے والا اللہ پاک ہے اور جس نے ہمیں پیدا کیا وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں،وہ ہماری طرح سونے جاگنے (sleeping and waking)سے بھی پاک ہے، وہ تھکتا (tired)بھی نہیں ہے۔ ہمارا اورتمام جہان(universe) کاپیدا کرنے والا وہی ہے تمام جہان کا نظام (system) اسی کی قدرت و اختیار (control) میں ہے وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، سنتا ہے، جانتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کا جو بھی حکم ہو اسے مانیں اور جس کام سے اس نے روکا ہے وہ کام ہرگز نہ کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے۔جب یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے گی تو ان شاء اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔
02)’’خوفِ خدا سے رونے والا بچہ‘‘
حضرت عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک دن میں بصرہ( شہر) کی گلیوں سے گزر رہاتھاکہ میں نے ایک بچے کو بہت زیادہ روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا:بیٹا کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا: جہنم کے ڈرسے۔میں نے کہا :بیٹا!تم چھوٹے سے ہو پھر بھی جہنم سے ڈرتے ہو؟ وہ کہنے لگا: میں نے دیکھا ہے کہ میری امی جان جب آگ جلاتی ہیں تو پہلے چھوٹی لکڑیاں جلاتی ہیں، پھر بڑی۔ میں نے پوچھا: امِّی جان! آپ پہلے چھوٹی لکڑیاں کیوں جلاتی ہیں اوربڑی لکڑیاں بعد میں جلاتی ہیں؟امی جان نےکہا: میرے بچے! چھوٹی لکڑیاں ہی بڑی لکڑیو ں کو جلاتی ہیں۔ بس اسی بات نے مجھے رُلا دیا۔ (کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ جہنم میں پہلے چھوٹوں سے آگ جلائی جائے (ignite)پھر بڑوں کی باری آئے) میں نے اس لڑکے سے کہا:بیٹے! کیا تم میرے ساتھ رہو گےتاکہ تم ایساعلم سیکھ جاؤ جو تمہیں فائدہ دے؟اس نے کہا:ایک شرط(condition) پر۔میں نے کہا:وہ کیا ؟وہ بولا:اگر مجھے بھوک لگے تو آپ مجھے کھانا کھلائیں گے، مجھے پیاس لگی تو آپ مجھے پانی پلائیں گے ، اگر مجھ سے غلطی ہوجائے تو آپ مجھے معاف فر ما دیں گے اور اگر میں مر جاؤں تو آپ مجھے زندہ کریں گے۔میں نے اسے کہا:میرے بیٹے! یہ سب کام تو میں نہیں کرسکتا۔ تو اس نے کہا: پھر مجھے چھوڑ دیجئے، اس لئے کہ میں اس کے دروازے پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں جو یہ سارے کام کر سکتا ہے (یعنی اللہپاک)۔ (حکایتیں اور نصیحتیں، ص:۲۶۴) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ خوفِ خدا کے لیے جوان یا بوڑھا ہونا ضروری نہیں، کم عمری میں بھی اللہ پاک یہ دولت نصیب فرما دیتا ہے، دوسری بات جو سیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ بھوک مٹانے کے لیےکھانا دینا، پیاس بجھانے کے لیے پانی دینا، باربار گناہ کرکے معافی مانگنے پر اپنے بندے کو معاف کر دینااور انسان کو زندگی دینا یہ اللہ پاک کی قدرت (power)میں ہے وہی پیدا کرنے والاہے اور وہی قیامت کے دن دوبارہ زندہ بھی کرے گا، اللہ پاک کو کسی نے پیدا نہیں کیا وہ ہمیشہ سے ہے اور اس نے ہمیشہ رہنا ہے، جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سب اسی کا بنایا ہوا ہے۔
03)’’کیچڑ میں گرنے والا بچہ‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکسی جگہ سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک بچّہ کیچڑ (mud)میں گر گیا ہے اور اس کے کپڑے و جسم کیچڑ کیچڑ ہوگئے ۔ لوگ دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں، کوئی اُسے کیچڑ سے نہیں نکالتا۔ کہیں دُور سے ماں نے دیکھا، دوڑتی ہوئی آئی، دو تھپَّڑ (slaps)بچّہ کے لگائے، اسے نہلایا اور اس کے کپڑے دھوئے ۔ وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یہ دیکھ کر ایک کیفیت میں آ گئے اور فرمایا کہ یِہی حال ہمارا اور اللہ پاک کی رحمت کا ہے۔ ہم گناہوں کی کیچڑمیں گر جاتے ہیں، کوئی ہمیں نہیں نکالتا! مگر اللہ پاک کی رحمت،ہم کو مصیبتوں کے ذَرِیعے اس کیچڑ سے نکالتی ہے اور ا للہ پاک ہمیں توبہ و عبادات کے پانی سے غسل دے کر صاف فرما تا ہے۔ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہیہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جب مہربان ماں کچھ سزا دیکر صاف کردیتی ہے تو خالق و مالک اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، بعض اوقات سزا دیکر بھی ہماری اصلاح فرماتا ہے ۔( معلم ِتقریر، ص ۳۳ ، بتغیر) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ماں ہم سے کتنی محبت کرتی ہے، ہمارا خیال (care)رکھتی ہے مگر ہمارا ربّ(lord) توہمیں ماں سے زیادہ محبت فرمانے والا ہے، ابھی آپ نے سنا کہ ماں نے بچے کو مارا پھر اس کی محبت میں اْسےنہلایااوراس کے کپڑے بھی دھوئے۔ اسی طرح ہم بھی قدم قدم پر گناہ کرتے ہیں، اللہ پاک کبھی بیماری اور کبھی کسی اور مصیبت کے ذریعے ہمارے گناہوں کے میل کو صاف فرما تا ہے۔اس طرح کبھی یہ مصیبتیں درجات بڑھاتی ہیں تو کبھی گناہوں کی سزا بھی ہوتی ہیں۔بس ہم گناہ گاروں کو اس کی رحمت چاہیےیقیناً وہ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحم کرنے والا ، غلطیاں معاف کرنے والا اور ان کی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے نیک کام کریں اور گناہوں سے بچیں۔
04)’’عقل مند بوڑھی عورت (wise old woman) ‘‘
ایک بوڑھی عورت(old woman )مشین پر کام کر رہی تھی۔کسی نے پوچھا: آنٹی (anti) !ساری عمر مشین پر کام کرنے کے علاوہ کچھ اور کام بھی کیا ہے؟کیا اللہ پاک کی بھی کچھ پہچان حاصل کی ہے۔کہنے لگی کہ اس کے لیے یہ مشین ہی کافی ہے۔اُس نے پوچھا:وہ کیسے ؟ بولی: وہ ایسے کہ جب تک میں اس مشین کو چلاتی ہوں یہ چلتی رہتی ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں تو رُک جاتی ہے تو جب بغیر کسی چلانے والے کے یہ چھوٹی سی مشین نہیں چل سکتی تو پھرزمین وآسمان ، سورج اور چاند وغیرہ کا اتنا بڑا نظام کیسے چل سکتا ہے؟اس مشین کو میں چلا رہی ہوں تو مجھے اور اس پوری دنیا و آسمان کے نظام کو میرا ربّ چلا رہا ہے۔ بوڑھی عورت (old woman )مزید بولی کہ ایک اور بات سن لو کہ اس پورے جہان (universe )کو چلا نے والا ایک ہی ہے یہ بھی اس مشین سے پتہ چلا کیونکہ میں اسے اپنی مرضی سے ایک طرف چلاتی ہوں تو یہ ایک ہی طرف چلتی ہے اگر میرے ساتھ کوئی اور بھی مل کر چلائے تو یہ بہت تیز ہوجائے اور مشین خراب ہوجائے۔اسی طرح اگرآسمان وزمین کا چلانے والا کوئی دوسرا ہوتا اور وہ مل کر چلاتے تو یہ تباہ(یعنی ختم )ہوجاتے ۔ صرف یہ ہی نہیں اگردونوں الگ الگ طرف(opposite directionمیں) چلاتے تب بھی تباہ ہوجاتی۔ تو جس طرح یہ مشین ایک چلانے والے کی وجہ سے صحیح چل رہی ہے،اسی طرح یہ آسمان وزمین بھی ایک چلانے والے کی وجہ سےصحیح طرح چل رہے ہیں اور وہ ایک چلانے والا اللہ پاک ہے۔ اس کہانی سے پتا چلا کہ جس طرح ایک مشین ایک ہی شخص کے چلنے سے ٹھیک چلتی ہے اسی طرح زمین وآسمان، چاند، سورج، ستارے،بارش،دھوپ سب ایک ہی چلانے والا چلا رہا ہے اس کا کوئی بھی شریک (partner ) نہیں وہ چلانے والا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، زمین وآسمان بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں، وہ اللہ پاک اکیلا(alone )ہی سارے جہان (universe ) کا مالک ہے۔ سمندر اور خشکی کی ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی ہے
05)’’ شیطان میرا نوکر(servent) ہے‘‘
حضرت ایوب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ہمارے علاقے میں اللہ پاک پر کامل یقین رکھنے والا ایک نوجوان (young man)رہتا تھا۔ وہ عبادت اور اللہ پاک پر بھروسہ ( trust۔یقین )کرنے کے معاملے میں بہت مشہور تھا۔ لوگو ں سے کوئی چیز نہ لیتا۔ جب بھی کھانے کی ضرورت ہوتی اسے اپنے سامنے سِکّوں (coins)سے بھری ایک تھیلی مل جاتی۔ اسی طر ح وہ اپنے دن رات عبادت میں گزارتا۔ ایک مرتبہ لوگو ں نے اس سے کہا : اے نوجوان! تو سِکّوں کی وہ تھیلی (pouch of coins)لینے سے ڈر! ہو سکتا ہے شیطان تجھے دھوکا دے رہا ہو او روہ تھیلی اسی کی طرف سے ہو۔ اس نے کہا: میری نظر تو اپنے رب کی رحمت کی طرف ہوتی ہے، میں اللہ پاک کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتا ، جب میرا رب مجھےدیتا ہے تو میں لے لیتاہوں ۔ بالفر ض اگر وہ سکوں کی تھیلی میرے دشمن شیطان کی طرف سے ہو تو اس میں میرا کیا نقصان بلکہ مجھے فائدہ ہی ہے کہ میرا دشمن میرے کام کر رہاہے، اگر واقعی ایسا ہے تو اللہ پاک اُسے میرا نوکر(servant)بنائے رکھے۔ اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ میرا سب سے بڑا دشمن، میرا نوکر بن کر میری خدمت کرے اور میں اس کی طرف نظر نہ رکھو ں بلکہ یہ سمجھوں کہ اللہ پاک مجھے میرے دشمن کے ذریعے مال دے رہا ہے بلکہ ساری دنیا کو اللہ پاک ہی دے رہا ہے جو میرا ربّ ہے۔ اُس نوجوان کی یہ بات سن کر لوگ خاموش ہوگئے اور سمجھ گئے کہ اس کو واقعی اللہ پاک کی طرف سے ہی مال مل رہا ہے۔(عیون الحکایات ،ج۲،ص۱۰۵) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ اللہ پاک جو چاہے کرسکتا ہے، جسے جس طرح چاہے رزق دے۔ اُسے کسی کی ضرورت نہیں، نہ لوگوں کی ، نہ فرشتوں کی، نہ سِکّوں (coins) کی۔ اپنے نیک بندوں کو کبھی بہت آسان انداز سے مال دے دیتا ہے مگر اس نے دنیا کا ایک نظام بنایا ہے، ہمیں جائز طریقے سے حلال کمانا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیک لوگوں کو مال کمانے میں مشکل ہو کیونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور جو اللہ پاک کی رحمت سے اس امتحان میں پاس(pass ) ہوگا، وہ اللہ پاک کے کرم سے جنّت میں داخل ہوگا۔
06)’’ بیس غم بیس سیڑھیاں‘‘
ایک عورت کے بیس(20) بیٹے تھے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہر سال ایک بیٹا مرنا شروع ہوا، ایک ایک کر کےانیس (19) بیٹوں کا انتقال ہوگیا اور ان کی ماں صبر کرتی رہی ، جب بیسویں بچے کو وہی بیماری ہوئی تو یہ گھبرا گئی بہت علاج کیا ، بڑی کوششیں کیں لیکن فائدہ نہ ہوا اورآخری بیٹا بھی مر گیانتیجہ یہ ہوا کہ ماں پاگل ہو گئی ایک رات اسی حالت میں اس نے خواب میں ایک بہت خوبصورت باغ دیکھا جس میں درخت اور نہریں (canals)تھیں۔ اس میں بہت سے محل تھے، ہر ایک پر مالک کا نام لکھا ہواتھا ایک محل پر اُ س عورت کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور اندر چلی گئی تو اپنے بیسوں بیٹوں کو وہاں دیکھا کہ وہ آرام سے بیٹھے تھے۔ماں کو دیکھ کر ایک بیٹا بولا، ماں!ہم اپنے رب کے پاس بہت آرام سے ہیں، کسی کی آواز آئی : اے مسلمان عورت!تیر ے لیے یہ محل تھا مگر تیرے نیک کام ایسے نہیں تھے کہ تو یہاں تک پہنچ جاتی اس لئے تجھے بیس غم دیئے گئے یہ بیس غم اس جگہ کی بیس سیڑھیاں تھیں جن کو تو نے اللہ پاک کے کرم سے طے کرلیا اب تیرے لئے خوشی ہی خوشی ہے۔(رسائل نعیمیہ،ص۰۴۴مُلخصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ بندہ جتنا مشکل امتحان پاس کرتا ہے اتنا ہی بڑا اسے انعام بھی ملتا ہے، لیکن اس کے لیے مشکلات پر صبر کرنا پڑتا ہے۔ اس حکایت سے یہ بھی پتہ چلاکہ اللہ پاک کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ مصیبت پر صبر کرنے والوں کو انعام دیتا ہے،یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے ہر نفع اور نقصان(profits and loss) اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہمارا مالک اور رحم فرمانے والا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے فیصلوں(decisions) پر راضی رہیں۔
07)’’آگ ٹھنڈی ہو گئی‘‘
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کواللہ پاک نے رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا،جن لوگوں کو آپ نے اللہ پاک کے ایک ہونے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا وہ قوم جھوٹے خداؤں (false gods)کی عبادت کرتی تھی اور ان کا ایک ظالم بادشاہ تھا جس کا نام نمرود تھا، وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا ، اس نے اپنے ماننے والوں (believers)کے ساتھ مل کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کوجان سے مارنے کا پروگرام بنایا، اس کام کے لیے اس نے ایک میدان (ground)میں بہت زیادہ لکڑیاں جمع کروائیں اور ان میں آگ لگا دی،اتنی خطرناک آگ تھی کہ کوئی قریب بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب غیر مسلموں نے غلیل (slingshot)کی طرح کے ایک طرح کے جھولےمیں رکھ کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو اس آگ کی طرف اُچھال دیا...! جب آگ کے پاس پہنچے تو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور عرض کی: حضور کچھ حاجت(یعنی کوئی کامneed) ہے؟ فرمایا: ہاں ہے، مگرتم سے نہیں(یعنی کام تو ہے مگر تم سے نہیں، اللہ پاک سے)۔عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے(یعنی اللہ پاک سے عرض کیجیے)۔ توفرمایا:میر ا ربّ میری حالت جانتا ہے میرے لیے یہی کافی ہے ۔ اللہ کریم نے آگ کو حکم فرمایا،ترجمہ(Translation): اے آگ! (حضرت)ابراہیم(عَلَیْہِ السَّلَام) پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔ (ترجمہ کنز العرفان ) (پ۱۷،الانبیاء: ۶۹) اللہ پاک کے اس حکم کو سُن کر پوری زمین پر جہاں جہاں آگ تھی سب جگہ بُجھ گئی (بند ہوگئی) کہ شاید مجھے یہ حکم ملا ہو۔ اور جس آگ میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو غیر مسلموں نے ڈالا تھا وہ تو بالکل ٹھنڈی ہوگئی۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگراللہ پاک آگ کو بُجھنے(بند ہونے) کے ساتھ ”سلامتی والی ہونے کا“نہ فرماتا تو یہ اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک تکلیف دیتی لیکن حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ نے نہ جلایا اور نہ ٹھنڈک کی وجہ سے کوئی تکلیف دی۔ (بہار شریعت ،ج۱،ص۲۶ بتغیر) اس روایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ سب کچھ اللہ پاک کے حکم سے ہوتا ہے، اسے کسی کام کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں، دیکھیں آگ کا کام جلانا ہوتا ہے مگر اللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے لیےٹھنڈی ہوگئی حالانکہ پہلے وہ اتنی گرم تھی کہ کوئی بھی اس کے قریب نہ جا سکتا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ پاک جو چاہے کر سکتا ہے،اسے کوئی روکنے والا نہیں، پانی سے آگ بُجھ جاتی ہے، پیاس ختم ہو جاتی ہے اللہ پاک چاہے تو پانی جلائے اور آگ پیاس ختم کر دے کیونکہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔
08)’’موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور اللہ پاک کا دیدار‘‘
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کواللہ پاک نے رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا،جن لوگوں کو آپ نے اللہ پاک کے ایک ہونے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا وہ قوم جھوٹے خداؤں (false gods)کی عبادت کرتی تھی اور ان کا ایک ظالم بادشاہ تھا جس کا نام نمرود تھا، وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا ، اس نے اپنے ماننے والوں (believers)کے ساتھ مل کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کوجان سے مارنے کا پروگرام بنایا، اس کام کے لیے اس نے ایک میدان (ground)میں بہت زیادہ لکڑیاں جمع کروائیں اور ان میں آگ لگا دی،اتنی خطرناک آگ تھی کہ کوئی قریب بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب غیر مسلموں نے غلیل (slingshot)کی طرح کے ایک طرح کے جھولےمیں رکھ کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو اس آگ کی طرف اُچھال دیا...! جب آگ کے پاس پہنچے تو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور عرض کی: حضور کچھ حاجت(یعنی کوئی کامneed) ہے؟ فرمایا: ہاں ہے، مگرتم سے نہیں(یعنی کام تو ہے مگر تم سے نہیں، اللہ پاک سے)۔عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے(یعنی اللہ پاک سے عرض کیجیے)۔ توفرمایا:میر ا ربّ میری حالت جانتا ہے میرے لیے یہی کافی ہے ۔ اللہ کریم نے آگ کو حکم فرمایا،ترجمہ(Translation): اے آگ! (حضرت)ابراہیم(عَلَیْہِ السَّلَام) پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔ (ترجمہ کنز العرفان ) (پ۱۷،الانبیاء: ۶۹) اللہ پاک کے اس حکم کو سُن کر پوری زمین پر جہاں جہاں آگ تھی سب جگہ بُجھ گئی (بند ہوگئی) کہ شاید مجھے یہ حکم ملا ہو۔ اور جس آگ میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو غیر مسلموں نے ڈالا تھا وہ تو بالکل ٹھنڈی ہوگئی۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگراللہ پاک آگ کو بُجھنے(بند ہونے) کے ساتھ ”سلامتی والی ہونے کا“نہ فرماتا تو یہ اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک تکلیف دیتی لیکن حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ نے نہ جلایا اور نہ ٹھنڈک کی وجہ سے کوئی تکلیف دی۔ (بہار شریعت ،ج۱،ص۲۶ بتغیر) اس روایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ سب کچھ اللہ پاک کے حکم سے ہوتا ہے، اسے کسی کام کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں، دیکھیں آگ کا کام جلانا ہوتا ہے مگر اللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے لیےٹھنڈی ہوگئی حالانکہ پہلے وہ اتنی گرم تھی کہ کوئی بھی اس کے قریب نہ جا سکتا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ پاک جو چاہے کر سکتا ہے،اسے کوئی روکنے والا نہیں، پانی سے آگ بُجھ جاتی ہے، پیاس ختم ہو جاتی ہے اللہ پاک چاہے تو پانی جلائے اور آگ پیاس ختم کر دے کیونکہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔
09) ’’ بکری والے کی باتیں ‘‘
حضرت نافع رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہماکے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک جگہ گیا، ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ،گرمی بہت زیادہ تھی،سمجھو سورج آگ بر سارہا تھا(the sun was blazing hot) ۔ ہم نے ایک سائے کی جگہ میں کھانے کا دستر خوان لگایا اور سب مل کر کھانا کھانے لگے ۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے ایک بکریوں والا گزرا ، حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہما نے اس سے فرمایا: آؤ! ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔اس نے جواب دیا: میرا روزہ ہے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس سے فرمایا: تم اس سخت گرمی میں سارا دن جنگل میں بکریاں لے کر چلتے رہتے ہو، اتنا مشکل کام کرتے ہو اور پھر بھی نفلی روزہ رکھا ہوا ہے؟ تو کیا ایسی حالت (condition)میں نفلی روزہ رکھنا ضروری ہے؟ یہ سن کر وہ کہنے لگا :کیا (جنت میں داخل ہو نے کا) وقت آگیا جس کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ترجمہ(Translation): گزرے ہوئے دنوں میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں خوشگواری (یعنی دل کی پسند)کے ساتھ کھاؤ اور پیو ۔(پ۲۹، الحآ قۃ:۲۴)(ترجمہ کنز العرفان) حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اس کی باتیں اچھی لگیں توکچھ یوں فرمایا: کیا تم ہمیں ایک بکری(goat) بیچو گے؟ ہم اسے ذبح کریں گے اور تمہیں بکری کے پیسے بھی دیں گے۔ اس نے کہا: حضور! یہ بکریاں میری نہیں ہیں بلکہ یہ میرے مالک(master) کی ہیں، میں تو غلام ہوں ، میں انہیں کیسے بیچ سکتاہوں؟ ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو شخص ملا وہ غلام کہلاتا ہے، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اس کا امتحان لینے کے لیے کچھ اس طرح فرمایا: یہ بھی تو ممکن تھا کہ تم اپنے مالک سے جھوٹ بول دیتے کہ بکری کو بھیڑیا(wolf) کھا گیا۔ یہ بات سن کر وہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ: میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن میرا ربّ اللہ پاک تو مجھے دیکھ رہا ہے ،میرا ربّ تو میرے ہر ہر کام کو جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ اس نیک آدمی سے بہت خوش ہوئے اور اس کے مالک کے پاس پہنچے اور اس نیک غلام(slave) کو خر ید کر آزاد کردیا اور ساری بکریاں بھی اس کے مالک سے خرید کر اس غلام کو تحفے میں دے دیں۔ (عیون الحکایات، ۱/۱۵۷بتغیر) اس حدیث شریف سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں آخرت کے لیے نیکیاں جمع کریں تاکہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے اور جس نیکی میں جتنی مشکل ہو اس کا ثواب بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے، دوسری یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہم کوئی بھی کام کریں جسے کوئی نہ بھی دیکھ رہا ہو مگر ہمیں پیدا کرنے والا ہمارا پیارا اللہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اور ہم سب کے ہر ہر کام کو جانتا ہے۔ ہمیں ایک دن مرنا پڑے گا اور اللہ پاک کو حساب دینا ہو گا، ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ دعا ہے اللہ پاک ہمیں اپنا نیک بندہ بنائے۔ آمین
10)’’ نہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا‘‘
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب اسلام کی دعوت دیتے تو عرب شریف کے غیر مسلم ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اللہ پاک کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کرتے، ان غیر مسلموں کے جواب میں اللہ پاک نے سورت اخلاص(قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ) نازل فرمائی اور ان تمام باتوں کاجواب دے دیا۔(سورۃ الاخلاص، خزائن العرفان مُلخصاً) قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳) وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(۴) (ترجمہTranslation:)تم فرماؤ: وہ اللہ ایک ہے۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس نے کسی کو جنم دیا (یعنی اس کی کوئی اولاد نہیں)اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور کوئی اس کے برابر نہیں ۔(پ۳۰، سورۃ الاخلاص) (ترجمہ کنزالعرفان) اس روایت اور قرآنی سورت سے ہمیں یہ سیکھنے کوملا کہ اللہ پاک کی شان بہت بہت بہت بڑی ہے، ہم اپنی عقل سے اللہ پاک کو پہچان نہیں سکتے۔ وہ direction سے،placeسے،شکل و صورت سے اور اس طرح کی ہر چیز سے پاک ہے اوربڑی شان والا ہے۔ اللہ پاک کی طرح کوئی بھی نہیں ۔ہم اس کے بندے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں، وہ رحم کرنےوالا، کرم فرمانےوالا، عطاء کرنے والا، معاف کرنے والا مہربان ہے۔
11)’’بادشاہ کی قبر‘‘
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ تھا۔ ہم ایک جگہ پہنچے ،وہاں ایک قبر تھی، جسے دیکھ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رونے لگے۔ مَیں نے پوچھا :حضور!یہ کس کی قبر ہے ؟آپ نے فرمایا:یہ حمید بن جابر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قبر ہے جو کہ ان تمام شہرو ں کے حاکم (ruler) تھے ، پہلے یہ غلط کام کرتےتھے ، پھر اللہ پاک نے انہیں ہدایت عطا فرمائی (تو یہ نیک آدمی بن گئے)۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ایک رات یہ گناہوں بھرے کام کر رہےتھے،جب کافی رات گزرگئی تو اپنی اہلیہ (wife) کے پاس جا کر سو گئے۔ اسی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لئے ان کے سامنے کھڑا ہے ، انہوں نے اس سے وہ کتاب لی اور اسے کھولا تو اس میں یہ لکھاہوا تھا: باقی رہنے والی چیزوں پر ختم ہونے والی چیزوں کو اہمیت (preference) نہ دے۔ اپنی بادشاہی(kingship)،اپنی طاقت،اپنے خادم اوراپنی خواہشات (desires) سے ہر گز دھوکا نہ کھا،اور اپنے آپ کو دنیا میں طاقتو ر نہ سمجھ، اصل قدرت و طاقت تو اللہ پاک کے لیے ہےکہ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہےگا۔اصل بادشاہی تو وہ ہے کہ جو کبھی ختم نہ ہو، حقیقی خوشی تو وہ ہے جو کھیل کود کے بغیر حاصل ہو۔ لہٰذا اپنے رب کے حکم پر جلدی سے عمل کر۔ بے شک اللہ پاک فرماتا ہے(ترجمہ۔Translation:) اوردوڑواپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان(width) میں سب آسمان وزمین آجائیں پرہیزگاروں کے لئے تیاررکھی ہے۔ (پ۴،اٰل عمران:۱۳۳) (ترجمہ کنز الایمان) حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:پھر اُس بادشاہ کی آنکھ کھل گئی ۔وہ بہت ڈرا ہوا تھا، خود سے کہنے لگا: یہ (خواب) اللہ پاک کی طر ف سے میرے لئے ہے۔یہ کہہ کر فوراً اپنی بادشاہت (kingship) چھوڑ دی اور اپنے ملک (kingdom) سے نکل کر ایسی جگہ آ گئے جہاں کوئی انہیں پہچان نہ سکے ، اور انہوں نے ایک پہاڑ پر اللہ پاک کی عبادت کرنا شرو ع کردی ۔ حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں : جب مجھے ان کے بارے میں پتہ چلا تو میں ان کے پاس آیا ، پھر ان کے انتقال تک میں ملاقات کے لئے ان کے پا س آتا رہا،بالآ خر ان کا انتقال ہوگیا اور اسی جگہ انہیں دفن (buried)کردیا گیا،یہ انہی کی قبر ہے ۔(عیون الحکایات ح۱،ص۷۹ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ دنیا کی سب دولت اور طاقت کی کوئی اہمیت نہیں، صرف اللہ پاک ہی باقی رہنے والا ہے اور وہی سب زمین آسمان کا حقیقی باشاہ (real king)ہے، دنیا کے بادشاہوں نے مر جانا ہے ہزاروں (thousands)آئے سب مر گئےاور جو ہیں یا آئیں گے ،وہ سب بھی مر جائیں گئے۔ لیکن ہمارا ربّ وہ ہے کہ جو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، اُسے کبھی موت نہ آئے گی۔ وہ اللہ پاک ہی ہےکہ جسے چاہتا ہے بادشاہی اور حکومت دیتا ہے،جسے چاہتا ہےہدایت عطا فرماتا ہے۔ہمیں اللہ پاک کے حکم کو مانتے ہوئے، عبادت میں زندگی گزارنی چاہیے ۔
12)’’جانور کے ذریعے مدد‘‘
حضرت ابو حمزہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ حج سے واپس آتے ہوئے میں ایک کنوئیں (well)میں گر گیا،سوچا کہ کسی کو مدد کے لیے بُلاؤں مگر پھر خود سے کہا کہ اللہ کی قسم کسی کو نہیں بلاؤں گا، اتنے میں دو آدمی کنوئیں پر آئے ایک نے دوسرے سے کہا: آؤ اس کنوئیں کو اوپر سےبند کر دیں تاکہ کوئی اس میں گر نہ جائے، تو وہ چٹائی وغیرہ لائے اورکنوئیں کا منہ بند کر دیا، خیال آیا کہ چیخ کر بولوں میں کنوئیں میں ہوں مجھے نکالومگر پھر سوچا کیا میں اللہ پاک کو چھوڑ کر ان دونوں سے مدد لوں حالانکہ اللہ کریم اپنے علم،طاقت اور قدرت (power)کے مطابق میری گلے کی رگ (jugular vein)سے بھی زیادہ قریب ہے چنانچہ میں چپ رہا۔وہ دونوں کنوئیں کو بند کر کے چلے گئے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ کنواں کھلا اور کسی نے اپنا پاؤں نیچےلٹکا کر کہا: میرا پاؤں پکڑ لو، میں نے پاؤں پکڑا، اس نے کھینچ کر مجھے باہر نکالا، دیکھا تو سامنے ایک خطرناک جانور تھا، اس نے مجھے وہیں چھوڑا اور چلا گیا۔ اتنے میں کہیں سے آواز آئی:اے ابو حمزہ! کیا یہ خوب بات نہیں کہ میں نے تجھے اسی درندے(beast) کے ذریعے بچا لیا جو تیرا دشمن ہے۔ (عجیب وغریب واقعات ، ص: ۲۹۱ بحوالہ نوادر قلیوبی) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson ا کہ اللہ پاک پر بندے کو مکمل یقین رکھنا چاہیے، زندگی، موت کا مالک وہی ہے ، اس کے کاموں کی حکمتیں (wisdom) ہم سمجھ نہیں سکتے، درندہ (beast)انسان کا دشمن ہے، انسان کو جان سے مار دیتا ہے مگر اللہ پاک کی شان دیکھئے کہ اُس نے اِ س خطرناک جانور ہی کو مدد کے لیے بھیج دیا۔ یہ بزرگ اللہ پاک پر مکمل یقین رکھنے والے تھے لیکن اگر کوئی مصیبت میں کسی انسان سے مدد لے لے تو بھی ٹھیک ہے کہ مدد کسی سے مانگی جائے یا کوئی خود مدد کر دے تو اصل میں یہ ساری مدد اللہ پاک کی طرف سے ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ نہ چاہے تو ساری مخلوق مل کر ایک پتہ بھی نہیں ہلا سکتی۔ اللہ پاک سب کچھ کر سکتا ہے۔