’’ اولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کی12 حکایت ‘‘

حکایت(01): ’’بلقیس کا تخت(throne) کس طرح آیا؟‘‘

حضرت سُلَیْمَان عَلَیْہِ السَّلَامجب بادشاہ تھے، اُس وقت ایک ’’سبا ‘‘نام کاملک تھا جس کی مَلْکَہ(queen) کا نام ’’ بِلْقِیْس‘‘ تھا اس کا بادشاہی تخت (throne)اَسّی 80گز لمبا(long) اور چالیس40 گز چوڑا(wide) تھا ،یہ تخت سونے،چاندی اور طرح طرح کے ہیروں (diamonds) سے بنایا گیا تھا،جب پہلی مرتبہ(first time) حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے ملکہ بلقیس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نےحضرت سلیمان کو بہت سارے تحفے(gifts) بھیجے تاکہ اسے اسلام قبول نہ کرنا پڑے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے بلقیس کےتمام تحفے واپس کردیئے اورحکم بھیجا کہ وہ مسلمان ہوکر آپ کےپاس آجائے،حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ چاہا کہ ملکہ بلقیس کےیہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت(throne) میرے پاس آجائے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے پاس موجود لوگوں سے یہ فرمایا: تم میں کون ہے کہ وہ ملکہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لےآئے ایک بڑے جنّ نے بولا: میں آپ کا اجلاس(meeting)ختم ہونے سے پہلے وہ تخت لے آؤں گا ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نےفرمایا :اس سےبھی جلدی ۔یہ سن کر اللہ پاک کے ولی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کےوزیر آصف بن بَرخِیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےعرض کیا: ترجمہ (Translation) : میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے (in the blink of an eye) سے پہلے لے آؤں گا پھرجب سُلَیْمَان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے ربّ کے فضل سے ہے(جو اُس نے مجھ پر کیا) تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ؟ (پ۱۹، سورۃ النحل، آیت۴۰) (ترجمہ کنز العرفان))عجائب القرآن،۱۸۷،۱۸۸) اس قرآنی واقعے سے ہمیں یہ درس ملا کہ اللہ پاک نے اپنےولیوں کو بہت طاقت دی ہے۔ اللہ پاک کے ولی بہت دور کا سفر فوراً کر سکتے ہیں، انہی کسی گاڑی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں بھاری چیز اُٹھانے کے لیے کوئی ٹرک (truck)نہیں چاہیے۔انہیں کسی جگہ کا پتا(address) معلوم کرنےکے لیےانٹرنیٹ(internet)پر سرچ(search)بھی نہیں کرنا پڑتا ۔
تَعَارُف (Introduction):
اللہ پاک کےولی ،حضرت آصف بن بَرخِیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ،حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کے وزیر اور شاگرد تھے۔( کشف النور ،ص ۵۲مُلخصاً)
اللہ کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اللہ پاک فرمائےگا:کیاتومیرےولیوں سےدوستی رکھتاتھا؟وہ کہےگا:میں تولوگوں سےدوررہتاتھا۔فرمائےگا:کیاتو میرے دشمنوں سے دشمنی رکھتا تھا؟بندہ کہے گا: مولا! میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اللہ پاک فرمائے گا: جو میرے اولیا سے دوستی اور میرے دشمنوں سے دشمنی نہ رکھے وہ میری رحمت سے محروم ہے۔ (معجم کبیر،۱۹/ ۵۹،حدیث:۱۴۰مُلتقطا)

حکایت(02): ’’شَیطان بہت چالاک ہے‘‘

غوثِ پاک سیّد عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک بار میں کسی جنگل کی طرف نکل گیا اور کئی دن تک وہاں رہا ۔میرے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا ۔مجھے بہت پیاس لگی ، ایسے میں میرے سر پر ایک بادَ ل (cloud) آگیا ، اُس میں سے کچھ بارِش ہوئی جس سے میں نے پانی پی لیا، اس کے بعد بادَل میں ایک خوبصورت شکل نظر آئی اور ایک آواز آنے لگی :’’اے عبدُالقادِر!میں تیرا ربّ ہوں ،میں نے دنیا کی تمام حرام چیز یں تمھارے لئے جائز کردیں (یعنی تم ہر گناہ کا کام کر سکتے ہو)۔‘‘میں نےاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِپڑھا، فواً وہ رو شنی ختم ہوگئی اور اب ایک دھواں(smoke) نظر آنے لگااور اب شیطان کی آواز آئی: اے عبدُالقادِر! اس سے پہلے میں نے ستَّر (70) ولیّوں کو نیکی کے راستے سے ہٹا دیا مگر تجھے تیرے علم نے بچالیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے کہا: اے بےعزّت!مجھے میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ پاک نے بچا لیا۔ (بہجۃ الاسرار، ص۲۲۸ ) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ شیطان بہت چالاک ہے، وہ ہر مسلمان کا دشمن ہے، ہر کسی کو نیکی سے دور کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک سے دعا کرتے رہا کریں کہ وہ ہمیں،شیطان سے بچائے۔
تَعَارُف (Introduction):
غوثِ پاک شیخ عبدُ القادررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمضَان کی پہلی تاریخ 470 سنِ ہجری کو جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پہلے دن(first day) ہی سے روزہ رکھا بلکہ پورا مہینا ہی روزہ رکھتے رہے کہ آپ سحری سے لے کر افطاری تک دودھ نہیں پیتے تھے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۷۲،۱۷۱) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے چالیس(40) سال تک ایسا کیا کہ رات کو وضوکر کے عشاء کی نماز پڑھتے اور پوری رات عبادت میں گزار دیتے یہاں تک کہ رات والےوضو سے فجر کی نماز پڑھتے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۶۴) پندرہ(15) سال تک ہر رات قرآنِ پاک کاختم کرتے رہے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۱۸) آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 11رَبِیعُ الثّانِی 561 سنِ ہجری میں اکانوے (91)سال کی عمر میں بغداد شریف میں انتقال فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار شریف بغداد میں ہے اور اولیاء کرام سے محبّت رکھنے والے بہت سے عاشقانِ اولیاء، دنیا بھر سے آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ للشعرانی،ج ۱،ص۱۷۸) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال گیارہ(11) تاریخ کو ہوا لھذا آپ سے محبّت کرنے والےہر ماہ کی (11) تاریخ کو ، آپ کے ایصال ثواب(یعنی نیکیوں کا ثواب بھیجنے) کے لیے قرآن پاک پڑھتے پڑھاتے، نعت خوانی کرتے اور کھانا کھلاتے ہیں (مسلمان محبّت میں اس ایصالِ ثواب کو” گیارویں شریف “کہتے ہیں )۔
اللہ کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مخلوق (all creatures) میں سے اللہ پاک کےایسے( نیک ) بندے (یعنی اولیاءِ کرام ) ہروقت ہوتے ہیں جن اولیا کی وجہ سے اللہ پاک لوگو ں کو زندگی اور موت دیتا،ان کی وجہ سے بارش ہوتی ہے،(کھیت میں)فصلیں اُگتی ہیں اور انہی کے سبب سے لوگوں کی مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہ سے پوچھا گیا:ان(اللہ پاک کے ولیوں ) کی وجہ سے لوگوں کو زندگی اور موت کیسے ملتی ہے ؟فرمایا اس لئے کہ: وہ اللہ پاک سے اُمت زیادہ ہونے کی دُعا کرتے ہیں تو ان کی دُعا سے مسلمانوں میں اضافہ کردیاجاتا ہے اور ظالموں کے خلاف دعاکرتے ہیں تو اللہ پاک ظالموں کو ختم کردیتا ہے۔(تاریخ مدینۃ دمشق لابن عساکر،ج ۱، ص۳۰۳ ،ملخصا )

حکایت(03): ’’ہاتھ کی طاقت ختم ہوگئی‘‘

حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(پیری مریدی کے)سلسلہ سہروریہ کےبڑے بزرگ ہیں آپ اللہ پاک کےولی ، بڑے زمیندار(landowner) اورتاجربھی تھے دنیا کے کئی ملکوں میں لوگ آپ کا مال لے کرجاتے تھے جس سےلاکھوں روپےآپ کےپاس آتے تھے،آپ بہت ہی سخاوت کرنے والے تھے،آپ تجارت اور کھیتی باڑی(cultivation)سےحاصل ہونے والاتمام مال غریبوں فقیروں،مسافروں وغیرہ پرخرچ کردیتے تھے ۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ملخصا) ایک مرتبہ حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاپنے کمرے میں عبادت کر رہے تھے۔چند مُرید (disciples)بھی آپ کےپاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک(suddenly) آپ ا پنی جائے نمازسے اُٹھے اور رقم کی ایک تھیلی ہاتھ میں لے کر باہر نکل گئے ۔مُرید بھی حیران (surprise) ہوکر آپ کےپیچھے چل پڑے،باہر آکر دیکھا کہ چند آدمی ایک غَریب شخص کو اپنا دیا ہوا قرض (loan)مانگتے ہوئے اسے تنگ کر رہے ہیں اور اس شخص کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےقرض مانگنےوالوں کو بلا کر فرمایا : یہ تھیلی لےلو اورجتنا اس شخص کا قرض (loan)ہے،اُتنا نکال لو۔قرض مانگنے والے کے دل میں لالچ آگئی اوراس نےاپنےقرض سے کچھ روپے زیادہ لینے چاہے۔فوراً اس کا ہاتھ خشک ہو گیا(یعنی ایک ہی جگہ رُک گیا ،اب ہاتھ ہلانے کی طاقت نہیں رہی ) چِلّا کربولا :حضور معاف فرمائیے،میں زیادہ لینے سے توبہ کرتا ہوں۔فوراً اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔غریب شخص کا قرض ادا ہوگیا، وہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دعائیں دینے لگا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ مریدوں کےساتھ اپنے کمرے کی طرف واپس تشریف لےآئے اور فرمایا: اللہ پاک نے مجھےاس شخص کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ !اس کا قرض (loan)ادا ہو گیا ۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ص۴۲) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اللہ پاک کے ولیوں کے سامنے اپنا دل بھی سنبھال کررکھنا چاہیے یعنی کسی بُرے کا م کا ارادہ (intention) بھی نہیں کرنا چاہیے ،یہ بھی معلوم ہوا کہ لالچ بُری بلا ہے اور اللہ پاک کے ولی غریبوں کی مدد کرتے ہیں، ہمیں بھی چاہیے کہ جب کسی کی پریشانی کا پتا چلے اورہم اُس کی مدد کر سکتے ہوں تواِس سے پہلے کہ وہ ہمیں مدد کا کہے، ہم اُس کی مدد کر دیں ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت بہاءالدین زکریا سہروردی قریشی ملتانیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ۲۷ رمضان المبارک522سنِ ہجری پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ (پیری مریدی کے)سلسلہ سہروردیہ کےبزرگ حضرت شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےآپ کو خلافت بھی دی(یعنی آپ کو اجازت دی کہ اب آپ دوسروں کو مرید کر سکتے ہیں)۔آپ بہت زیادہ عبادت کرنے والے اور اللہ پاک کی مخلوق (creatures) کی خدمت (یعنی لوگوں کی مدد) کرنے والے تھے ،آپ کا مزار شریف مدینۃ الاولیاء ( یعنی اولیاء کےشہر ) ملتان میں ہے ہزاروں عاشقانِ رسول آپ کے مزار کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔(فیضان بہاء الدین زکریا ،ملخصا)
اللہ کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بہت سے پراگندہ بال (یعنی جن کے بال درست نہ ہوں)،غبار آلود چہرے (یعنی چہرے پر مٹی ہو)اورپھٹے پرانے کپڑوں والے لوگ جن کو حقیر (یعنی چھوٹا)سمجھا جاتا ہے ،(لیکن یہ لوگ)ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہاللہ پاک پرقسم کھائیں تواللہ پاک اس(قسم) کو ضرور پورا کرے ۔(سنن الترمذی، کتاب المناقب،۵/ ۴۶۰،حدیث:۳۸۸۰)

حکایت(04): ’’قیدیوں(prisoners) کے ساتھ کھانا کھایا‘‘

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں اپنے پیر صاحب حضرت ابونجیب ضیاء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکےساتھ مُلکِ شام گیا ۔کسی مالدار شخص نے کھانے کی کچھ چیز یں قیدیوں (prisoners)کے سروں پررکھوا کر بھجوائیں۔ان قیدیوں کےپاؤں بندھےہوئے تھے۔جب دستر خوان (tablecloth for meal) بچھایا گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےخادِم کوحکم دیا:ان قیدیوں کوبلاؤ تا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔لہٰذا ان سب قیدیوں کو لایا گیا اور ایک دسترخوان پربٹھا دیا گیا۔شیخ ضیاء الدین ابو النجیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر ان قیدیوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئےاور ان سب نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔(الابر یز،ج۲، ص۱۴۶ ملخصًا) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے وَلِی ، تکبّر(arrogance) سے بہت زیادہ بچتے تھے،غریبوں اورکمزورلوگوں سے محبّت کرتے تھے ۔ ہمیں بھی تکبّر جیسی برائی سے بچنا چاہیےاور کمزور لوگوں کے ساتھ محبّت بھی کرنی چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت ابونجیب ضیاء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 490 سنِ ہجری میں ایران کے شہر سہرورد میں پیدا ہوئے ، آپ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کےلیےبغداد کا بھی سفرکیا اورمزید تعلیم غوثِ پاک سیّد عبدُ القادر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مدرسے ’’جامعہ نظامیہ ‘‘حاصل کی۔ ابونجیب سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(پیری مریدی کے)سلسلے’’سہروردیہ‘‘ کو شروع کرنے والے ہیں۔آپ کا بیان بہت اچھا ہوتا تھا کہ آپ کا بیان سن کرہزاروں لوگ گناہوں والی زندگی چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اپنا لیتے تھے۔563 سنِ ہجری جمعۃ المبارک کے دن آپ کا انتقال ہوا ۔(تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ ،ص ۱۰۷تا ۱۱۰)
اللہ کے ولی کی شان:
اللہ پاک نے اپنے و لیوں کو بڑا مقام دیا ہے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ پاک جب کسی بندے سےمحبت کرتا ہےتو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سےمحبت کرو ، تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَاماس سےمحبت کرتے ہیں،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے(پُکارتے) ہیں کہ اللہ پاک فلاں سےمحبت کرتا ہےتم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والےبھی اس سےمحبت کرتے ہیں، پھر اس کےلیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے(یعنی زمین والے اُسے پسند کرنے لگتے ہیں)۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷ملتقطا)

حکایت(05): ’’تیز بارش شروع ہوگئ‘‘

ایک مرتبہ حضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شہر میں بارشیں ہونا بند ہوگئیں تو لوگ بہت پریشان ہوگئے،فقیر اورغریب لوگ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے۔ وہاں کا خلیفہ(حاکم۔ ruler) آپ کے پاس آیا اورعرض کی کہ آپ جیسےاللہ پاک کے وَلِی کے ہوتے ہوئے بھی بارش نہیں ہو رہی ۔ آپ اللہ پاک سےدعا کریں کہ آپ کی دعا قبول ہوتی ہے،آپ دعا فرمائیں تاکہ بارش ہو اورفقیروں کوسکون ملے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ہم نے بہت دنوں سے محفل نہیں کی ، ہمیں کلام سناؤ کہ جب ہماری آنکھوں سے (اللہ پاک کی محبّت اور اُس کے خوف میں)آنسؤں کاپانی نکلنا شروع ہوگا اس وقت بارش بھی ہوجائے گی۔ حضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خلیفہ کو واپس بھیجتے ہوئے کہا :بارش ضرور ہوگی (ان شاء اللہ! )جب محفل شروع ہوئی تو آپ کی آنکھوں سےآنسوبہنا شروع ہو گئے اسی وقت اللہ پاک کےحکم سے بادل آئے اوربارش بھی شروع ہوگئی جس سے لوگوں کوا ٓرام ملا ۔بارش کےدو (2)دن بعد خلیفہ آپ کے پاس دوبارہ آیا۔تو خلیفہ کو دیکھ کرحضرت ابو اسحاق چشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رونے لگے،آپ کے رونے پر وہ بھی رونے لگا، بعد میں لوگوں نے آپ سے پوچھا :خلیفہ کو دیکھ کر آپ نے رونا کیوں شروع کردیا تھا تو آپ نےعاجزی کرتے ہوئے اور اللہ پاک سے ڈرتے ہوئےفرمایا کہ:نہ جانے مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہوگئی ہے کہ دو (2) دن سےدنیا والوں سے ملاقات ہورہی ہے اورفقیروں کی محبّت سے میرے دل کو ہٹا دیا گیاہے ۔(سیرالاقطاب ،ص ۸۵ملخصا) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک اپنے ولیوں کو بہت بڑے درجے(ranks) دیتا ہےاور اللہ کے ولی، اللہ پاک کی رحمت کا یقین(sure) بھی رکھتے ہیں اور اللہ پاک ان کی دعا ئیں قبول فرماتا ہے
تَعَارُف (Introduction):
حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی جمعہ کےدن 237 سنِ ہجری مُلکِ شام کے شہردمشق میں پیدا ہوئے ،آپ اپنے وقت کے بہترین عالمِ دین تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (پیری مریدی کے)سلسلے ’’ چشِتیہ ‘‘کو شروع کرنے والے ہیں۔( سیرالاقطاب ،ص ۸۴ملخصا ۔اقتباس الانوار،ص ۲۷۰ملخصا)
اللہ کے ولی کی شان:
اللہ پاک کے محبوب بندے وہ ہیں جو پرہیز گار (یعنی نیک)اور کم مال والے ہیں ، جب وہ غائب ہو جائیں تو انہیں تلاش نہ کیا جائے اور جب وہ حاضر ہوں تو انہیں پہچانا(recognize) نہ جائے ، یہی لوگ ہدایت کے امام (Imam of guidance)اور علم کے چراغ(lamp of knowledge) ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء ، مقدمۃ المصنف ، ۱ / ۴۶ ، حدیث : ۱)

حکایت(06): ’’پتھر روٹی بن گئے! ‘‘

حضرت احمد کبیر رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بھانجے(بہن کے بیٹے) حضرت عبد الرحمٰن رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایسی جگہ چھپ کر بیٹھا تھاکہ جہاں سے میں اپنےماموں امام رفاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کودیکھ کر ان کی باتیں سن سکتاتھا کہ اچانک(suddenly) اوپر سےایک آدمی زمین پر آگیاا اورآپ کے سامنےآکر بیٹھ گیا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا : مشرق (east)سے آنے والے کو خوش آمدید(well come) ،اس نے عرض کی: بیس( 20)دن سے میں نے نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا ہے میں چاہتا ہوں آپ مجھے میری پسند کا کھانا کھلائیں،آپ نے فرمایا : تم کیا کھانا چاہتے ہو؟اس نےنظر اٹھائی تو پانچ مُرغابیاں (wildfowl) ہوا میں اڑ رہی تھیں اس نے کہا : مجھےان میں سے ایک بھنی ہوئی (fried)مُرغابی،گندم (wheat)کی دو (2)روٹیاں اور ٹھنڈے پانی کا ایک(1) جگ چاہیے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےان مُرغابیوں کو دیکھا اورفرمایا :فوراً اس آدمی کی بات پوری کردو!ابھی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ ان میں سے ایک بھنی ہوئی مُرغابی( wildfowl fried ) آپ کے پاس آگئی،پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاپنےقریب پڑے ہوئے دو(2) پتھروں کو اُٹھاکرجیسے ہی اس کے سامنےرکھاتو وہ فوراً بہترین آٹے کی دو (2)روٹیاں بن گئے، پھر ہوا میں ہاتھ اوپر کیا تو لال رنگ کا پانی سے بھرا ہوا جگ آگیا اس کےبعد اس نیک آدمی نے کھانا کھایا اور پھر جس طرح آیا تھا اُسی طرح واپس چلا گیا،اُس کےجانے کے بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تمام ہڈیوں (bones) کو الٹے ہاتھ میں لیا اوران پر اپنا سیدھا ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا : اے ہڈیو،مل جاؤ! اللہ پاک کےحکم اوربِسۡمِ الله الرَّحۡمٰنِ الَّرحِیۡم کی برکت سے اُڑجاؤ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہڈیاں زِندہ مُرغابی بنگئیں اور وہ مرغابی ہوا میں اُڑنے لگی۔)جامع کرامات الاولیاء، ۱/ ۴۹۴، ملخصاً ( اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے ولیوں کو ایسی طاقت دی ہے کہ وہ ایسے کام کر سکتے ہیں جو عام آدمی نہیں کرسکتا ۔دنیا کی چیزیں ان کےحکم پر چلتی ہیں وہ جس کا م کا ارادہ (intention)کرتے ہیں اللہ پاک اپنی رحمت سے اُسے پورا فرمادیتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کا نام احمدبن علی ہے۔ آپ امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ نےصرف سات (7)سال کی عمر میں قرآنِ پاک یاد کر لیا، صرف بیس (20)سال کی عمر میں بہت سارا علمِ دین حاصل کرلیا اور ساتھ ہی اپنے ماموں جان شیخ منصوررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سےاہم دینی علم بھی حاصل کرنے لگے۔ (فیضان احمد کبیر رفاعی ،ص ۱تا۶مُلخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ (پیری مریدی کے)سلسلہ رفاعی کو شروع کرنے والے ہیں(الاعلام للزرکلی ،باب الرفاعی ،ج ۱ ،ص۱۷۴) ۲۲جمادی الاولی ۵۷۸ھ کو ظہرکے وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کا انتقال ہوا۔ (فیضان احمد کبیر رفاعی ،ص۳۱)
اللہ کے ولیوں کی شان:
اللہ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏اَدْفِنُوْا مَوْتَاکُمْ وَسْطَ قَوْمٍ صَالِحِیْنَیعنی اپنے مُردوں کو نیکوں کے درمیان دفن (buried)کرو۔ (کنزالعمال، الحدیث۴۲۳۶۴، ج۱۵، ص۲۵۴)

حکایت(07): ’’بریلی سے مدینہ‘‘

مدینہ پاک میں رہنے والے حاجی محمد عارِف ضِیائی کہتے ہیں کہ ایک بار حُضور قُطبِ مدینہ مولاناضِیاء ُ الدِّین قادِری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مجھ سے فرمایا: میں ایک بار مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مزار شریف پر حاضر ہوا۔ سلام عَرْض کرنے کے بعد جب واپس جانے لگا تواچانک (suddenly) میری نظر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جالیوں کی طرف چلی گئی تو مجھے جالیوں کے سامنےاعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نظر آئے۔ میں بہت حیران (surprise) ہواکہ میرے پیر صاحب، امام اہلسنّترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مدینہ پاک میں ہیں اور مجھے معلوم تک نہیں۔ اب میں دوبارہ جالی شریف کے پاس حاضر ہوا لیکن اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مجھے نظر نہیں آئے تو میں پھر واپس جانے لگا، جاتے جاتے میری نظر پھر جالی شریف کی طرف گئی تو دیکھا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ وہیں حاضِر ہیں، لہٰذا میں پھرجالیوں کے پاس آگیا لیکن اب بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ موجود نہ تھے۔ تیسری بار بھی اِسی طرح ہوا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ راز کا (secret)مُعاملہ ہے، مجھے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔(بریلی سے مدینہ ص۳ تا ۵مُلخصاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے اولیاء کو بہت طاقت دی ہے ۔وہ جب چاہیں ، جہاں جاناچاہیں، جا سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جہاں جس سے ملنے جانا چاہیں ، اُ س سے مل لیتے ہیں ، کسی اور سے ملنے کی خواہش(desire) نہ ہو تو اسی جگہ کوئی دوسرا اُن سے نہیں مل سکتا۔
تَعَارُف (Introduction):
ولی کامل، مُجدِّد و عالمِ دین، عاشقِ نبی، سلسلہ قادریہ کے بزرگ،کئی کتابیں لکھنے والے مُصَنِّف، ترجمہ قرآن کرنے والے مُفَسِّر،ہزاروں فتوے دینے والے مُفتی،حافظِ قرآن،کئی علوم میں ماہر(expert)،نیک و پرہیزگار مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ہی بڑے عالم تھے، آپ نے دینی مسائل کے جو جوابات لکھے ہیں، جب انہیں جمع کیا گیا اور عربی وغیرہ کا ترجمہ کیا گیا تو وہ بائیس ہزار(22,000) سے بھی زیادہ صفحات بن گئے، دنیا کے مختلف ممالک (different countries) کے علماء نے آپ کو مُجَدِّد کہا یعنی آپ کو اتنا بڑا عالم کہا کہ سو(100)سال میں اتنا بڑا عالم پیدا ہوتا ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُن علماء میں سے ہیں کہ جن کی ساری زندگی مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے گزری اور آپ نے اُمّت(nation) کو شیطانی وسوسوں سے بچا کر عشق رسول کے راستے پر چلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا روحانی درجہ (spiritual status) بھی بہت بڑاتھا،آپ کے پیرصاحب نے جیسے ہی آپ کو اپنی بیعت میں لیا (یعنی مرید کیا)اُسی وقت اس بات کی اجازت دے دی کہ آپ بھی لوگوں کو اپنا مرید بنا سکتے ہیں حالانکہ آپ کے پیر صاحب اس طرح اجازت دیتے ہی نہ تھے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر کل قیامت کے دناللہ پاک نے فرمایاکہ تو میرے لیے کیا لایا ہے تو میں کہہ دونگا”احمد رضا“۔
اللہ کے ولی کی شان::
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ اللہ پاک فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے عداوت(یعنی دشمنی) رکھے میں اسے اعلان جنگ دیتا ہوں۔ (بخاری،۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲

حکایت(08): ’’ پانی پر چلنے والے بزرگ‘‘

ایک مرتبہ سردی کے موسم سے پہلےحضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے ایک مریدسے فرمایا کہ اس مرتبہ سردی سے بچنے کے لیے لکڑیاں زیادہ جمع کرلینا۔ آپ کےحکم کے مطابق بہت ساری لکڑیاں جمع کرلی گئیں تو دوسرے ہی دن سےبرف باری(snowfall) شروع ہوگئی اور یہ برف باری چالیس(40) دن تک جاری رہی۔ اس دوران آپ نے اپنے ایک مرید کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا اور جہاں جانا تھا وہاں تک پہنچنے میں تین (3)دن پیدل چلنے کا راستہ (walking distance)تھا۔ جب راستے میں پانی کی ندی آئی (river آیا) تو آپ نےمرید سے فرمایا:پانی پر پاؤں رکھو اور چلتے رہو ، مرید نے دیکھا کہ پانی بہت گہر ا(deep water) ہے تو وہیں رُک گیا۔آپ نے پھر مرید کو فرمایا کہ چلو تو اُس نےچلنا شروع کردیا ۔حضرت خواجہ بھی ان کےپیچھے پیچھے چل رہے تھے جب پانی سے آگے نکل آئے تو حضرت خواجہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےمرید سے فرمایا: اپنے موزے(socks) دیکھو کہ ان پر پانی تو نہیں لگا !مرید نے اپنے موزے دیکھے تو اللہ پاک کے کرم سے موزہ پانی سے گیلا(wet) نہیں ہوا تھا ۔(تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ،ص۱۵۲) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے ولیوں کو ایسی طاقتیں دی ہیں کہ چاہیں توگہرے پانی (deep water) میں چلیں اور دوسروں کو چلا دیں اور یہ سب اللہ پاک ہی کا کرم ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت خواجہ محمد بہاؤ الدین نقشبند 718 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ شریعت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے ،کھانااکثر اپنے ہاتھوں سے بناتے اور دستر خوان پربیٹھے ہوئے مُریدوں کو اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرماتے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(پیری مریدی کے)سلسلہ نقشبندیہ کو شروع کرنے والے ہیں۔ آپ نے بے شمارلوگوں کو برائیوں کے راستے سے ہٹا کر نیکیوں کے راستےپر چلایا۔( پیڈیا اولیاء کرام ،ص۵۸،۵۹ملخصا)
اللہ کے ولی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو جنّت کے بادشاہ ہیں؟عرض کی گئی : کیوں نہیں۔ فرمایا:وہ کمزور اور ناتواں (یعنی کمزور)شخص(جنّت کا بادشاہ ہے)جو پھٹے پرانے کپڑے (torn old clothes)پہنتا ہو اور لوگ ا س کی پرواہ نہیں کرتے ہوں(people don't care about them) لیکن اگر وہ اللہ پاک کے بھروسے(trust) پر کسی چیز کی قسم کھا لے تو اللہ پاک اُسے پورا فرما دے گا۔( ابن ماجۃ ، کتاب الزھد ، باب من لا یؤبہ لہ ، ۴ / ۴۲۹ ، حدیث : ۴۱۱۵)

حکایت(09): ’’’ مدینے میں حاضر ہیں مگر! ‘‘

مولانا محمد شریف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں میں حج کےلیے مکہ پاک گیا پھر مدینہ پاک حاضر ہوا۔اب میں نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی بارگاہ میں حاضری کے لیے مسجدِ نبوی کے پاس پہنچا تو گنبد خضرا ء کے سامنے ایک سفید داڑھی(white beard) والےاوربہت نورانی اور روشن چہرے (bright face)والے بزرگ کو دیکھا جو پیارےآقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے مزار مبارک کی طرف منہ کرکےادب سے دوزانو (جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں) بیٹھ کر کچھ پڑھ رہے تھے پھر مجھےمعلوم ہوا کہ یہ تو عرب شریف کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نَبہانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں،میں آپ کے چہرے کی نورانیت اور خوبصورتی دیکھ کر بہت حیران(surprised) ہوا پھر میں آپ کےقریب جاکر بیٹھ گیا اورسلام کیا اور ہاتھ ملایا،میں نے علامہ اسماعیل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےعرض کی :حضور میں (_country_)((_country_)) سے آیا ہوں میں نے آپ کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور مجھےآپ سے بہت محبت ہے۔پھر میں نےآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےعرض کیا:حضور آپ پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے مُبارک روضے (یعنی مزار شریف) سے اتنا دور کیوں بیٹھے ہیں ؟میری یہ بات سن کر آپ رونے لگے اورروتے روتے فرمایا: میں اس لائق کہاں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے قریب جاؤں ۔اس کے بعد میں ان کے گھر کئی مرتبہ حاضر ہوا میں نے آپ کو پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے بہت زیادہ محبت کرنے والا پایا ۔ (جواہر البحارمترجم ،پیش لفظ،ص۱۰) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ بزرگانِ دین نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے روضہ مُبارک (یعنی مزار شریف) کا بہت ادب کرتے تھے اورنیک ہونے کے باوجو د خود کو گناہگار (sinner)سمجھتے تھے ۔ہمیں بھی پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم ، آپ کے مزار اور جالیوں کا ادب کرنا چاہیے۔ جب مدینے پاک حاضری ہوتو ہرگز ہرگز جالیوں کی طرف پیٹھ(کمر) نہیں کرنی بلکہ اپنا چہرہ(منہ) پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مزار مبارک کی طرف کرنا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
علامہ یوسف بن اسماعیل نَبہانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ زبردست عاشقِ رسول،اللہ پاک کےولی اوربہت بڑے عالمِ دین تھے۔آپ 1849سن عیسوی میں عرب شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ عبادت کے علاوہ فتوی (یعنی دینی مسائل لکھ کر)دینے، کتابیں لکھنے کی وجہ سے بہت مصروف(busy) رہتے مگر پھر بھی حرمین شریفین یعنی مکۃُ المکّرمہ اورمدینۃُ المنّورہ بار بار حاضری کےلیے جاتے رہتے تھے۔آپ سچے عاشق رسول تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ درود پاک اورپیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےفضائل پر بہت بہترین کتابیں لکھیں جنہیں پڑھ کر آج بھی عاشقانِ رسول فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جب آپ نے اپنی زندگی کی آخری کتاب لکھی تو خواب میں پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی زیارت ہوئی توپیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے آپ کی کتاب کو اپنے سینے سے لگایا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کی :یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اب آپ سے دور نہیں رہا جاتا پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال ہوگیا ۔(جواہر البحارمترجم ،پیش لفظ،ص۹تا۱۲)
اللہ کے ولی کی شان::
نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اولیاء کرام کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:اللہ پاک کی مخلوق(all creatures) میں اس کے کچھ خاص بندے ( یعنی ولی ) ہیں کہ جنہیں اللہ پاک عافیت(یعنی امن وسلامتی) کے ساتھ زندہ رکھتا ہے ،اورانہیں عافیت میں ہی موت عطا فرماتا ہے اورانہیں جنّت میں بھی عافیت کے ساتھ داخل فرمائے گا ۔(الاولیاء لابی الدنیا،ص۱۰)

حکایت(10):’’ شیراور لنگڑی لومڑی‘‘

حضرتداتا گَنج بَخش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:میں نے شیخ احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِسے ان کی توبہ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے:ایک بار میں اپنے اُونٹوں کو لے کر جا رہا تھا۔ راستےمیں ایک بُھوکے شیرنے میرا ایک اُونٹ زخمی(injured) کر کے گرا دیا اور پھراوپر ایک جگہ پر چڑھ گیا اور آواز نکالنے لگا، اُس کی آواز سنتے ہی بَہُت سارے جانور آگئے۔شَیر نیچے آ گیااور اُونٹ کو مار دیامگر خود کچھ نہ کھایا بلکہ دوبارہ اوپر چلا گیا ، جمع ہونے والے جانوراُونٹ کو کھانے لگےاور کھا کر چلے گئے۔اب جو گوشت بچ گیا، اُسے کھانے کےلئے شَیر قریب آیا تو ایک لنگڑی لُومڑی(lame fox) دُور سے آ رہی تھی ، شیر پھر اوپر چلا گیا۔ جب لُومڑی کھا کر چلی گئی تب شیر نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا ۔ شیخ احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِکہتے ہیں کہ: میں دُور سے یہ سب دیکھ رہا تھا،اچانک شیر نے میری طرف دیکھا اورصاف آواز میں بولا:”احمد ! ایک ٹکڑا(piece) دوسروں کے لیے چھوڑ دیناتو کُتّوں (dogs)کا کام ہے، اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے مرد تو اپنی جان بھی دے دیتے ہیں ۔ بس میں نے اپنے تما م گناہوں سے توبہ کی اور دنیا سے دور ہو کر اللہ پاک کی عبادت کرنے لگ گیا۔( کشف المحجوب،ص۲۰۴،مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہجب ایک جانوردوسرے جانوروں کا خیال رکھتا ہےتو ہمیں انسان ہوکردوسروں انسانوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت داتا علی ہجویری رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ کم و بیش 400 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی کُنْیَت(kunyah) ”ابوالحسن“، نام ”علی“اور لقب”داتا گنج بخش“ ہے۔ بچپن ہی سے محنت کےساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کیا۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کا انتقال 20 صفرُ 465سنِ ہجری میںہوا۔آپ کا مزار شریف لاہور میں ہے۔
اللہ کے ولی کی شان::
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :تمہارا سب سے بہترجگہ بیٹھنا اللہ پاک کے ان نیک بندوں کےساتھ بیٹھنا ہے،جن کو دیکھنے سےتمہیں اللہ پاک کی یاد آجائے،ان سے بات کرنے سے تمہارےعلم میں اضافہ ہو،اوران کے اعمال دیکھ کرتمہیں آخرت (یعنی مرنے کے بعد کی زندگی ) کی یاد آجائے ۔(الاولیاءلابی الدنیا،ص۱۷)

حکایت(11):’’ کل کیامنہ دکھائیں گے؟‘‘

ایک مرتبہ حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ایک ایسے شہر میں گئے کہ جہاں کے لوگ وقت سے پہلے ہی نماز کے لئے تیار ہوجاتے اور وقت پر نماز پڑھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلدہی نماز کی تیاری نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے اس کا وقت نکل جائے پھر کل قیامت کے دن کس طرح یہ منہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دکھاسکیں گے؟ (دلیل العارفین، ص۸۳)حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:نماز ایک امانت ہے جو اللہ پاک نے اپنے بندوں کو دی ہے،لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو پورا کریں۔(دلیل العارفین، ص ۸۳مُلخصاً) اس سچے واقعے سے پتہ چلا کہنمازکو امانت سمجھیں اور نماز وقت پر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت خواجہ غریب نواز رَحمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ 537سنِ ہجری میں” سنجر“مىں پیدا ہوئے ۔آپ کا نام”حسن“ ہے۔”مُعینُ الدّین“اور”غریب نواز“مشہور لقب (title)ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزاج میں نرمی تھی۔سخت بات سُن کرغصّہ نہ فرماتے ۔6رجبُ المرجب 633سنِ ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا مزار شریف ہند کے مشہورشہر اجمیرشریف میں ہے۔
اللہ کے ولی کی شان::
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بے شک میری اُمّت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ تم سےایک(1) دینار مانگیں تو تم انہیں نہیں دوگے، اگر وہ تم سے ایک دِرہم (1) مانگیں تو تم منع کر دوگے،اور اگر ایک(1) پیسہ مانگیں تب بھی تم منع کر دوگے۔(لیکن ان لوگوں کا اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسا درجہ(special ranks) ہے )اگر وہ اللہ پاک سے جنّت مانگ لیں تو وہ انہیں ضرور عطا فرمائے۔ (المعجم الاوسط،۵/ ۳۴۴، حدیث:۷۵۴۸ ملخصا)

حکایت(12):’’بزرگوں کی زبان‘‘

ایک شخص نے بابافرید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےعرض کی:میری کئی لڑکیاں ہیں جن کی شادی کے اخراجات (expenses) اٹھانا میرے بس میں نہیں۔یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھایا، سورۂ اخلاص (یعنی قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ مکمل سورت)پڑھ کردم کیا جس سے وہ مٹّی سونا (gold)بن گی۔ آپ نے اُسے سونا دے کر فرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنی لڑکیوں کی شادی کرو۔ اُس آدمی کے دل میں لالچ پیدا ہوگئی کہ سونا بنانے کا طریقہ پتا چل گیا۔اُس نے گھر پہنچ کر بہت ساری مٹی جمع کی اور سورۂ اخلاص پڑھ کر دم کیا مگر جب وہ پڑھتے پڑھتے تھک گیا اور تھوڑی سی مٹی بھی سونا نہیں بنی تواُس نے اپنے ایک دوست کو ساری بات بتا دی ۔ دوست سمجھدار (sensible)تھا کہنے لگا: بھائی! سورۂ اخلاص تو وہی ہے مگر بابا فرید صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زبان کہاں سے لاؤ گے؟( انوار الفرید، ص ۳۰۰ ملخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہاللہ پاک کےنیک بندے اپنی زبان کو گناہوں سے بچاتے اور نیکیوں میں استعمال کرتے ہیں اسی لیے اللہ پاک اُن کی زبان میں اثر(effect) پیدا فرمادیتا ہے۔ہمیں بھی چاہیےکہ نیک بندوں کی طرح اپنی زبان کو گناہوں سے بچائیں اور نیکیوں میں استعمال کریں ۔
تَعَارُف (Introduction):
بابافرید صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ569ھ یا 571ھ مطابق 1175ء میں پیداہوئے۔(سیرالاولیاء مترجم،ص۱۵۹، انوارالفرید،ص۴۲،۴۸) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قرآن پاک حفظ کرنے اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملتان آ گئے اوروہاں قرآن و حدیث، فقہ(یعنی دینی مسائل) اور کئی شرعی علم حاصل کیے۔( خزینۃ الاولیاء، ۲/۱۱۰مُلخصاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال، 5محرمُ الحرام 664ھ مطابق 17 اکتوبر 1265ء کو ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاکپتن شریف میں ہے۔ (فیضان بابا فرید گنج شکر،ص ۹۶تا ۹۸)
اللہ کے ولی کی شان::
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ھُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پا س بیٹھنے والا بدبخت(bad luck) نہیں رہتا۔)صحیح مسلم،الحدیث: ۲۶۸۹، ص۱۴۴۴،مُلتقظاً(