’’ علماء کرام کی12 حکایت ‘‘

حکایت(01): ’’ عالم صاحب کا خوفِ خدا‘‘

ایک روز امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہیں جارہے تھے کہ بے خیالی میں آپ کا پاؤں ایک لڑکے کے پَیْر پر پڑ گیا، لڑکے کی چیخ نکل گئی اور اُس کے مُنہ سے یہ بات نکلی:جناب !کیا آپ قِیامت کے دن میں لیے جانے والے بدلوں(recompenses) سےنہیں ڈرتے ؟ یہ سُننا تھا کہ امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت زیادہ ڈر گئے اورآپ بیہوش(unconscious ) ہوگئے، کچھ دیر کےبعد جب ہوش آیا توعرض کی گئی:ایک لڑکے کی بات سے آپ اتنا کیوں ڈرگئے؟ فرمایا:کیا معلوم اُس کی آوازاللہ پاک کی طرف سے کوئی ہِدایت (guidance)ہو۔(اَ لْمَناقِب لِلْمُوَفَّق ،۲/۱۴۸) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ اللہ کا خوف ایسی پیاری عادت ہے جوہمیں برائیوں سے بچاتی ہے اوراچھائیوں کی طرف لے کر جاتی ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ دین کی برکت سے علماء، اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
امام اعظم کا نام ”نُعمان“ اور کُنْیَت(kunyah)”ابُو حنیفہ“ہے۔سن 80سنِ ہجری میں آپ پیدا ہوئے۔ امام ِاعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دن بھر علمِ دین پڑھاتے اور ساری رات عبادت کرتے ۔ہمارے امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمبارَک میں اکسٹھ( 61) قرآن پاک خَتْم کیا کرتے۔تیس(30) دن میں ،تیس (30)رات میں اور ایک(1) تراویح میں نیز آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پینتالیس( 45)سال تک عشاء کے وُضُو سے فجرکی نماز پڑھی ۔ (بہارِ شریعت حصہ ۴ ص ۳۷) ایک روایت کے مطابِق امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے زندگی میں پچپن( 55) حج کئے اور جس گھر میں آپ کا انتقال ہوا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اُس میں سات ہزار بار(7000) قرآن مجید خَتْم فرمائے تھے۔ ڈیڑھ سو(150 ) سنِ ہجری میں آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ۔آپ کے جنازے میں بہت لوگوں نے شرکت کی ، بغداد شریف میں آپ کامزار مبارک ہے۔ ( عقود الجمان ص ۲۲۱) قرآن وحدیث کی روشنی میں جو مسائل امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بیان کیے ہیں،پاک وہند او ربنگلہ دیش وغیرہ میں رہنے والے مسلمانوں کی بھاری اکثریت ان مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو ”حنفی “کہتے ہیں۔
علم اورعلما ءکی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏اللہ پاک بڑا جَواد(سب سے زیادہ نوازنے والا) ہے اور مىں سب آدمىوں مىں بڑا سخی ہوں اور مىرے بعد اُن مىں بڑا سخى وہ ہے جس نے کوئى علم سىکھا پھر اس کو پھىلادىا۔ (شعب الایمان، ۲/ ۲۸۱، حدیث : ۱۷۶۷، باختصار)

حکایت(02): ’’زبان اور کانوں کی حفاظت‘‘

حضرت احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بازار (market)سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے، ہم بھی ان کے ساتھ جانے لگے۔ اتنے میں راستے میں موجود ایک شخص کسی عالم کی برائی کرنے لگا، امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہماری طرف مڑے(turn to us) اور فرمایا: اپنے کانوں کو غیبت (یعنی برائی )سننے سے بچاؤ جیسے اپنی زبانوں کو بچاتے ہوکیونکہ سننے والا کہنے والے کا شریک(partner) ہوتا ہے۔مزید فرمایا کہ اگر بےوقوف کی بات کو قبول(accept) نہ کیا جائے تو یقیناً قبول نہ کرنے والا خوش نصیب (lucky) ہوتا ہے اور وہ بری بات کرنے والا بدنصیب(unlucky) ہوتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء،۹/۱۳۰ رقم: ۱۳۳۶۴) اس سچے واقعے سےپہلی بات یہ سیکھنے کوملی کہ عالم ِدین کو برا نہیں کہنا چاہیے اور اگر کوئی کسی عالم کی یا کسی بھی مسلمان کی برائی کر رہا ہو تو اسے روکنا چاہیے روک نہ سکیں تو اپنے کانوں کو وہ برائی سننے سے بچانا چاہیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء کے پاس حاضر ہونا چاہیے کہ علماء برائیوں سے بچاتے اور اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کے حکم پر عمل کرواتے ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام” محمد‘‘ اور والد کا نام” ادریس‘‘ تھا ، آپ کے دادا کے کا نام” شافع ‘‘ تھا جن کی وجہ سے آپ کو ” شافعی ‘‘کہا جاتا ہے،آپ” قریش‘‘ خاندان سے ہیں۔بچپن(childhood) ہی سے علم حاصل کرنے میں مصروف(busy) ہو گئے تھے، بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرنے والے تھے، 50 ہزار درھم (یعنی چاندی کے سکّے)بھی ایک ہی دن میں صدقہ کر دیا کرتے تھے، آپ کی پیدائش(birth) 150 سنِ ہجری میں اور آپ کا انتقال 204 سنِ ہجری کو رجب(کے مہینے) کی آخری تاریخوں میں ہوا۔ (حلیۃ الاولیاء، ۹/۷۷، رقم:۱۳۱۷۰) دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو” شافعی ‘‘کہتے ہیں۔
علم اورعلما ءکی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏اس حال میں صبح کرو کہ تُم (۱)عالِم ہو یا (۲) علم سیکھنے والےہویا(۳) عالم کی باتیں سننے والے یا (۴)عالم سے محبت کرنے والےہو اور پانچو اں(5th) نہ ہونا کہ ہلاک ہوجائے گا ۔ (معجم صغیر، جزء۲، ص۹، حدیث: ۷۸۷)

حکایت(03): ’’ حدیث شریف کا ادب(respect) ‘‘

حضرت امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جب حدیث شریف کا درس دینے کا ارادہ (intention)کرتے تو پہلے وضو کرتے، اپنی داڑھی میں کنگھی(combing) کرتے، بہت اطمینان (calmness) اور ادب کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھتےپھر حدیث بیان کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اس انداز(style) سے حدیث بیان کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی حدیث کی تعظیم (respect)کرنے کو پسند کرتا ہوں اور اطمینان وسکون کے ساتھ وضو کے ساتھ ہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ آپ راستے میں کھڑے کھڑے یا جلد بازی (haste) میں حدیثِ مبارکہ بیان کرنے کوپسند نہیں کرتے تھے۔ آپ نے خود فرمایا کہ:مجھے یہ پسند ہے کہ میں جو بھی حدیثِ رسول بیان کروں اسے اچھی طرح سمجھا دوں۔(حلیۃ الاولیاء ،۶/۳۴۷، رقم:۸۸۵۸ ) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمیں قرآن وحدیث اور علمِ دین کا ادب کرنا چاہیے۔اور یہ بھی پتاچلا کہ دینی کتابوں کا ادب سیکھنے کے لیے علماءکرام کے انداز (manners) جاننے چاہیے اور ان کی طرح اپنی زندگی گزارنی چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
آپ کانام ”مالک“کُنْیَت(kunyah)ابو عبدُ اللہ ، والد کا نام انس ہے اور آپ امام مالک کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو عالم ِمدینہ کہا جاتا ہے، 93 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے، تبع تابعی بزرگ ہیں(یعنی آپ نے تابعین کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْکا زمانہ پایا ہے اور ان کی زیارت بھی کی ہے ( مراۃ ج۱، ص۱۸۴) تابعین، وہ ہیں کہ جنہوں نے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو یا اُن کے پاس جانا ہوا ہو)، اتنے بڑے عالم تھے کہ لوگ دوسرے ملکوں سے سفر کر کے آپ کے پاس علم سیکھنے آتے، (سیر اعلام لانبلاء، ۱۵/۴۳ ملتقطا) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عشق رسول ایسا تھا کہ مدینہ پاک میں گھوڑے پر بیٹھنا، آپ کو بالکل پسند نہیں تھا کہ جس شہر میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا روضہ (یعنی مزار شریف)ہے اس کی مٹی پر میری سواری (ride)کے پاؤں کیسے پڑیں گے۔ (احیاء علوم الدین،کتاب العلم، ۱/ ۴۸) ملخصا) ۱۰ ربیع الاول 179 سنِ ہجری ، 86 سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا ۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۵/۱۳۱) دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو”مالکی “کہتے ہیں۔
علم اورعلما ءکی شان:
فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :زمین وآسمان کے درمیان جو کچھ بھی ہے(وہ) عالم کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہے یہاں تک کہ سمندر میں مچھلیاں بھی۔ (ابن ماجہ،۱/۸۷، حدیث: ۲۳۹)

حکایت(04): ’’اسلام کے لیے‘‘

علماءِدین اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ ،اسلام کے لیےحق اور سچی بات پر ہی رہتے اور کسی سےنہ ڈرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کوآپ کے زمانے کےخلیفہ(حاکم۔caliph)نے قرآنِ پاک کے بارے میں ایک غلط فتوی دینے(یعنی غلط دینی مسئلہ بتانے) کو کہا: امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے منع کر دیا۔ خلیفہ اس بات پر بہت غصّہ ہوا اور اس نےآپ کو بہت سی دھمکیاں (threats)دی بلکہ آپ کو جان سے مارنے کا حکم دے دیا لیکن آپ نےغلط فتوی نہیں دیا۔ امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو قید(imprisoned) کرلیا گیا پھر آپ کی کمر پر کوڑے(whip) مارےگئےجس سے آپ کی کمر خون سےبھر گئی ۔ آپ کو جب کوڑا مارا جاتا توفرماتے، میں نےخلیفہ کو مُعاف کیا۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بےہوش ہوگئے۔امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اٹھائیس (28) مہینے( یعنی دو (2)سال سے بھی زیادہ وقت)قید میں رکھا گیا اور آپ کو ہر رات کوڑےمارےگئے۔( معدنِ اَخلاق حصہ ۳ ص ۳۷ تا ۳۹، دار الکتب حنفیہ باب المدینہ کراچی،الطبقات الکبریٰ ج۱ص۷۹، مُلَخَّصاً ( اس حکایت سے معلوم ہوا کہ علماء کرام نے اسلام کی اصل تعلیم کو بچانے کے لیے بہت تکالیف اور پریشانیاں اٹھائیں، ان کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم تک اسلام کی صحیح معلومات پہنچی ہیں۔ اگر وہ لوگ ظلم کرنے والوں سے ڈر جاتے اوران کی غلط باتیں مانتے تو آج اسلام باقی نہ رہتا۔ اللہ پاک ہمیں علماء کرام کی محبّت عطاء فرمائے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 164سنِ ہجری میں پیدا ہوئے ۔حضرت ادریس حدَّاد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے امام احمد بن حنبل کوہمیشہ نماز پڑھتے، تلاوتِ قرآن کرتے یا کوئی کتاب پڑھتےہوئےدیکھا ہے۔ امام احمد حدیثِ پاک کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔آپ نے دس لاکھ(one million) احادیث لکھیں۔انتقال کے وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عمر مبارک ستتر( 77) سال تھی۔آپ کے نمازِ جنازہ میں تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔(حکایتیں اورنصیحتیں،ملخصا) دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان، آپ کے بیان کیے ہوئے شرعی مسائل پر عمل کرتے اور اپنے آپ کو ” حنبلی ‘‘کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی وفات کے230 سال کے بعد آپ کی قبر کے قریب جب کسی کیلئے قبر کھودی گئی تو غلطی سے آپ کی قبر کھل گئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ230 سال گزر جانے کے باوجودآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جسم اورکفن بالکل صحیح تھا۔ (مرقاۃ المفاتیح ،ترجمۃ الامام احمد بن حنبل،ج۱،ص۶۷، دارالفکر بیروت)
علم اورعلما ءکی شان:
ایک مرتبہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بىماروں کى عىادت(بیمار کی خیریت پوچھنے) اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ علَیْہِ وَسَلَّم اور قرآن کی تلاوت سے (بھی افضل(superior) ہے) ؟ فرماىا : آىا (یعنی کیا) قرآن بغیرعلم کے فائدہ دے گا؟(قوت القلوب، ۱/ ۲۵۷)

حکایت(05): ’’ آنکھوں کی روشنی دوبارہ آگئی‘‘

بچپن میں حضرت امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بینائی(یعنی آنکھوں کی روشنی) چلی گئی، آپ کی والدہ کو بہت افسوس ہواتوانھوں نے رو رو کر دعائیں کیں۔ ایک رات جب امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی والدہ سوئیں توانہوں نے خواب میں حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بیٹے کی آنکھوں کی روشنی واپس آنے کی خوشخبری (good news) سنائی ۔ جب امّی جان صبح اٹھیں تو امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بینائی(یعنی آنکھوں کی روشنی) واپس آگئی تھی۔ (فتح الباری، ج،ص۴۵۲) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson))ملا کہپریشانی میں”سب“کےسامنے مت روئیے،”ربّ“ سے دعا کیجئے ، اُس کے سامنے روئیے، اللہ پاک کی رحمت پر اُمید(hope) رکھیئے ، وہ چاہے گا تو آپ کی مشکل ختم ہوجائے گی، اللہ پاک سے دعا کر نے کی عادت بنالیجئے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام بخاریرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جمعہ کے دن 13شَوّالُ المُکَرَّم،194سنِ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ کا نام ”محمد“ہے۔(المنتظم،۱۲/۱۱۳)امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام زندگی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی حدیثیں پڑھنے پڑھانے اور جمع کرنے میں گزری۔ آپ نے کئی کتابیں لکھیں جن میں سے”بخاری شریف “ سب سے زیادہ مشہورہوئی اور قرآنِ پاک کے بعداس کتاب کو مسلمانوں میں اہمیّت(importance) حاصل ہے۔(طبقات الشافعیہ الکبریٰ، ۲/۲۳۴،مرقاۃ المفاتیح، ۱/۵۴) شَوّال کی پہلی تاریخ،256سنِ ہجری کو 62سال کی عمر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال ہوا۔ سَمَرْقند(ازبکستان) کے قریب” خرتنگ(khartank)“میں آپ کا مزار ہے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۰/۳۱۹،۳۲۰)
علم اورعلما ءکی شان:
اللہ پاک اور اُس کے فرشتے اور سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ چىونٹى اپنے سوراخ مىں اور ىہاں تک کہ مچھلى ىہ سب درود بھىجتے(یعنی دعا کرتے) ہىں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائى سکھاتا ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، ۴/ ۳۱۳، حدیث : ۲۶۹۴)

حکایت(06): ’’علم کا شوق‘‘

بزرگانِ دین علمِ دین سے بہت محبّت فرماتے تھے جب وہ دین کا علم حاصل کرتےتو انہیں کسی چیز کا خیال نہیں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے امام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا ،تو آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ گھر آکر وہ حدیث کتابوں میں دیکھنے لگے۔آپ کےقریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا(basket) بھی رکھا ہوا تھا۔آپ وہ حدیث ڈھونڈتے رہےاور ایک ایک کھجور اٹھا کر کھاتے رہے ۔ آپ اس طرح حدیث دیکھتے رہے کہ آپ کو کسی چیز کا کوئی خیال ہی نہ رہا،جب آپ کووہ حدیث ملی جسےآپ ڈھونڈ رہے تھے تو کھجور کا پورا ٹوکرا (basket)خالی ہوگیا تھا۔ اتنی زیادہ کھجوریں کھا لینے کی وجہ سےآپ بیمار ہوگئے اور اِسی بیماری میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (تھذیب التھذیب ،ج۸،ص۱۵۰مطبوعہ دارالفکر بیروت) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمارے بزرگانِ علمِ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ دین سے بہت محبّت کرتے تھے اورعلمِ دین حاصل کرنے کے لیے بہت کوششیں بھی کرتے تھے ،یہ بھی معلوم ہواکہ کسی مسلمان کی دینی مدد کے لیے ہمارے بزرگانِ دین بہت کوششیں کرتے تھے ۔
تَعَارُف (Introduction):
امام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 202 سنِ ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے علم ِ دین حاصل کرنے لیے کئی ملکوں کاسفر کیا ۔آپ کوحدیث کے علم سے بہت محبّت تھی ۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں ، اُن میں حدیث کی مشہور کتاب ’’صحیح مسلم شریف ‘‘ بھی ہے ۔ حدیث شریف کی کتابوں میں’’ بخاری شریف ‘‘ کے بعد ، مسلمانوں میں ’’مسلم شریف ‘‘ کو بہت زیادہ اہمیّت(importance) حاصل ہے۔261 سن ہجر ی میں تقریبا 59 سال کی عمر آپ کا انتقال ہوا۔ (بستان المحدثین،اکمال وغیرہ،منتخب احادیث ،ص۲۳۳)
علم اورعلما ءکی شان:
حضرت ابراہىم عَلَیْہِ السَّلَام سے اللہ پاک نے فرمایا : اے ابراہىم(عَلَیْہِ السَّلَام)! مىں عَلِىم(علم والا) ہوں، ہر(دین کا)علم(رکھنے والے) کو دوست رکھتا ہوں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، ص۷۰، حدیث : ۲۱۳)

حکایت(07): ’’امام غزالی کا تھیلہ(bag) ‘‘

امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دین کا علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ علم دین حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے بہت دور ایک جگہ جاکر آپ نے خوب علم حاصل کیا ۔آپ علمِ دین حاصل کرتے اور اہم اہم پوائنٹس(points) لکھ لیتے تو آپ کے پاس بہت سارےصفحات(papers) جمع ہوگئے۔اب آپ اپنے گھر واپس آنے لگے تو آپ نے اپنے لکھے ہوئے صفحات، ایک تھیلے(bag) میں ڈال لیے اور گھر کی طرف جانے لگے،راستے میں آپ کےقافلے کو ڈاکوؤں(Robber) نے روک لیا سب لوگوں سے ان کا سامان اورپیسےچھین لیے، امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس ڈاکو آئےتو ان کےسامان کےساتھ وہ تھیلہ (bag)بھی چھین لیاجس میں آپ کے صفحات تھے ،اس پر آپ بہت پریشان ہوئے اورڈاکوؤں کے سردار کے پاس چلے گئے اوراس کو بتایا آپ میرا سارا سامان لےلیں مگر مجھے میرا تھیلہ دے دیں ،وہ تمہارے کسی کام کا نہیں۔ڈاکوؤں کے سردار نے کہا: اس تھیلے میں ایسا کیا ہے ؟آپ نے فرمایا: اس میں میرے سالوں کے لکھے ہوئے نوٹس(notes) ہیں اگر مجھے وہ نہیں ملے تو میرا بہت سارا علم چلا جائے گا۔ یہ سُن کر ڈاکوؤں کا سردار ہنس پڑا اوراس نے امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کچھ اس طرح کہا :آپ کے پاس علم نہیں ہے، آپ کا علم تو اس تھیلے میں ہے۔یہ کہہ کر ڈاکوؤں کے سردار نے وہ تھیلا واپس کردیا ۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے وہ تھیلا تو واپس لے لیا مگر آپ سوچنے لگےاورا ب آپ نے گھر پہنچ کر تین(3) سال میں علمِ دین کی وہ سب باتیں یاد کرلیں تاکہ اب اگر کتابیں چلی بھی جائیں تب بھی علمِ دین ان کے پاس ہی رہے۔(فیضان امام غزالی ص ۱۲ملخصا( اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہعلم کو لکھنے کے ساتھ ساتھ یاد بھی کرنا چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 450سن ِہجر ی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا، آپ کے والد کا اور آپ کے دادا ،تینوں کا نام” محمد“رکھا گیا یعنی آپ محمد بن محمد بن محمد غزالی ہیں۔آپ نے علم دین حاصل کرنے کے لیے دور دور کے سفر کیے،علم دین پڑھا بھی اورپڑھایا بھی ۔آپ بہت عبادت بھی کیا کرتے۔آپ نے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور بُرے خیلات کے علاج اور انسان کی اپنی اصلاح کے لیے ضروری باتوں پر کتابیں لکھیں، جن کو پڑھنا ہر مسلمان کے لیے فائدہ مند (beneficial)ہے۔کم از کم، کتاب ” لڑکے کو نصیحت“ تو فوراًپڑھ لینی چاہیے۔(فیضان امام غزالی ملخصا(
علم اورعلما ءکی شان:
جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے چلے گا اللہ پاک اُس کے لئے جنّت کا راستہ آسان کرے گا اور جب کچھ لوگ اللہ پاک کے گھروں میں سے کسى گھر مىں جمع ہوکر اللہ پاک کی کتاب(یعنی قرآنِ پاک) پڑھتے ہىں اور آپس مىں درس کرتے (یعنی پڑھاتے)ہىں تو اُن پر سکىنہ(یعنی اطمنان) نازل ہوتا ہے اور رحمت اُن کو گھیر لىتى(یعنی رحمت اُترتی) ہے اور فرشتے اُن کو ہرطرف سے گھىرلىتے ہىں(یعنی ہر طرف فرشتے آجاتے ہیں) اور اللہ پاک اپنے پاس والوں کے سامنے اُن کا ذکر کرتا ہے(مسلم، کتاب الذکر والدعا ، ص۱۴۴۷، حدیث : ۲۶۹۹) ىعنى اللہ پاک اُن( کے علم دین کے لیے چلنے ، جمع ہو کر سیکھنے سیکھانے) کے اِن اچھے کاموں پر خوش ہوتا ہے اور فرشتوں کو بتاتا ہے کہ میں اِن سے خوش ہوں۔ (فیضان علم وعلماءص۱۷بتغیر)

حکایت(08): ’’بخار کی حالت میں صرف دو دن میں ایک کتاب لکھ دی‘‘

اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم اورسچّے عاشقِ رسول تھے۔ آپ کا کام،پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنا اور اگر کوئی ہمارے نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کرے تواُس کی گستاخیوں اور بے ادبیوں سے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اُمت(ummah)کو بچانا تھا۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہدوسری بار جب حج ادا کرنے گئے،تو وہاں جاکر پتا چلا کہ مکّے شریف کے گورنر (governor)کے پاس کچھ لوگوں نے آکرنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے خلاف باتیں کی ہیں اور سوالات کے جوابات مانگے ہیں۔مکّہ شریف کے بہت بڑے عالم صاحب نےاُن لوگوں کی طرف سے ہونے والے سوالات اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ كو دیئے اور دو (2)دن کے اندر،اِ س کا جواب لکھنے کی گزراش کی ۔اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اسی وقت قلم اوراِنک(ink) لانے کو کہا لیکن دوسرے دن آپ کو بہت تیز بخار ہوگیا۔ بخار کی حالت میں بھی کچھ گھنٹے آپ نے جواب لکھ کر مکمل (complete) کردیا اور اس کے علاوہ بھی اپنے دیگر کام کیے۔آپ نے ان سوالوں کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے دیے کہ مکّے شریف کے گورنر (governor) نے کہا ’’اَللہُ یُعْطِی وَھٰؤُلآءِ یَمْنَعُونَ‘‘یعنی اللہ پاک تو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو غیب کا علم عطا فرماتا ہےاوریہ لوگ منع کرتے ہیں۔ عرب کے علماءاُن جوابات کو پڑھ کر اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تعریفیں کرنے لگے اور اُن سوالات کرنے والوں کو جب یہ جوابات سنائے گئے تو وہ سمجھ گئے کہ ہم سب مل کربھی اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جواب نہیں دے سکتے لھذا وہ مزید کوئی بات نہ کر سکے۔(ملفوظات اعلی حضرت ،۱۹۰تا ۱۹۳ماخوذاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا ک ہہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے عالم تھے کہ مکّے کے علماء بھی آپ کی تعریفیں کرتے تھے۔ اللہ پاک ہمیں ان کی کتابوں میں بتائی ہوئی باتوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا شوق عطاء فرمائے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ بدنصیب اور بُرے لوگ ہمارے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کم کرنے کی کوشش کرتے اور دوسری طرف کچھ خوش نصیب اور اچھے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان کا بیان کرتے اور وسوسے ڈالنے والوں سے اُمت کو بچاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُن علماء میں سے ہیں کہ جن کی ساری زندگی مکّے کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے گزری اور آپ نے اُمت کو شیطانی وسوسوں سے بچایا اور عشق رسول کے راستے پر چلایا۔آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے مختلف ملکوں کے علماء نے آپ کو مُجَدِّد کہا یعنی آپ کو اتنا بڑا عالم کہا کہ سو(100)سال میں اتنا بڑا عالم پیدا ہوتا ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دس (10)شوال1272 سنِ ہجری کوہفتے کےدن ظہر کے وقت پیدا ہوئے۔آپ کا نام ”محمد“ ہے، دادا نے ”اَحمد رضا “کہہ کر پکارااوراسی نام سے مشہور ہوئے۔چار(4) سال کی عمر میں قرآنِ مجید مکمل پڑھ لیا۔ تیرہ (13)سال، چار(4) ماہ اور10 دن کی عمر میں دینی تعلیم مکمل ہوئی تو دینی کتابیں پڑھانا اور فتوی دینا(یعنی دینی مسائل لکھ کر دینا) شروع کر دے۔ آپ نے بہت کتابیں لکھیں، ترجمۂ قرآن کنزالایمان کے علاوہ کئی کتابیں اردو،عربی اور فارسی (زبانوں) میں لکھیں۔پچیس (25)صفرالمظفر 1340 سنِ ہجری 28 اکتوبر1921ء کو جمعۃ المبارک کے دن ،جمعہ کی اذان کے وقت تقریباً اڑسٹھ(68 ) سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
علم اورعلما ءکی شان:
حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہىں : رات میں عبادت کرنےوالے اوردن میں روزہ رکھنےوالے ہزار لوگوں کا مرنا اىک ایسے عالم کی موت کے برابر نہیں ہو سکتا کہ جو اللہ پاک کے حلال وحرام پر صبر کرتا ہے(یعنی دین پر عمل بھی کرتا ہو)۔ ( جامع بیان العلم وفضلہ، ص۴۲، حدیث : ۱۱۵)

حکایت(09): ’’ابھی 8 رَکعت تراویح باقی ہیں‘‘

نماز، روزہ وغیرہ کےہزاروں دینی مسائل کی کتاب بہارِ شریعت لکھنے والے مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ر مضان ُ المبارک کی ایک رات ، تروایح کی نماز پڑھ رہے تھے ابھی 12 رکعتیں ہی ہوئی تھیں کہ کسی نے آکر بڑے بیٹے کے وفات پانے کی خبر دی جسے سُن کر آپ کی زبان سے ”اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن“(ترجمہ: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف واپس جانے والے ہیں)کہااور فرمایا:ابھی آٹھ(8)رَکعت تراویح باقی ہیں ،پھر نَماز پڑھنا شروع کر دی۔ (صدرالشریعہ نمبر ،ص۱۳) اس حکایت سے پتا چلا کہہر حال میں صبر کرنا چاہیےکہ جس طرح مفتی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کے انتقال کی خبر پر کیا۔نمازوں سے بہت محبت ہونی چاہیے اور علمِ دین شوق کے ساتھ حاصل کر نا چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی پیدائش 1300ھ مطابق 1882ءمیں ہند((_country_))میں ہوئی۔آپ نے بہت شوق کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا، آپ کے استادِ محترم” حضرت مولانا وصی احمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ “فرماتے ہیں:مجھ کو ساری زندگی میں ایک ہی طالبِ علم ملا ہے جو محنتی ، سمجھ دار، علم سے شوق اور دلچسپی رکھنے والا ہے ۔ (صدر الشریعہ نمبر،ص ۷۴ملخصا ) صبح جلداُٹھ کر مسجدجانا،مؤذّن نہ ہو تو اذان دینا،نمازِ فجرادا کرنےکےبعد بلاناغہ روزانہ ایک پارہ تلاوت کرنا اور پڑھنا،اسی طرح جمعہ کی نمازکے بعد خاص طور پر درودِ رضویہ ضرور پڑھنا،آپ کے معمولات(routine) میں شامل تھا۔(صدرالشریعہ نمبر ،ص ۱۶۱،۱۶۲) 2ذیقعدۃُ الحرام1367ھ مطابِق6 ستمبر 1948ء کو آپ کا انتقال ہوا ۔ہند میں آپ کا مزار ہے ۔ (تذکرۂ صدر الشریعہ،ص۳۹ بتصرف) :
نوٹ، درودِ رضویہ یہ ہے
صَلَّی اللہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ اٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، صَلَاۃً وَّ سَلَامًا عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہ ط
علم اورعلما ءکی شان:
جب آدمى مرتا ہے اُس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تىن(3) چىزوں سے(اُسے فائدہ پہنچتا ہے) : (۱)کوئی جاری رہنے والاصدقہ چھوڑ گىا(مثلاً مسجد بنا دی)یا(۲) اىسا علم(چھوڑا کہ ) جس سے لوگوں کو فائدہ ہو یا(۳)نیک لڑکا(یعنی نیک اولاد)کہ اُس(مرنے والے) کے لیے دعا کرے۔ (مسلم، کتاب الوصیة، ص۸۸۶، حدیث : ۱۶۳۱) یعنى تىن (3)چىزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھى باقى رہتا ہے۔

حکایت(10): ’’بُری نیّت والوں نے توبہ کر لی‘‘

ایک مرتبہ کسی علاقے میں حضرت مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان تھا ،لوگوں کو پتا چلا توبہت سارے آدمی آپ کا بیان سُننے کے لیے آگئے۔جب بیان شروع ہوا تو کچھ شرارتی لوگ کہ جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان میں غلط باتیں کرتے تھے، اِس بُری نیّت کے ساتھ آگئے کہ ہم مفتی صاحب سےاُلٹے سیدھےسوال کرکےآپ کو پریشان کریں گےتاکہ سننے والے آپ کا بیان نہ سنیں۔ لیکن جب انہوں نے آخری نبی ، مکّی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنے والے مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بیان سنا تو سنتے ہی رہ گئے اور سمجھ گئے کہ ہم غلط سوچ رکھنے والے ہیں اور مفتی صاحب ہی اسلام کی سچی اور صحیح باتیں بتا رہے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت بڑا مقام دیا اوران کی شان میں کمی کرنا، اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بیان کےبعد اِعلان فرمایا : اگر کسی کو میری تقریر(speech) پر کوئی سوال ہے یا کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو تو پوچھ لے(اِن شَاءَ ا للّٰہ!)اس کوجواب دیاجائے گا۔ تو بُری نیّت سےآنے والوں کی یہ پوری جماعت کھڑی ہوگئی اور کہا: حضور ! کوئی سوال نہیں بس اتنی عرض ہے کہ ہم آپ کے بیان میں رکاوٹ ڈالنے آئے تھے،لیکن آپ کے بیان نے ہمارے دل کی آنکھیں کھول دی ہیں،اب آپ ہمیں توبہ کرائیں اور آج شام ہمارے مَحَلے میں بھی بیان فرمائیں ۔(تذکرہ صدرالافاضل ،ص۱۷) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے علمائے کرام اوربزرگانِ دین کا بیان سُن کر بُرے لوگوں کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت مفتی نَعِیْمُ الدِّیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ،1 جنوری 1883 پیرشریف،ہند((_country_)) میں پیدا ہوئے۔ آپ اعلی حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بہت محبّت رکھتے تھے ہر پیر اور جمعرات کو اعلیٰ حضرت کے پاس حاضرہوتے تھے۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آپ کو بہت اہمیت دیتے اورآپ کےمشورےبھی قبول فرماتے تھے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خلافت(پیری مریدی کی اجازت) دی ۔آپ نے بہت سی دینی کتابیں لکھیں اور قرآن پاک کی ایک تفسیر(کہ جس میں قرآنی آیتوں کا مطلب وغیرہ ہے بھی) لکھی۔(تذکرہ صدرالافاضل ،ص ۲تا ۹ملخصا)
علم اورعلما ءکی شان:
حضرت اسمعىل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ مىں نے امام محمدرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خواب مىں دىکھا اور پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھے اللہ پاک نے بخش دىا اور مجھ سے فرماىا : اگر مىں تجھ پر عذاب کرنا چاہتا (تو تجھے)علم (دین) نہ دیتا۔ (الدر المختار معه ردالمحتار، المقدمة، ۱/ ۱۲۵)

حکایت(11): ’’ ٹوٹے ہوئے ہاتھ سے کتاب لکھ دی‘‘

حضر تِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے۱۳۹۰ ھ میں حج کیا اور مدینے پاک میں حاضری کی سعادت پائی ۔ کہتے ہیں کہ :میں مدینہ پاک میں گر گیا اور سیدھے ہاتھ کی ہڈّی ٹوٹ گئی، درد بہت زیادہ ہوا تو میں نے اپنے ہاتھ کو چوم لیا اور کہا: اے مدینے کے درد، میرے دل میں بھی تیرے لیے جگہ ہے کہ تو مدینے پاک سے ملا ہے۔ دَرد اُسی وَقْت ختم ہو گیا مگر ہاتھ کام نہیں کر رہا تھا۔ سترہ(17 ) دن بعد ایکسرے(X-ray) کرایا تو ہڈّی کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور کچھ فاصلہ (gape) بھی تھا مگر میں نے علاج نہیں کرایا ،پھر آہِستہ آہِستہ ہاتھ کام بھی کرنے لگا، مدینہ پاک کے اَسْپتال کے ڈاکٹرمحمد اسمعٰیل نے کہا کہ یہ خاص کرم ہوا ہے کہ یہ ہاتھ ہمارے اندازے کے مطابق ہِل بھی نہیں سکتا۔(مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:کہ) وہ ایکسرے میرے پاس ہے، ہڈی اب تک ٹوٹی ہوئی ہے۔اللہ پاک کے کرم سے، مدینے پاک کی برکت سے، اس ٹوٹے ہوئےہاتھ سے قرآنِ پاک کی تفسیر(یعنی قرآن ِ پاک کی آیات کے معنی اور مطلب) لکھ رہا ہوں ۔ میں نے اپنے اس ٹوٹے ہوئے ہاتھ کا علاج صِرْف یہ کیا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیاکہ حضور !میرا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے، آپ تو(حضرت) عبدُاللہ بِن عَتِیْک (رَضِیَ اللہُ عَنْہ)کی ٹوٹی پنڈلی(shin)جوڑنے والے ہیں !اور آپ تو(حضرت) مُعَاذ بِن عَفْرَاء(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)کا ٹوٹا بازو(arms) جوڑ دینے والے ہیں، مجھ پر بھی کرم فرمائیں اور میرا ٹوٹا ہوا ہاتھ جوڑ دیں۔(تفسیرِ نعیمی ج ۹ ص ۳۸۸ مُلخصاً) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا ک ہہمارے علماء مدینے پاک سے بہت محبّت کرتے تھے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رحمت سے بہت اُمید (hope)رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے مدینے شریف کی چوٹ کا علاج تو نہ کیا مگر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ، اُن کی رحمت کا سوال کیا
تَعَارُف (Introduction):
حضرت علامہ مفتی احمد یارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ 1894ء میں یوپی ہند((_country_))میں پیدا ہوئے۔آپ نے اعلیٰ حضرت کےخلیفہ(جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے پیری مریدی کروانے کی اجازت دی) مفتی نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ سے بھی علمِ دین حاصل کیا اورآپ ہی سے مرید ہوئے۔آپ خود فرماتے تھے میرے پاس جو کچھ ہے سب حضرت مفتی نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ملاہے۔ مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نےقرآنِ پاک اور حدیث کے معنی ٰ سمجھانے والی کتابوں کے علاوہ اوربھی کئی کتابیں لکھیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس طرح کےعلمی کام کرنے کے ساتھ ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کے ایسے عادی تھے کہ چالیس(40) سال تک آپ کی تکبیر اولی (نماز کی پہلی تکبیر، امام کے ساتھ )فوت نہ ہوئی ۔( فیضان مفتی احمد یار خان،ملخصاً)
علم اورعلما ءکی شان:
عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار(1,000) رکعت نماز، ہزار(1,000) بىماروں کى عىادت اور ہزار(1,000) جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا :یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اور قرآن کی تلاوت سے (بھی افضل ہے) ؟ فرماىا : ( کیا) قرآن ِ پاک علم کے بغیرفائدہ دے گا؟(قوت القلوب، ۱/ ۲۵۷مُلتقتاً

حکایت(12): ’’ بے ادب خاموش ہو گیا‘‘

جب مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مدرسے، منظرُ الاسلام میں پڑھایا کرتے تھے،اُس وقت کسی نے آپ کےپاس آکر بتایا کہ یہاں سے قریب ایک گاؤں میں ایک بے ادب شخص ہے کہ جو مسجد میں بیٹھ کر بال کٹواتا ہے، لوگ سمجھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ مسجد میں ایسا کر سکتے ہیں، کوئی بھی عالم آ کر مجھ سے بات کرلے۔ مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُس شخص کے پاس چلے گئے اوراُس سے فرمایا :تم مسجد میں بیٹھ کر بال کیوں کٹواتے ہو؟اُس نے کہا کہ اگر یہ کوئی غلط کام ہےتو آپ قرآن وحدیث سے بتائیں ۔مفتی صاحب نےفرمایا: کہ ہمارے پیارے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےفرمایا:کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا ،نیکیوں کو اس طرح برباد کردیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلادیتی ہے۔ (اتحاف السادة المتقین،الباب الاول،۳/۵۰)اورمسجد میں بال کٹوانا مسجد میں گندگی کرنا ہے۔وہ آدمی کہنے لگا :حدیث میں مسجد میں باتیں کرنے سے منع کیا گیاہے بال کٹوانے سے منع نہیں کیا گیا ۔اس پرمفتی صاحب نے فرمایا:قرآن مجید میں اللہ پاک نے والدین کے ادب کے بارے فرمایا: اپنے والدین کو اُف تک نہ کہو (پ۲۶،الاحقاف، الایۃ۱۷)۔یعنی انہیں بالکل تکلیف نہ دو۔اب کوئی شخص اپنے والدین کو مارنا شروع کردےاور کہے کہ قرآنِ پاک میں والدین کے سامنے اُف کہنے سے منع کیا گیا ہے، مارنے سےمنع نہیں کیا گیا ۔تو والدین کو مارنے والاشخص غلط کر رہاہے یا صحیح کر رہا ہے؟ اس نے کہا”غلط “ کر رہا ہے۔مفتی صاحب نےفرمایا :جس طرح والدین کو مارنے والابلکہ انہیں کسی بھی طرح تکلیف دینے والا گناہگار اورغلط کام کرنے والاہے حالانکہ قرآن ِ پاک میں صرف” اُف “کہنے سے منع کیا گیا اسی طرح مسجد میں گندگی پھیلانے والابھی ،ایسے کام کرنے والا ہے کہ جن سے منع کیاگیا ہے ۔یہ سُن کروہ آدمی خاموش ہوگیا اور لوگوں نےمفتی وقار الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا شکریہ ادا کیا ۔(وقار الفتاویٰ،۱/۷بالتصرف) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ کچھ لوگ قرآنِ پاک اورمسجد کا ادب نہیں کرتے ایسے لوگوں کو نرمی سے سمجھانا چاہیے اوراگر یہ لوگ بے ادبی سے نہ رُکیں تو ان سے دور رہنا چاہیے ۔
تَعَارُف (Introduction):
مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سن 1915 میں ہند((_country_))میں پیدا ہوئے۔صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی آپ کےاستاد تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ حصّہ علم ِ دین سیکھنے اورسکھانےمیں گزارا ۔ہند،بنگلہ دیش پھرپاکستان میں علمِ دین پڑھانے کا سلسلہ رہا۔دارالعلوم امجدیہ(کراچی) کے دار الافتاءمیں آپ شرعی مسائل کے فتاویٰ (جوابات)بھی دیتے رہے۔امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہتقریبا 22سال تک ا ٓپ کے پاس شرعی مسائل وغیرہ کے سلسلے میں جاتے رہے۔مفتی اعظم پاکستان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےامیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو اپنی خلافت بھی دی (یعنی آپ کو اجازت دی کہ اب آپ دوسروں کو مرید کر سکتے ہیں)۔1993میں نماز فجر کےلیے اٹھے وضو کے دوران ہی آپ کو دل کا اٹیک(heart attack) ہوا جس کے بعد آپ انتقال فرماگئے۔
علم اورعلما ءکی شان:
حضرت اسماعىل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتے ہیں کہ مىں نے امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خواب مىں دىکھااوران کا حال پوچھا۔ (انہوں نے) کہا : اللہ پاک نے مجھے بخش دىا اور مجھ سے فرماىا : اگر مىں تجھ پر عذاب کرنا چاہتا (تو تجھے)علم (دین) نہ دیتا۔ (الدر المختار معه ردالمحتار، ۱/ ۱۲۵)