’’ فرشتے، جنّ،موت،جنّت اور جہنّم(12حکایات)‘‘

حکایت(01): ’’فرشتے فقیروں کے ہاتھوں پرپانی ڈال رہے تھے‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ چند نیک مسلمان رہا کرتے اور سب اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ان بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ(burst) گیااور حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھ دیگر فرشتے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہوئے ۔فرشتوں کے ہاتھوں میں تھال (tray)اورجگ ( jug) تھے،میں جن نیک لوگوں کے ساتھ رہتا تھا اُن کے ساتھ وہاں موجود تھا۔اب فرشتوں نے ان نیک لوگوں کے ہاتھوں اور پاؤں پر پانی ڈالنا شروع کیا، جب وہ میرے قریب آئے تومیں نے بھی اپنا ہاتھ آگے کیا تاکہ وہ مجھ پر بھی پانی ڈالیں تو انہوں نے میرے ہاتھ پر بھی پانی ڈالا۔ (حکایتیں اور نصیحتیں ص۱۷۵،مُلخصاً) اس حکایت سے پتا چلا کہاللہ پاک نے فرشتوں کو مختلف کام (different work)کرنے کی ذمہ داریاں(responsibilities) دی ہیں۔ یہ و ہی کرتے ہیں جو اللہ پاک نے انہیں حکم دیا ہے ، اللہ پاک کے حکم کے خلاف (against)کچھ نہیں کرتے

حکایت(02): ’’ہاروت عَلَیْہِ السَّلَام ا ورماروت عَلَیْہِ السَّلَام کا صحیح واقعہ‘‘

اللہ پاک نے مخلوق (creatures) کے امتحان کے لئے دو (2)فرشتوں یعنی ہاروت عَلَیْہِ السَّلَام اور ماروت عَلَیْہِ السَّلَام کو دنیا میں بھیجا۔ان دونوں کو جادو کا علم بھی دیا( کسی چیز کے ذریعے کوئی ایسا کام کرنا جو عام طور پر نہ کیا جا سکتا ہو، اُسے جادو کہتے ہیں۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس، الفصل الاول فی النبوۃ، ۵ / ۷۹ مُلخصاً) مثلاً کوئی کچھ جملے پڑھے اور پانی پر چلنے لگ جائے ۔ یاد رہے! جادو کرنا کبھی کفر بھی ہوتا ہے جبکہ اس میں کفریہ الفاظ ہوں(صراط الجنان ج۱، ص۱۷۶) ۔ اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : وہ (جادو) جو بابِل شہر میں دو (2) فرشتوں ہاروت و ماروت(عَلَیْہِمَاالسَّلَام) پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع (یعنی برباد)نہ کرو۔وہ لوگ ان فرشتوں سے ایسا جادوسیکھتے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال (یعنی الگ کر)دیں حالانکہ(although) وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے اور یہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان دے اور انہیں نفع نہ دے اور یقیناً انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا ہے آخرت میں اس کا کچھ حصّہ نہیں اور انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا براسودا کیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ جانتے۔ (پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) ہر چیز میں اللہ پاک ہی اثر(effect) رکھنے والا ہے۔یعنی اللہ پاک چاہے تو ہی کوئی چیز نتیجہ(result) دے،اگر اللہ پاک نہ چاہے تو آگ جلا نہ سکے، پانی پیاس(thirst) نہ بجھاسکے اوردوا شِفا نہ دے سکے۔(صراط الجنان ج۱،ص۱۷۹مُلخصاً) فرشتوں کا جادو لے کر آنا، اس لیے تھا تاکہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ جادو میں اثر (effect)بھی اللہ پاک ہی کی طرف سے ہے۔ فرشتے یہ بھی کہتے تھے کہ: ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔(پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) اب جو ان کی بات نہ مانے وہ نافرمان(disobedient) ہے اور اپنے پاؤں پہ چل کے خودجہنّم میں جانے والا ہے۔(الشفاءص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی مُلخصاً) کچھ وقت گزرنے کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی حکومت آئی، تو اس وقت بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں لگے ہوئے تھےتو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن(buried) کردیں۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات کے بعد شیطانوں نے وہ کتابیں نکال کر لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام اسی جادو سے اتنی بڑی حکومت کرتے تھے۔جادو کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے ”نبی “ہونے کا اعلان فرمادیا۔پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ اللہ پاک نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ذریعے لوگوں کو بتا دیا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام جادو گر نہ تھے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۳ مُلخصاً) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اور یہ سلیمان کے عہدِ حکومت میں اس جادو کے پیچھے پڑگئے جو شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے کفر نہ کیابلکہ شیطان کافر ہوئے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔(پ ۱، سورۃ البقرۃ، آیت۲ ۱۰) (ترجمہ کنز العرفان) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ شیطان بہت سی غلط باتیں مشہور کر دیتا ہے، ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین (believe)نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی دینی بات ہو تو کسی اچھے سُنی عالم صاحب سے اس بارے میں ضرور، ضرور اور ضرور معلوم کریں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے فرشتے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، یہ گناہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں:ہارُوت ومارُوت عَلَیْہِمَاالسَّلَام کا واقعہ جس طرح عوام بتاتی ہے کہ مَعَاذَاللہ!(یعنی اللہ پاک کی پناہ) یہ قید میں ہیں،انہوں نے غلطیاں یا گناہ کیے ہیں، علماء کرام نے ان باتوں کا سخت انکار (denial) کیا ہے بلکہ کچھ علماء تو کہتے ہیں کہ یہ باتیں یہودیوں نے اپنی طرف سےبڑھا دی ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اللہ پاک کے حکم سے جادو سیکھایا تو گناہ کیسے ہو گیا؟(فتاوی رضویہ ،ج۲۶،ص۳۹۶،ماخوذاً)

حکایت(03): ’’ شب ِ قدر اور فرشتوں کے جھنڈے‘‘

جب شب ِ قدر( ) آتی ہے تو سِد رۃُالمنتہیٰ( یہ ساتویں آسمان پر ہے۔ جو چیزیں زمین سے اوپر اٹھائی جاتی ہیں یہاں تک ہی پہنچتی ہیں پھر یہاں سے لے لی جاتی ہیں اور جو چیزیں اوپر سے نیچے کے لیےاتاری جاتی ہیں، وہ بھی یہاں تک ہی پہنچائی جاتی ہیں پھر یہاں سے نیچے جاتی ہیں(حلیۃ ُ الاولیاء جلد۵،ص۳۴ مُلخصاً)) میں رہنے والے فر شتے اپنے ساتھ چار(4)جھنڈ ے لے کر اُترتے ہیں۔حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامبھی ان کے سا تھ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک(1) جھنڈا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مزار کی جگہ پر، دوسرا (2nd )جھنڈا طو رِ سینا پر(یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامسے کلام فرمایا تھا)، تیسرا (3rd )جھنڈامسجد ِ حرام(مکّہ شریف کی وہ مسجد جہاں کعبۃ ُ اللہ شریف بھی ہے) پر اور چوتھا (4th )جھنڈا بیتُ المقدَّس (مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘کہ جس طرف منہ کر کہ پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گی)پر لگاتے ہیں ،پھر وہ مسلمانوں کے گھر میں جاکر انہیں سلام کرتے ہوئے کہتے ہیں : اے مؤ من مرد اور اے مؤمن عورت ! اللہ پاک تمہیں سلام بھیجتاہے۔ (تفسیرقرطبی،سورۃالقدر،تحت الآیۃ۵،الجزء العشرون،ص۹۷ ماخوذاً) اور جب فجر کا وقت شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامزمین وآسمان کے درمیان اونچائی پر(یعنی بیچ میں) چلے جاتے ہیں اور اپنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں پھر جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں کو ایک(1) ایک کرکے بلاتے ہیں اور فرشتوں کا نور اور حضرت جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام کے پروں کا نور جمع (gathered)ہو جاتا ہے اوراس وجہ سے سورج بغیر شعاعوں (rays) کے نکلتاہے۔ پس جبرائیلِ امین اور دیگر فرشتے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے لئے زمین وآسماں کے درمیان رُک جاتے ہیں۔ جب شا م ہو تی ہے تو آسما ن پر چلے جاتے ہیں توآسما ن کے فر شتے اُن سے پوچھتے ہیں: تم سب کہا ں سے آرہے ہو؟ تو یہ کہتے ہیں: ہم حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی اُمّت (nation) کے پاس سے آرہے ہیں۔ آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں: اللہ پاک نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی اُمّت کے نیک لوگوں کوبخش(یعنی معاف کر) دیاگیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکوں کی سفارش (recommendation)قبو ل(accept) کر لی گئی ۔ تو وہ فرشتے صبح تک اس نعمت کے شکر میں اللہ پاک کی تسبیح ، حمد اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں ۔ پھر کُرسی( ) جھومنے لگتی ہے تو عر ش پوچھتا ہے: اے کرسی تمھیں کیا ہوا؟ تو کرسی کہتی ہے: مجھے جنّتِ عد ن(وہ جنّت کہ جس میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا(مسلم، کتاب الایمان، ص۱۱۰، حدیث:۱۸۰ ،ماخوذاً)) نے جنّتِ نعیم (جس جنت میں اللہ پاک کے سامنے قیامت میں کھڑے ہونے کے ڈر سے گناہوں کو چھوڑنے والا جائے گا (تفسیر خزائن العرفان ،پارہ۲۷ ،سورۃ الرحمٰن، آیت ۴۶ ، ماخوذاً)) سے سن کر ، اس نے جنّت ُ الما ویٰ(آٹھ جنّتوں میں سے ایک جنّت) سے سن کر، اس نے سِدْرۃُ المنتہیٰ سے سن کر، اس نے اپنے رہنے والو ں سے سن کر، انہو ں نےحضرتِ جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَامسے سن کر خبر دی کہ اللہ پاک نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی اُمّت کو معاف فرمادیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکو ں کی شفاعت(یعنی سفارش) قبو ل فر ما لی ہے۔یہ سن کر عرش بھی خو شی سے جھومنے لگتاہے تو اللہ پاک پوچھتا ہے: کیا ہوا؟حا لا نکہ اللہ پاک تو سب کچھ جا نتا ہے۔ عرش کہتا ہے :یا ربّ ! مجھے کر سی نے حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے حو ا لے سے خبر دی کہ تونے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی اُمّت (nation) کو معاف کر دیا اوربُر و ں کے حق میں نیکوں کی سفارش(recommendation) قبول (accept) فرما لی ہے ۔ تو اللہ پاک فرما تا ہے جبرائیل(عَلَیْہِ السَّلَام) نے سچ کہا ،سد ر ۃُ المنتہیٰ نے سچ کہا، جنّتُ الما ویٰ نے سچ کہا ، جنّتِ نعیم نے سچ کہا ، جنّتِ عدن نے سچ کہا، کرسی نے سچ کہااوراے عرش! تو نے بھی سچ کہا ۔میں نے اپنے محبوب(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی اُمّت کے لئے وہ اجر و ثواب تیا ر کیا ہے جونہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کا ن نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ (حکایتیں اور نصیحتیں ص۱۰۶ تا ۱۰۷ماخوذاً) حدیث شریف میں موجود ہر سال ہونے والے ان سچے حالات (conditions)سے پتا چلا کہ شبِ قدر کی بہت اہمیّت (importance) ہے۔ ہمیں یہ رات عبادت میں گزارنی چاہیے اور ساتھ ساتھ یہ پتا چلا کہ اللہ پاک کی دیگر مخلوقات (creatures) مثلاً عرش و کرسی بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری اُمّت (nation) سے محبّت کرتی ہیں۔

حکایت(04): ’’جنّات کو اسلام کی دعوت‘‘

نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللہ پاک کی طرف سےحکم دیاگیاکہ وہ جنّات کو آخرت کے عذاب (punishment) سے ڈرائیں اورانہیں اللہ پاک کے دین کی دعوت دیں اوران کوقرآنِ مجیدپڑھ کر سنائیں۔ اللہ پاک نےجنّات کےگروہ (group)کوایک جگہ جمع کردیا۔نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم حضرت عبدُاللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ جنّات کے پاس تشریف لے گئے ۔حضرت عبدُ اللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ:میرے علاوہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےساتھ کوئی دوسرا نہ تھا۔ہم چلتے رہے یہاں تک کہ مکّے پاک کے ایک محلے(an area)’’شِعبُ الحَجُوْن‘‘میں داخل ہوئے۔ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے میرےلئے ایک دائرہ (circle)کھینچا اورمجھےاس میں بیٹھنے کاکہا اورفرمایا:میرے واپس آنے تک یہاں سے باہرنہ نکلنا۔پھرآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وہاں سےتشریف لے گئےاورکھڑے ہوکرتلاوتِ قرآن کرنے لگے۔میں نے گدھ (vultures) کی طرح اُڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی آواز سنی اورمیں نےشدیدشوربھی سنا۔ پھربہت سی کالی چیزیں میرے اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے درمیان آگئیں یہاں تک کہ مجھے آپ کی آوازمبارک نہیں آ رہی تھی پھروہ سب کالی چیزیں غائب ہوگئیں، اب فجرکا وقت ہو چکا تھا۔آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میرے پاس تشریف لائے ۔میں نےعرض کی : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !میں نے سناکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جنّات کو عصامبارَکہ(لاٹھی شریف) سے مارتے ہوئے فرمارہے تھے : بیٹھ جاؤ۔ آپ نے فرمایا : کیاتم نے کچھ دیکھا؟میں نےعرض کی : جی ہاں !میں نے کالے رنگ کے کچھ آدمی دیکھے جن پرسفید کپڑے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا : وہ نَصیبین(ایک جگہ) کےجنّات تھے۔میں نےعرض کی : میں نے بہت شور بھی سناتھا۔ فرمایا : وہ اپنے درمیان ایک قتل (murder)ہونے والے کے فیصلے میں جلدی کررہے تھے انہوں نے مجھ سے فیصلے کے لئے کہاتومیں نے ان کے درمیان حق اور سچا فیصلہ کردیا۔ (الجامع القرآن،سورۃ الاحقاف ،۸/۱۵۳،تحت الآیۃ:۲۹ملخصا) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ جنّات کے لیےبھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان (believe)لانا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جنّات میں بھی دینِ اسلام کی تبلیغ کی اور انہیں بھی قرآنِ پاک کی تعلیم دی۔تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنّات بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےحکم کو پورا کرتے تھے اورآپس کےجھگڑوں میں ان کےدرمیان نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے فیصلہ کرواتے تھے۔چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ ویران جگہوں(deserted places) میں جنّات کی آبادیاں ہوتی ہیں ایسی جگہوں پرخصوصًا رات کے وقت نہیں جانا چاہیے ۔

حکایت(05): ’’وہاں جنّات رہتے تھے ‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے مکۂ مکرمہ میں ایک ایسے شخص کوطواف کرتے ہوئے دیکھا کہ جو پہلے غیرمسلم تھا اور اب مسلمان ہو چکا تھا، میں نے پوچھا:تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑا؟اس نے کہا: میں اُس دین سے بہتر دین میں آگیا(اور یہ دین ہی سب سے بہتر ہے)۔میں نےپوچھا: یہ سب کیسے ہوا؟تواس نے اپنا واقعہ یوں بیان کیا:میں سمندر(sea) میں ایک کشتی پر سوار تھا،تھوڑی دور پہنچنے کےبعد کشتی ٹوٹ گئی۔ میں اس کے ایک تختے پر لٹک گیا،سمندر کی لہریں مجھےاِدھر اُدھر لے جاتی رہیں یہاں تک کہ لہروں نے مجھے ایک جزیرے (island)میں ڈال دیا،اس میں بہت درخت تھےاوران میں لگےپھل شہد سے زیادہ میٹھےاور مکھن سے زیادہ نرم تھے۔ایک صاف اورخوبصورت نہر (canal) تھی۔ میں نے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور کہا: جب تک کوئی راستہ نہیں ملتا میں یہ پھل کھاؤں گا اور نہر سے پانی پیؤ ں گا۔جب رات ہوئی تو میں جانوروں کے خوف سے درخت پر چڑھ کرایک ٹہنی پر سو گیا، رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد میں نے پانی پر ایک جانور کوبہت اچھے انداز میں اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہوئے دیکھا،صبح کے وقت اس نے پھر اللہ پاک کی تسبیح کی۔جب وہ جانور خشکی پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کا سر شتر مرغ (ostrich)جیسا،چہرہ انسان جیسا، ٹانگیں اونٹ کی ٹانگوں کی طرح اورمچھلی کےجیسی دُم ہے،میں اس سے بہت زیادہ ڈر گیا اورموت کےخوف سے بھاگنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھےدیکھ کر کہا:تم اس وقت جنات کے جزیرے میں ہو ! رُک جاؤ،ورنہ مرجاؤگے۔پھر اس نےمجھ سے میرے دین کےبارے میں پوچھاتو میں نے جواب دیا:’’میں غیر مسلم ہوں‘‘اس نے کہا:اے نقصان اٹھانے والے! اسلام قبول (accept) کرلے ۔میں نے پوچھا:اسلام کیسے لاؤں؟اس نے کہا :اس بات کی گواہی دے کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں۔ چنانچہ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ پھراس جانور نے مجھ سے پوچھا:تم یہاں ٹھہرنا چاہتے ہو یا اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتے ہو؟میں نے کہا: اپنے گھر والوں کےپاس جانا چاہتا ہوں۔اس نے کہا:تو پھر یہاں کھڑے رہو، ایک کشتی یہاں سے گزر ے گی۔ میں وہاں کھڑا رہا۔ وہ جانورسمندر میں اترکر میری آنکھوں سےگم ہو گیا پھرایک کشتی گزری جس میں چند لوگ سوار تھے۔ میرے اشارہ کرنے پر انہوں نے مجھے بھی کشتی میں بٹھالیا۔اس میں بارہ(12) غیرمسلم تھے۔ جب میں نے ان کو اپنا واقعہ بتایا تو سب کے سب مسلمان ہو گئے۔(حکایتیں اورنصیحتیں ،ص۶۰۷) اس حکایت سےہمیں یہ معلوم ہوا کہ انسانوں کےعلاوہ جنات بھی ہمارے پیارےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جانتے ہیں اوروہ بھی اللہ پاک اوررسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان (believe)رکھتے ہیں ،انہیں بھی آخری نبی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھے کائنات کی تمام مخلوق(creatures) کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔(صحیح مسلم ،ص۲۱۱،حدیث:۱۱۶۸)دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنات بھی اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہیں۔

حکایت(06): ’’حضرت ابو جابرعبداللہ شہید رَضِیَ اللہُ عَنْہ‘‘

حضرت جابر بن عبداللہ ررَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ( یعنی میرے والد) غزوہ اُحُد کے دن شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder) ہوگئے تو اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : اے جابر ! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ پاک نے تمہارے والد سے کیا فرمایا ہے ؟میں نے عرض کی:ضروربتائیے۔ فرمایا: اے عبد اللہ ! مجھ سے مانگ میں تجھے عطافرماؤں گا۔ تو تمہارے والد نے عرض کیا: یا ربّ !مجھے دوبارہ زندگی عطا فرما تاکہ میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید ہوجاؤں۔ تو اللہ پاک نے فرمایا کہ میرا یہ فیصلہ ہے، ترجمہ (Translation) :(تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ)تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ ( پ ۲۰،سورۃ القصص، آیت:۳۹) (ترجمہ کنز العرفان) پھر تمہارے والد نے عرض کیا :مجھ سے پیچھے رہ جانے والوں تک یہ بات پہنچادے۔ تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی، ترجمہ (Translation) : اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(پ ۴ ، آل عمران: ۱۶۹) (ترجمہ کنز العرفان) (ابن ماجہ ،کتاب الجہاد، رقم ۲۸۰۰، ج۳ ،ص ۳۶۱) اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کو اللہ پاک سے بہت محبّت تھی جبھی تو حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اللہ پاک کی راہ میں دوبارہ شہید ہونے کی خواہش(desire) کی۔
تَعَارُف (Introduction):
حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری اورمشہور صحابی حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے والد ہیں ۔ (اسد الغابۃ، عبداللہ بن عمرو بن حرام، ج۳، ص۳۵۳) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے جسم مبارک کو کسی وجہ سے دو مرتبہ قبر مبارک سے نکالنا پڑا ۔ پہلی مرتبہ چھ(6) مہینےکے بعد نکالا گیا، تو وہ اسی حالت (condition) میں تھے جس حالت میں دفن (buried)کیا گیا تھا۔(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،حدیث ۱۳۵۱،ج۱،ص ۴۵۴ )حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ چھیالیس(46) سال کے بعد اپنے والد ماجد ( یعنی حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) کی قبر کو کسی وجہ سےکھود کر ان کے برکت والے جسم کو نکالا ، تو میں نے ان کو اسی حالت (condition)میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ ہٹایا گیا، تو زخم سے خون نکلنے لگا۔ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا۔ اور ان کا کفن جو( کپڑوں کی کمی کی وجہ سے صرف) ایک چادر کا تھا ،وہ بالکل صحیح تھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین ،ص۶۱۵،مطبوعہ برکاتِ رضاہند)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ میں موجود ہے کہ حضرت عبد اللہرَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے رات میں اپنے بیٹے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُکو بلا کر فرمایا: میرے پیارے بیٹے!کل صبح جنگ اُحُد میں سب سے پہلے میں ہی شہید ہونگا اوربیٹا سن لو! اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد تم سے زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں ہے لہٰذا تم میرا قرض(loan) ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُکہتے ہیں کہ واقعی صبح کو میدان جنگ میں سب سے پہلے میرے والد صاحب ہی شہید ہوئے ۔(بخاری، ج۱،ص۱۸۰،اسدالغابہ، ج۳،ص۲۳۲) معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی عطا اور رسولِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کل کی باتیں بھی بتا دیتے ہیں۔

حکایت(07): ’’ صحابی کے دشمن کی موت ‘‘

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میرے ایک مزدور نے مجھے خبر دی کہ فلاں مسافر خانے (جہاں مسافر لوگ آتے جاتے رہتے ہیں)میں ایک شخص مرگیا ہے اور وہاں اس کا کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ مجھے اس پر رحم آیا، میں وہاں پہنچا، مجھے کسی نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی تھا لیکن آج اس کے لیے کفن بھی نہیں ہے۔ میں اس کے غسل کے لیے سب چیزیں لے آیا اور اس کے غسل کی تیاری شروع کردی۔ وہ مردہ اُٹھ گیا اورچیخنے لگا(Start screaming):ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! اس کے ساتھی ڈر کر بھاگ گئے۔ میں اس کے قریب گیااور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ پھر اس سے پوچھا: تُو کون ہے اور تیرے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: میں ایسے برے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا کہ جو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بُرا بھلا کہتے تھے ۔ان لوگوں کی وجہ سے میں بھی ایسا ہی کرنے لگا ۔ وہی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں کہ: میں نے اس کی یہ بات سن کر اَسْتَغْفِرُاللہ!پڑھا اور کہا:'' اے بد نصیب (unlucky)!پھر تو تجھے سخت سزا(punishment) ملنی چا ہے اور تُومرنے کے بعد زندہ کیسے ہوگیا ؟ تو اُس نے جواب دیا: میرے نیک اعمال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُم سے دشمنی کی وجہ سے مجھے مرنے کے بعد گھسیٹ(drag) کر جہنّم کی طرف لے جایاگیا اور وہاں مجھے میری جگہ دکھائی گئی، جہاں بہت بڑی آگ تھی پھر مجھ سے کہا گیا : تو دوبارہ زندہ ہوگا تاکہ تُو اپنے برے ساتھیوں کو یہ سب بتا سکے اور انہیں بتانا کہ جو کوئی اللہ پاک کے نیک بندوں سے دشمنی رکھتا ہے اس کا آخرت میں بہت برا انجام(result) ہوتا ہے ، جب تُو ان کو اپنے بارے میں بتا دے گا توپھر دوبارہ تجھے جہنّم میں تیری جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔اِتناکہنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مر گیا۔ پھر میں اُسے اسی طرح چھوڑ کر چلا گیااور اس کے بُرےعقیدے (beliefs) والے ساتھیوں نے ہی اسے غسل و کفن دیا۔(عُیُون الحکایات ،ح ۱،ص۲۴۶ تا ۲۴۸ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے یہ سیکھنے کوملا کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے دشمنی دنیا اور آخرت کی بربادی والا کام ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: صحابہ کے معاملہ میں مجھے تکلیف نہ پہنچانا کیونکہ قیامت کی علامات (یعنی نشانیوں )میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس اُمّت کے بعد والے پہلوں(یعنی پہلے انتقال کرنے والوں) پر لعنت کریں گے۔(سیراعلام النبلاء، اویس القرنی، ج۵، ص۷۸)

حکایت(08): ’’ کئی سو سال بعد بھی دونوں صحابیوں رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکے جسم صحیح تھے ‘‘

حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَاکی وفات کا وقت جب قریب آیا تو رونے لگے۔کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا:اس لئے نہیں رو رہا کہ دنیا چھوٹ رہی ہے کیونکہ موت تومجھے پیاری ہے( بلکہ رونے کی وجہ یہ ہے کہ )میں نہیں جانتا کہ مجھے آگے کیا پیش ہو گا؟یعنی اللہ پاک مجھ سے راضی ہوگا یا ناراض؟( ابن عسا کر ج۱۲ص۲۹۶) انتقال کے کئی سو سال بعد غالباً 20ذوالحجۃالحرام 1351ہجری کو کسی وجہ سے ،مفتی اعظم عراق کے فتویٰ کے بعد حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُاور حضرت جابررَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکے مبارک جسموں کو دوسری جگہ دفن (buried) کرنے کے لیے نکالا گیا تو دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں عاشقانِ صحابہ و اہل بیت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اللہ پاک کے پیارے رسول کےدونوں پیارے پیارے صحابیوں کے برکت والے جسم اور مُبارک کفن صحیح اور سلامت ہیں ،یہاں تک کہ داڑھی شریف کے پیارے پیارےبال بھی بالکل صحیح تھے۔مُبارک جسموں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ شاید ان کی وفات کو دو تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوا۔ (قبر کھل گئی ص ۱۴تا ۱۵ ماخوذاً) اس سچے واقعے سے سمجھ میں آیا کہ نیک بندوں کو بھی اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور ساتھ ساتھ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا مقام بھی پتا چلا کہ انتقال کو ہزار سال سے زیادہ ہوگئے مگر جسم بالکل صحیح و سلامت رہا۔
حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کاتَعَارُف (Introduction):
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکی کنیت(kunyah) ابوعبداللّٰہ جبکہ لقب ”صاحبُ سرِّ رسولِ اللہ“ہے یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےبتائے ہوئے کچھ راز(secret) جاننے والے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمنافقین اور ان کی علامات (symptoms)کو جانتے تھے جیسا کہ ایک مرتبہ غیب کی خبریں بتانے والے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکو اپنے قریب بلایا اور ایک ایک منافق کا نام بتایا۔ (معجم کبیر،ج۳،ص۱۶۴، حدیث:۳۰۱۰)
جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان:
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکو مدائن شہر کا گورن(governor)ر بنا دیا۔اتنے سادہ تھے کہ جب آپ مدائن میں آئے تو لوگ پہچان نہ سکے کہ آپ گورنر ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،ج ۱۲،ص۲۸۶،ماخوذاً) کچھ وقت کے بعد جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکو آپ کی واپسی کا پتا چلا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمدینے آنے والے راستے پر آگئےتاکہ دیکھیں کہ آپ کی پہلے والی حالت (condition) اور اب کی صورتِ حال میں کیا فرق ہے؟ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکوپہلی حالت پر دیکھا (یعنی آپ خالی ہاتھ ہی تھے )تو (خوش ہوکر )آپ کو گلے سے لگالیا اور فرمایا: تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں۔(الزہد لاحمد،ص۲۰۰)

حکایت(09): ’’درود و سلام کی برکتوں والی کتاب: دلائل الخیرات ‘‘

ں مسافر خانے (جہاں مسافر لوگ آتے جاتے رہتے ہیں)میں ایک شخص مرگیا ہے اور وہاں اس کا کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ مجھے اس پر رحم آیا، میں وہاں پہنچا، مجھے کسی نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی تھا لیکن آج اس کے لیے کفن بھی نہیں ہے۔ میں اس کے غسل کے لیے سب چیزیں لے آیا اور اس کے غسل کی تیاری شروع کردی۔ وہ مردہ اُٹھ گیا اورچیخنے لگا(Start screaming):ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! ہائے آگ، ہائے ہلاکت، ہائے بربادی! اس کے ساتھی ڈر کر بھاگ گئے۔ میں اس کے قریب گیااور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ پھر اس سے پوچھا: تُو کون ہے اور تیرے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: میں ایسے برے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا کہ جو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بُرا بھلا کہتے تھے ۔ان لوگوں کی وجہ سے میں بھی ایسا ہی کرنے لگا ۔ وہی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدفرماتے ہیں کہ: میں نے اس کی یہ بات سن کر اَسْتَغْفِرُاللہ!پڑھا اور کہا:'' اے بد نصیب (unlucky)!پھر تو تجھے سخت سزا(punishment) ملنی چا ہے اور تُومرنے کے بعد زندہ کیسے ہوگیا ؟ تو اُس نے جواب دیا: میرے نیک اعمال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُم سے دشمنی کی وجہ سے مجھے مرنے کے بعد گھسیٹ(drag) کر جہنّم کی طرف لے جایاگیا اور وہاں مجھے میری جگہ دکھائی گئی، جہاں بہت بڑی آگ تھی پھر مجھ سے کہا گیا : تو دوبارہ زندہ ہوگا تاکہ تُو اپنے برے ساتھیوں کو یہ سب بتا سکے اور انہیں بتانا کہ جو کوئی اللہ پاک کے نیک بندوں سے دشمنی رکھتا ہے اس کا آخرت میں بہت برا انجام(result) ہوتا ہے ، جب تُو ان کو اپنے بارے میں بتا دے گا توپھر دوبارہ تجھے جہنّم میں تیری جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔اِتناکہنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مر گیا۔ پھر میں اُسے اسی طرح چھوڑ کر چلا گیااور اس کے بُرےعقیدے (beliefs) والے ساتھیوں نے ہی اسے غسل و کفن دیا۔(عُیُون الحکایات ،ح ۱،ص۲۴۶ تا ۲۴۸ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے یہ سیکھنے کوملا کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے دشمنی دنیا اور آخرت کی بربادی والا کام ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: صحابہ کے معاملہ میں مجھے تکلیف نہ پہنچانا کیونکہ قیامت کی علامات (یعنی نشانیوں )میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس اُمّت کے بعد والے پہلوں(یعنی پہلے انتقال کرنے والوں) پر لعنت ک
تَعَارُف (Introduction):
دلائل الخیرات شریف لکھنے والےحضرت شیخ محمد بن سلیمان جَزُولی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو کسی نے حسد (jealousy) کی وجہ سے زہر کھلا دیا اور آپ نمازِ فجرکے سجدے میں انتقال فرماگئے۔ کسی وجہ سے ستتر (77) سال کے بعد لوگ آپ کے مبارک جسم کو مزار شریف سے نکال کر '' مراکش'' لے آئے، آپ کا کفن سلامت اور بدن بالکل زندوں کی طرح تازہ اور نرم تھا۔ زندہ انسان کے جسم پر انگلی رکھ کر کسی جگہ کو دبایا جائے تو خون وہاں سے ہٹ جاتا ہے اور وہ جگہ سفید ہو جاتی ہے پھر جب انگلی ہٹائی جائے تو خون اس جگہ واپس آ جاتا ہے اور وہ سفیدی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ زندہ انسان کا خون چل رہا ہوتا ہے۔کسی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے چہرے پر انگلی رکھی تو خون ہٹ گیا اور وہ جگہ سفید ہو گئی اور جب ہٹائی تو پہلے کی طرح ہو گیا جس طرح زندہ انسان کا ہوتا ہے۔ انتقال سے پہلے آپ نے داڑھی کا خط بنوایا تھا(یعنی داڑھی کے علاوہ جو چہرے کے بال تھے وہ صاف کروائے تھے)، اس وقت بھی چہرہ اسی طرح تھا جیسے ابھی خط بنوایا ہو۔ آپ سلسلۂ عالیہ شاذلیہ کے پیر صاحب تھے اور آپ کے چھ لاکھ ، بارہ ہزار پینسٹھ (Six lakh, twelve thousand sixty five)مریدین تھے۔آپ کا مزار مبارک ''مراکش '' میں ہے۔ بہت سے لوگ آپ کے مزار شریف پردلائل الخیرات شریف پڑھتے ہیں۔(مطالع المسرات، ص۴، مطبوعہ فیصل آباد مُلخصاً)

حکایت(10): ’’شدَّاد کی جنّت‘‘

ہزاروں سال پُرانی بات ہے، ایک کافِر بادشاہ جس کا نام شَدّاد تھا ، پوری دنیا پر حکومت کرتا تھا۔ جب اُس نے کئی انبیاءِ کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے جنّت کے بارے میں سُنا تو شیطان کی باتوں میں آ کر اُ س نے اپنی عقل کے مطابق دنیا میں جنّت بنانا شروع کر دی (حالانکہ(although) دنیا کی چیزیں ، جنّت کی نعمتوں کی طرح ہو ہی نہیں سکتیں )۔ شَدّاد نے ایک بہت بڑا شہر بنوایا جس میں گھرسونے چاندی کی اینٹوں سے بنوائے۔اُن گھروں کے سُتون (column) زَبَرجَد ( یعنی ہرے اور پیلے رنگ کے بہت مہنگے پتھر) اور یاقُوت (لال، سفید یا نیلے رنگ کےقیمتی (expensive)پتھر)کے تھے۔ گلیوں کے راستوں میں (jewels) جواہِرات تھے اور پتھر کی جگہ بہترین موتی (pearl) تھے ۔جگہ جگہ نہریں (canals) تھیں اور سائے کے لیے (for shade)طرح طرح کے درخت لگائے تھے۔ پہلے بہت لمبی لمبی عمریں (ages) ہوتیں تھیں، لھذا یہ کام تین سو(300) سال میں مکمل ہوا اور زندگی گزارنےکے لیے طرح طرح کے سامان سے اس شہر کو بھر دیا گیا۔ شَدّاد کے حکم کے مطابق اس جنّت کو بنایا گیا تھا مگر شدّاد اب تک اسے دیکھنے نہیں گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ جب یہ مکمل ہو جائے تو میں بہت شان ( glory)کے ساتھ اس میں جاؤں گا مگر اللہ پاک جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ شَدّاد کی جنّت مکمل ہو گئی تھی، اُس کے محل (palace) سے وہ جنّت بہت دور تھی، اُسے وہاں پہنچنے میں کئی دن چاہیے تھے، شَدّاد پوری تیاری کے ساتھ اپنے وزیروں کو لے کر اپنی جنّت کو دیکھنے کے لیے نکل پڑا،وہ سفر کرتا رہا یہاں تک کہ اب صرف ایک دن کا راستہ رہ گیا تھا لیکن اچانک(all of a sudden) آسمان سے ایک خطر ناک آواز آئی جس سے سب کے دل پھٹ گئےاور شَدّاد 900 سال کی عمر میں اپنے سب ساتھیوں کے ساتھ مر گیا۔ جنّتی صحابی حضرت امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکے وقت میں ایک بُزرگ حضر ت عبد اللہ بن قِلابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکا ایک اونٹ یَمَن کے قریبی شہر عَدَن کے صَحْرا (desert)میں گم ہوگیا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ اونٹ ڈھونڈ رہے تھے کہ وہ ایسے شہر پہنچ گئے جو بہت ہی خوبصورت تھا مگر وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ نے وہاں سے تھوڑے سے جواہِرات (jewels وغیرہ)ساتھ لئے اور چلے آئے، اس بات کی خبر حضرت امیر مُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ کو ہوئی تو انہوں نے آپ کو بُلا یا اور حضرت کَعْبُ الاَحبار رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُسے پوچھا: کیا دنیا میں اِس اِس طرح کا بھی کوئی شہر موجود ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ہاں! اور آپ کے زمانے(time) میں ایک مسلمان اپنا اونٹ تلاش کرتے کرتے اِس شہر میں چلا جائےگا، اُس شخص کا رنگ سُرخ، آنکھیں نیلی(blue)، قد چھوٹا(small height) جبکہ بَھنووں(eyebrows) پر ایک تِل(یعنی نشان) ہوگا۔ بعد میں جب حضرت عبد اللہ بن قِلابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ کو دیکھا تو حضرت کَعْبُ الاَحبار رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ نے فرمایا: اللہ پاک کی قسم! یہ وہی شخص ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۲۲۲-۲۲۳مفہوماً، صراط الجنان،ج۱۰،ص۶۶۳-۶۶۴مفہوماً ، خازن،ج۴،ص۳۷۶) اس حکایت سے یہ سیکھنے کوملا کہ تکبُّر (arrogance)بہت بُری چیز ہے اور کبھی دنیا میں بھی اس کی سزا (punishment) مل جاتی ہے جیسا کہ شداد نے جنّت بنائی مگر اُسے دیکھ نہ سکا۔ شداد تو مر گیا مگر جب تک دنیا رہے گی،لوگ یہ واقعہ بتاتے رہیں گے اور اس کی بُرائی کرتے رہیں گے۔

حکایت(11): ’’بہترین محل(palace) ‘‘

حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہایک بار بصرہ شہر کے کسی مَحَلّے سے گزر رہے تھے کہ ایک بہترین محل (palace) دیکھا ، وہاں ایک جوان آدمی مزدوروں کے کاموں کو چیک کر رہا تھا۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنے ساتھ موجودحضرت جعفر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا: یہ جوان اتنی دِلچسپی (interest) کے ساتھ اپنا محل بنا رہا ہے،میں چاہتا ہوں کہ اللہ پاک سے دُعا کروں کہ یہ شخص جنّت کے جوانوں میں ہو جائے ۔ پھر آپ اُس جوان کے پاس آئے،سلام کیا اور فرمایا:آپ اِ س محل (palace) پر کتنی رقم (amount)خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ تواُس جوان نے کہا :ایک لاکھ دِرہم (چاندی کے سکّے،coins)۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا :اگر یہ رقم(amount) آپ مجھے دے دیں(تاکہ میں اسے فقیروں میں بانٹ دوں) تو میں آپ کے لئے ایک ایسے بہترین محل کی ضمانت(guarantee) لیتا ہوں ،جو اِس سے بہت زیادہ اچھا ہوگا اور صرف مَحل ہی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ خادِم بھی ہونگے مزید بھی بہت کچھ ہوگا، یہ بھی یاد رہے! کہ اُس محل کو مزدور (laborer)نہیں بنائیں گے بلکہ وہ اللہ پاک کے حکم سے بنایا جائے گا ۔ اُس جوان نے کہا:مجھے سوچنے کا وقت دیں ۔حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔اِس کے بعد آپ وہاں سے آگےچلے گئے۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بار بار اُس شخص کے لیے دُعا کرتے رہے۔صبح جب آپ اس کے محل (palace) کے سامنے سے گزرے تو وہ جوان پہلے ہی سے وہاں کھڑا تھا، اُ س نے سلام کرنے کے بعدعرض کی: کیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو کل کی بات یاد ہے ؟ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : جی ! تو اُس شخص نے ایک لاکھ دِرہِم کی تھیلیاں آپ کو دے دیں اور ساتھ ہی قلم اور کاغذ بھی دے دیا ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کاغذ لے کر، اُس پر کچھ اس طرح لکھا: '' بِسْمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم یہ تحریر اِس لئے ہے کہ اِس ایک لاکھ دِرہم کے بدلے(exchange) میں ،(حضرت )مالِک بن دِینار (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) نے فُلاں شخص کے لیے اس کے دنیوی مکان سے بہترین ایک محل اللہ پاک سے دِلوانے کا وعدہ کیاہے '' ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کاغذ اُس جوان کو دیا اورایک لاکھ دِرہِم اُس سے لے کر چلے گئے اور شام سے پہلے پہلے وہ سب رقم غریبوں میں تقسیم (distribute)کر دی ۔ابھی چالیس (40) دن بھی نہیں گُزرے ہونگے کہ فجر کی نَماز کے بعد مسجِد سے نکلتے ہوئے حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مسجد کی محراب (arch)میں وُہی کاغذ دیکھا، تو حیران ہوئے (surprised) اور اُس کاغذ کے پیچھےسِیاہی(ink) کے بغیر اس طرح کے الفاظ چمک رہے تھے: اللہ پاک کی طرف سے مالِک بن دِینار (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ )کے لئے کہ تُم نے جِس محل کے لیے ہمارے نام سے ضَمانت(guarantee) لی تھی وہ ہم نے اُس جوان کو دے دیا بلکہ اِس سے سترگُنا ( times 70)زیادہ دے دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اُس شخص کا انتقال ہوگیا ہے اور یہ کاغذ اس کی قبر میں رکھا گیا تھا۔یہ سب دیکھ کر ایک امیر آدمی آیا اور حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دو(2) لاکھ دے کر اس طرح کی تحریر لکھنے کی عرض کی تو آپ نے فرمایا:جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اللہ پاک جس کے ساتھ جو چاہتا ہے، کرتا ہے ۔ حضرت مالِک بن دِینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بار باراُس جوان کو یاد کر تے رہتے اور روتے تھے۔ (روضُ الرّیاحین، ص ۵۸۔۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ آخرت کو اہمیّت (importance) دینا بہت زیادہ ضروری ہے۔اور یہ بھی پتا چلا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کی بڑی شان ہے، اللہ پاک اپنی رحمت سے اُن کی کہی ہوئی باتیں پوری کر دیتا ہے۔

حکایت(12): ’’جنّت چا ہئے یا دوزخ؟‘‘

حضرت اِبراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں نے سوچا کہ میں جہنَّم میں ہوں اور ہر طرف آگ ہی آگ ہے، میں زنجيروں(chains) سےبندھا ہوا ہوں ،تُھوہَڑ(یعنی زہریلےکانٹے (poisonous thorn) والا دَرَخت) کھا رہا ہوں اور کھولتا ہوا پانی (boiling water) پی رہا ہوں۔ اس طرح سوچنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے پوچھا: اے ابراہیم (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)! بتا، کیا تجھے جہنَّم کا عذاب(punishment) چاہیے؟ تو میرے دل نے کہا: نہیں ، نہیں بالکل نہیں ۔ اِس کے بعد میں نے سوچا کہ میں جنَّت میں ہوں، صاف ستھرے لباس میں ہوں، بہت اعلیٰ قسم کے محل (palace) میں ہوں، ہر طرف خادم اور نوکر ہیں ،بہترین باغات ہیں ،وہاں کے پھل کھا رہا ہوں، اسکی نہروں سے پاک شربت پی رہا ہوں ۔ اِن خیالات کے بعد میں نے اپنے آپ سے پوچھا : اے ابراہیم (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ)! بتا، تجھے کیا چیز پسند ہے؟(جنَّت یا دوزخ ؟ ) تو میرےدل نے کہا:جنَّت چاہیے۔میں نے کہا۔ اچھا! تو سن لو، ابھی تمھیں وقت دیا جاتا ہے، دنیا میں جا کر نیک عمل کر کے آؤ تاکہ جنَّت کی خوب نعمتیں پاؤ اور سنو! کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں کرنا ورنہ جہنّم میں ڈال دیے جاؤ گے۔ (حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء،ج۴، ص۲۳۵ رقم ۵۳۶۱دار الکتب العلمیۃ بیروت بالتغیر) اس سچی حکایت سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی تھوڑی سی ہے، اس میں ملنے والی نعمتیں تھوڑی ہیں اور ختم ہونے والی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں بہت ہی زیادہ ہیں اور وہ نہ ختم ہونے والی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ آخرت کی تیاری کر تے ہوئے ہر فرض، واجب اور سنّت مؤکدّہ پر عمل کرنے،فرض علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ تلاوت قرآن، نفل نماز، نفل روزے،علمِ دین حاصل کرنے اور درودِ پاک پڑھنے کی عادت بنائیں۔اسی طرح اپنے آپ کو ہر طرح کےگناہ اور بُرےکاموں اور ہر طرح کےبُرے لوگوں سے بچائیں۔