حکایت(01): ’’نَماز صحیح طرح آنی چاہیے‘‘
ایک تابعی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتےہیں(’’تابِعی‘‘اس خوش نصیب(lucky) کو کہتے ہیں جس نے (ایمان کی حالت(condition) میں)کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو(اور ان کا انتقال بھی ایمان پر ہوا ہو) ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، ص۳۹۲ )): میں کئی دن کا سفر طے کر کے کسی شخص کے پاس(حدیث پاک سننے) جاتا ہوں تو پہنچ کر سب سے پہلے اُن کی نماز دیکھتا ہوں،اگر نماز کے حق( rights )ادا کرتے اور اسے پورے طور پر صحیح پڑھتے ہوئےدیکھتا ہوں تو اُن کے پاس رُک کر اُن سے حدیث شریف سُن لیتا ہوں، اگر اسے نماز کے حق ضائع(waste) کرنے والا پاتا ہوں تو حدیث سنے بغیر واپس آجاتا ہوں اور(دل میں) کہتا ہوں کہ(جب) یہ (نماز کے حق ادا نہیں کر رہا تو) نماز کے علاوہ (دین کے) دیگر(حقوق) کو زیادہ ضائع کرتا ہوگا(تو ایسے شخص سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کیحدیث کیسے سنوں؟)۔(حلیۃ الاولیاء،ج۲،ص۲۵۰،حدیث۲۱۱۹) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ نماز نہ پڑھنے کے بہت زیادہ نقصانات ہیں، ہمیں پانچوں نمازیں وقت پر اور سمجھدار بچّوں اور مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولی علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: قیامت قریب ہونے کی علامت (یعنی نشانی )ہے کہ تم لوگوں کو نماز ضائع کرتا ہوا دیکھو گے۔(کنز العمال ج۱۴ص۲۴۳حدیث۳۹۶۳۲) علماء فرماتے ہیں :نماز ضائِع کرنے سے مراد یہ ہے کہ لوگ یا تو بالکل نماز ہی نہیں پڑھیں گے یا پڑھیں گے تو اس کا کوئی فرض یا واجب چھوڑدیں گے۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ص۱۲۳)
حکایت(02): ’’دجاّل كا ظلم ‘‘
جبدجّال آئے گا تو طرح طرح کے جادو دکھا کرلوگوں کا ایمان برباد کرنے (یعنی غیر مسلم بنانے)کی کوشش کرے گا، دجّال کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کا بہت سارا سامان ہوگا، دجّال کو ماننے والوں کے علاوہ باقی لوگ سخت تکلیف(troubles) میں ہوں گے۔دجّال کے ساتھ دو(2) نہریں ہوں گی جن میں سے ایک (1st )کو جنّت اور دوسری(2nd )کو دوزخ کہے گا۔ اور اصل میں جسے وہ جنّت کا نام دے گا وہ دوزخ ہوگی اور جسے وہ دوزخ کا نام دے گا وہ جنّت ہوگی، اس کے کہنے پر آسمان سے بارش(rain) ہو گی۔ دجّال زمین کو حکم دے گا تووہ سبزے(پھل، سبزی وغیرہ) اُگائے گی، آسمان پانی برسائے گا اور اُس جگہ کے جانور لمبے چوڑے خوب تیار اور دودھ والے ہوجائیں گے اور ویرانے(deserted place) میں جائے گا تو وہاں کی قبر وں کے مردےشہد کی مکھیوں کی طرح اس کے ساتھ ہوجائیں گے۔ اِسی قسم کے بہت سے کام دکھائے گا اور حقیقت(یعنی اصل) میں یہ سب جادو ہوگا،اِسی لیے اُس کے وہاں سے جاتے ہی لوگوں کے پاس کچھ نہ رہے گا۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱ ۱۲ بتغیر) دجّال کی ایک آنکھ ہوگی اور ایک اَبر و(eyebrow) بالکل نہ ہو گی بلکہ وہ جگہ ہموار(smooth) ہوگی اور وہ ایک آنکھ والا ہوگا۔ وہ ایک بڑے گدھے پر سوار ہو گا اور اس کی پیشانی (forehead)کے درمیان ’’ ک۔ف ۔ر‘‘(یعنی کافر) لکھا ہو گا جسے صرف مسلمان پڑھ سکیں گے۔ دجّال کے ساتھی ایک مسلمان کو لے کر آئیں گے وہ مسلمان اللہ پاک پر یقین رکھنے والا، سچا مسلمان ہوگا، وہ دیکھتے ہی کہہ دے گا کہ لوگو! یہ تو دجّال ہے جس کے بارے میں اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بتایا تھا۔ یہ سن کر دجّال حکم دے گا کہ اس کو لٹاکر اس کا سر توڑ دو۔اُ س کے ساتھی ایسا ہی کریں گےپھر دجّال اس کا سر صحیح کر کے پوچھے گا: کیا تومجھ پر ایمان نہیں لاتا ہے؟(یعنی مجھے خدا مان لے) مسلمان جواب دے گا کہ تو ”جھوٹا “ہے۔ پھر دجّال کے حکم سے سر سے پاؤں تک اس کے دو (2)ٹکڑے(pieces) کیے جا ئیں گے۔ دجّال دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا اور کہے گا: اٹھ۔ وہ مسلمان اٹھ بیٹھے گا۔ دجّال پھر کہے گا: کیا تو مجھ پر ایمان لاتا ہے؟ مسلمان جواب دے گا: اب تو مجھےیقین(believe) ہو گیا کہ تو ”جھوٹا دجّال “ہے اور کہے گا: اے لوگو! میرے بعد یہ کسی اور سے ایسا نہ کر سکے گا۔اب دجّال اسے ذبح(slaughter) کر نا چاہے گا مگر نہ کر سکے گا اور اسے اپنی دوزخ میں پھینک دے گا مگر وہ اس مسلمان کے لئے جنّت ہو جائے گی۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ مومن اللہ پاک کے نزدیک بڑا شہید(یعنی اللہ پاک کی راہ میں قتل(murder)ہونے والا) ہوگا۔ (مسند امام احمد، ۵/۱۵۶، حدیث: ۱۴۹۵۹ مع سیرت رسول عربی ص۵۲۳ تا ۵۲۴ مُلخصاً) مستقبل(future) میںہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ایمان کی بہت اہمیّت (importance) ہے، جسے اللہ پاک ایمان کی حفاظت(protection of faith) کا ذہن اور مضبوط (strong) ایمان دے دے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ہمیں اللہ پاک سے ایمانِ کامل کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
حکایت(03): ’’دنیا کی سب سے بڑی دیوار‘‘
کئی ہزار سال پہلے ساری دنیا پر اللہ پاک کے ایک نیک بندے اورولی کی حکومت( rule)تھی، اُن کا نام ’’اِسْکَنْدَرْ‘‘ہے اور انہیں ’’ذُوْ الْقَرْنَیْن‘‘ بھی کہتے ہیں، یہ اللہ پاک کے نبی حضرت خِضْر عَلَیْہِ السَّلَام کے خالہ زاد بھائی (cousin) ہیں (صاوی،ج ۴،ص ۱۲۱۴مع نسفی ، ص۶۶۱) ۔ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شُمال (north ) کی طرف سفر کے دوران ایک مُلک تُرْکِستان کے پہاڑوں میں پہنچے، اِن پہاڑوں کی ایک طرف(side) کچھ خطرناک(dangerous) لوگ ’’یاجوج ماجوج‘‘رہتے تھے، اور دوسری طرف(on the other hand) ایک اور قوم رہا کرتی تھی۔ اُس قوم کے لوگوں نے حضرت ذُوْ الْقَرْنَیْن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی اور ساتھ ہی آپ کو مال دیتے ہوئے ایک مضبوط دیوار(solid wal) بنانے کا کہاتاکہ یاجوج ماجوج ہمارے پاس نہ آئیں ۔(ماخوذا زصراط الجنان، ج۶،ص ۳۴ مُلخصاً)یاجوج ماجوج انسان ہیں، کافر ہیں اور آج بھی زندہ ہیں۔یہ جس چیزکے پاس سے گزرتے تھے، اسے کھاجاتے تھے۔جب ہر طرف پھل پھول آجاتے تو یہ باہر نکل کر کھاجاتے اور دوسری چیزیں اٹھاکر لے جاتے تھے۔اِن کے ہاتھ اور دانت جانوروں کی طرح ہیں اور اِن کے بال اِتنے لمبے ہیں کہ جسم پر کپڑوں کی طرح ہیں۔(صاوی ،ج ۴،ص۱۲۱۸ ماخوذاً) حضرت ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قوم سے مال نہیں لیا اور ان کی مدد کرنے کے لیے فرمایا : مجھے تمہارا مال نہیں چاہیے، بس میرے ساتھ مل کر دیوار بناؤ! اب آپ نے پتّھروں کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے (pieces of iron)منگوائے اور زمین کھودنے(digging ) کا حکم دیا ، جب پانی نکل آیا تو آپ نے پہلے پتّھر رکھوائے اور پگھلے ہوئے تانبے(melt copper) کو اوپر ڈال دیا ، اِس کے بعد لوہے (iron)کے ٹکڑے ڈالے اور پہاڑ جتنی دیوار بنا دی اور کوئلہ(coal) بھر کر آگ لگادی، پھر اوپر سے بھی پگھلا ہوا تانبا (melt copper)دیوار میں ڈال دیا اور ایک مضبوط دیوار(solid wal) بنادی ۔(ماخوذ ازصراط الجنان ،ج ۶،ص۳۶ مُلخصاً)حدیث شریف میں کچھ اس طرح ہے : بیشک یاجوج ماجوج روزانہ دیوار توڑتے رہتے ہیں، جب وہ مکمل ٹوٹنے کے قریب ہوتی ہے تو انہیں سورج کی روشنی نظر آ تی ہے، اِتنے میں اُن کا بڑا کہتا ہے: چلو! باقی کل توڑیں گےتو (اگلے دن next day) اللہ پاک اس دیوار کو پہلے سے بھی مضبوط(strong) بنادیتا ہے۔ جب اللہ پاک انہیں لوگوں کے سامنے لانا چاہے گا تو اُس دن جب وہ سورج کی روشنی دیکھیں گے تو اُن کا بڑا کہے گا : چلو! اِنْ شَآءَ اللہ ! باقی کل توڑیں گے۔ جب وہ اگلے دن( day next)آئیں گے تو(اِنْ شَاءَ اللہ یعنی” اللہ پاک نے چاہا تو ‘‘ کہنے کی برکت سے)دیوار اُتنی ہی ہوگی جتنی چھوڑ کر گئے تھے، یوں وہ باقی (rest)دیوار توڑ کر باہر آجائیں گے۔(ابن ماجہ ،ج ۴،ص۴۰۹، حدیث : ۴۰۸۰) اور زمین میں بہت قتل کریں گے،یہ سب قیامت کے قریب ہوگا۔ حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ا ِن کےلئےموت کی دعا فرمائیں گے تو اللہ پاک اِن کی گردنوں (necks )میں کیڑے(insects)پیدا فرمائے گا جس سے یہ فوراً مرجائیں گے۔(ماخوذ از بہار شریعت ،ج۱،ص۱۲۵) اس حكايت سے پتا چلا کہ زمین میں ظلم کرنے والوں کا اَنجام (result)اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک جو چاہے وہ کر سکتا ہے ۔مزید یہ بھی پتاچلا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا، بڑے سے بڑا کام کر دیتی ہے۔
حکایت(04): ’’ایک دن سورج مغرب سے آئے گا ‘‘
یاجوج وماجوج کے مرنےکے ایک عرصے(period) بعد ایک بڑا دُھواں(smoke) آسمان سے آئے گا اور چالیس(40)دن تک ر ہے گا،جس سے مسلمانوں کو نزلہ (flu)ہو جائے گا لیکن سب غیر مسلم بےہوش ہوجائیں گے۔ (تفسیر طبری ،الدخان، تحت الآیت: ۱۰۔۱۱، حدیث : ۳۱۰۶۱، ج ۱۱، ص ۲۲۷) اس کےکچھ دنوں بعد ایک ایسی رات آئے گی جو بہت لمبی ہو جائے گی، بچے رونا شروع کر دیں گے، مسافرپریشان ہو جائیں گے اور جانور بے چین ہو جائیں گے ، سب لوگ رو رو کر تو بہ کرنے لگیں گے یہاں تک کہ اتنا وقت گزر جائے گا ، جس میں تین (3)یا چار(4) راتیں گزر جاتی ہیں تو سورج مغرب(west) سے تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا اور غروب(sunset) ہوجائے گاپھر معمول کے مطابق(as usual) سورج مشرق (east) سے نکل جائے گا۔ (درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً) سورج ہر وقت اللہ پاک کو سجدہ کر ہو تا ہے اور اسی حالت(condition) میں آگے چلتا رہتا ہے (پ ۲۳، سورۃ یسین ،آیت ۳۸ مع بخاری ، ۲/ ۳۷۸ ، حدیث: ۳۱۹۹ماخوذاً) ۔اس کا چلنا قیامت تک ہے، یہ ہر وقت اللہ پاک سے آگے بڑھنے کی اجازت بھی مانگتا رہتا ہےمگر قیامت کے قریب آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے بھیج دیا جائے گا(صراط الجنان،جلد۸،ص۲۵۱ معمراٰۃ المناجیح،۷/۲۸۰ اخوذاً)۔ جیسا کہ حضرت اَبُوذرغفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج غروب ہوا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کےرسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:وہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے،پھر وہ اِجازت مانگتا ہے تو اس کو اِجازت دے دی جاتی ہے(یعنی سورج ہر وقت آگے بڑھنے کی اجازت مانگتا رہتا ہے اور اسے اجازت ملتی رہتی ہے اوروہ آگے بڑھتا اور ہر ملک میں طلوع ہوتا رہتا ہے اسے واپس جانے کا حکم نہیں ہوتا مگر قیامت کے)قریب(ایک دن ایسا ہونا) ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور وہ سجدہ قبول(accept) نہ کیا جائے گا اور وہ اِجازت مانگے گا مگر(اُسےآگے جانے کی ) اِجازت نہ دی جائے گی (یہاں تک کہ تین (3)سے چار(4) رات کا وقت گزر جائے گا) اور اسے کہا جائے گا: واپس ہو جا۔ پھر سورج مغرب سے نکلے گا۔ (یعنی یہ ہر جگہ کے لیے ہوگا اور سورج ساری دنیا میں اُس جگہ سے آئے گا جہاں ڈوبتا ہے)۔ (بخاری ، ۲/ ۳۷۸ ، حدیث: ۳۱۹۹،مراٰۃ المناجیح،۷/۲۸۰،درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً) اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ کافر اپنے کفر سے توبہ کرنا بھی چاہے گا تو توبہ قبول نہ ہوگی یعنی وہ غیر مسلم ہی رہے گا، مسلمان نہ ہو سکے گا۔(بہارِ شریعت ،حصہ۱،ص۱۲۶)یا گناہ گار اپنے گناہوں سے توبہ کرنا بھی چاہے گا تو توبہ قبول(accept) نہ ہوگی ۔(ہمارااسلام،حصہ۵،ص۲۹۲ مُلخصاً) قیامت کے قریب ہونے والی اس حالت(condition) سے یہ درسlesson) )ملا کہ قیامت کے آنے سے پہلے ایک وقت ایسا آئے گا کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا لیکن آج یہ دروازہ کھلا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی نافرمانی (disobedience) سے بچیں اور اگر کبھی کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً توبہ کر لیں مگر یاد رہے کہ! توبہ وہی صحیح ہے کہ جس میں یہ پکی نیّت(firm intention) ہو کہ اب دوبارہ یہ گناہ نہیں کرنا۔
حکایت(05): ’’لمبی رات کے بعد کیا ہوگا؟‘‘
قیامت سے پہلے ایک رات،تین(3) یا چار(4) راتوں کے برابر لمبی ہوگی پھر سورج مغرب(west) سے تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا اور غروب (sunset) ہوجائے گاپھر معمول کے مطابق(as usual) سورج مشرق(east) سے نکل جائے گا (درمنثور ، الانعام :۱۵۸، ۳/۳۹۲۔۳۹۷مُلخصاً)۔دوسرے دن کوہِ صَفَا( مکّے شریف میں مسجد ُ الحرام کے ساتھ ایک پہاڑ ہے، اب اُس پہاڑ کا تھوڑا سے حصّہ نظر آتا ہے، عمرہ اور حج کرنے والے یہاں آتے ہیں) زَلزلے(earthquake) سے پھٹ جائے گا اور اس سے ایک عجیب شکل(strange shape) کا جانور نکلے گا جسے دابۃ ُالا رض کہتے ہیں ۔ (سیرت رسول عربی، ص۵۲۶ تا ۵۲۷ملخصاً) دابۃ ُالا رض کے ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی (ring)ہو گی۔ وہ بہت تیزی سے ایک ایک کے پاس جائے گا۔ مسلمان کی پیشانی (forehead)پر حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کی لاٹھی سے ایک لکیر(line) لگا دے گا جس سے اس مسلمان کا چہرہ (face)نورانی اور خوبصورت ہو جائے گا اور غیر مسلم کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی سے نشان لگائے گا جس سے اُس کا چہرہ کالا ہو جائے گا۔ (درمنثور ، النمل : ۸۲،۶/۳۷۹۔۳۸۱ ، ابن ماجہ، ۴/۳۹۳، ۳۹۴،حدیث :۴۰۶۶مُلخصاً)اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے مسلمانوں کا انتقال ہونا شروع ہو جائے گایہاں تک کہ کوئی مسلمان باقی نہ رہے گا۔( عمدۃ القاری،۷/۱۵۵۔۱۵۶ ،تحت الحدیث: ۱۵۹۱۵)بارشیں بہت کم ہو جائیں گی اوربیماریاں عام ہو جائیں گی۔اس وقت ملک شام میں مال بہت ہوگا جس کی وجہ سے دوسرے ملکوں کے لوگ اپنے گھروالوں کے ساتھ ملک شام آجائیں گے۔ پھر ایک بڑی آگ باقی لوگوں کے پیچھے آئے گی یہاں تک کہ باقی لوگ بھی مُلکِ شام آجائیں گے پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی۔ (مرقاۃ المفاتیح، ۹ / ۳۶۷، تحت الحدیث:۵۴۶۴ مُلخصاً) کچھ دنوں بعد جمعہ کے دن دس (10)محرم کی صبح اللہ پاک ،حضرت اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو صور پھونکنے (ایک قسم کی (a kind of) آواز نکالنے) کا حکم دے گا ، توحضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے حکم سے صور پھونکیں گے۔ اس کی آوازشروع شروع میں تو بہت نرم ہوگی اور آہستہ آہستہ زیادہ ہوتی چلی جائے گی۔ لوگ اس کو سُنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مَرجائیں گے اورزمین و آسمان سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ (سیرت رسول عربی، ص۵۲۶ تا ۵۲۹ملخصاً) آنے والے ان حالات (conditions)سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ قیامت ضرور آئے گی اور لوگ اللہ پاک کے سامنے حاضر ہونگے،قیامت سے پہلے بہت سی نشانیاں (signs)سامنےآئیں گے جن میں کچھ آ بھی چکی ہیں مگر بڑی نشانیاں ابھی تک سامنے نہیں آئیں ۔ ہمیں چاہیے کہ نیک کام کریں اور اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہا کریں۔
حکایت(06): ’’ہر ہزار میں سے ۹۹۹‘‘
قیامت کے میدان میں بعض لوگوں کو اتنا پسینہ (sweat)آئے گا کہ زمین پر گرے کا، زمین اُسے چوس suck)کر) لےگی ، مگر وہ پسینہ آتا رہے گا اور زمین چوستی رہے گی یہاں تک کے ستّر(70)گز تک پانی چوس لے گی مگر پھر بھی پسینہ آتا رہے گا اور اب زمین چوس نہیں پائے گی تو اب کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں (ankles)تک ہو گا، کسی کے گھٹنوں (knees)تک، کسی کی کمر (waist)، کسی کے سینہ، کسی کے گلے (hug) تک اور کافر کے تو منہ تک ہو گا ،جس میں وہ ڈوبنے لگے گا۔ اس گرمی میں جتنی پیاس (thirst)لگےگی وہ بتائی نہیں جاسکتی، زبانیں سُوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی، بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئیں گی۔ جس کےجیسے گناہ ہونگے، وہ اتنی تکلیف(trouble ) میں ہوگا۔ جس نے چاندی سونے کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اُس مال کو خوب گرم کرکے اُس کی پیشانی(forehead) اورپیٹھ(back) پر وغیرہ پر نشان لگائے جائیں گے، جس نے جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی ہوگی اس کے جانور خوب تیار ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو لٹایا جائے گا اور وہ جانور اپنے سینگوں سے مارتے اور پاؤں سے،اُس کے اوپر چلتے ہوئے گزریں گے، جب سب اسی طرح گزر جائیں گے پھر اُدھر سے واپس آکر یوہیں اُس پر گزریں گے، اسی طرح کرتے رہیں گے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس وقت کیفیت(condition) یہ ہوگی کہ بھائی سے بھائی بھاگے گا، ماں باپ اولاد سے دور رہیں گے، بیوی بچے الگ ہو جائیں گے، ہر ایک اپنی مصیبت میں پریشان ہوگا، کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا...! حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم ہو گا کہ وہ دوزخیوں کی جماعت الگ کریں، عر ض کرینگے: کتنے میں سے کتنے؟ ارشاد ہوگا: ہر ہزار(1,000) سے نو سو ننانوے(999)، یہ وہ وقت ہو گا کہ اگربچے ہوں تو غم کی وجہ سے بوڑھے ہوجائیں گے، لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جیسے نشہ کیا ہوا ہو، حالانکہ(although) کسی نے نشہ نہ کیا ہوگا، آہ! اﷲ کی پناہ ، اللہ پاک کا عذاب (punishment) بہت سخت ہے۔ ۔۔۔ کس کس مصیبت کو بتایا جائے، ایک(1) ہویا دو(2) ہوں، سو (100)ہوں، ہزار(1000) ہوں بلکہ ہزاروں ہیں۔ ہم اللہ پاک سے رحم کی دعا کرتے ہیں...! اور یہ سب تکلیفیں دو(2) چار (4)گھنٹے، دو(2) چار (4) دن، دو(2) چار (4)مہینے کی نہیں، بلکہ قیامت کا دن پچاس ہزار(50,000) سال کا ہوگا ،ہم اللہ پاک سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرتے ہیں۔ جب یہ دن آدھا گزر جائے گا، اس وقت تک اہلِ مَحْشَرْ(قیامت میں جمع ہونے والے) اسی طرح کی تکلیف میں رہیں گے پھر یہ سفارش کرنے والا ڈھونڈیں گے۔ (بہار شریعت ح۱، ص۱۳۳ تا ۱۳۵، مُلخصاً) مستقبل(future) میںہونے والےاس سچےواقعے سے معلوم ہوا کہ قیامت سخت تکلیف کا دن ہے، زندگی گناہوں میں گزارنے والے اُ س دن بہت پریشان ہونگے۔ یہ وہ دن ہوگا کہ سب غیر مسلم اورایمان لانے والے گناہ گاروں کی ایک بہت بڑی تعداد (too many)جہنّم میں جائے گی۔ ہمیں اپنی آخرت کو اچھا کرنے اور اللہ پاک کو خوش کرنے کے لیے نیک کام کرنے چاہئیں اور ہر طرح کے گناہ سے بچنا چاہیے۔
حکایت(07): ’’99 رجسٹرز(registers) ‘‘
قی امت کے دن حساب کتاب مختلف انداز(different styles) سے ہوگا۔کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا کہ اکیلے (alone)میں اُس سے پوچھا جائےگا: تو نے یہ کیا ؟اور یہ کیا؟ عرض کریگا: ہاں اے ربّ! یہاں تک کہ تمام گناہوں کو مان لے گا، یہ اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب میرے لیے جہنّم میں جانے کا حکم ہوگا۔ اللہ پاک فرمائے گا: کہ ہم نے دنیا میں تیرے گناہ وغیرہ چھپائے اور آج تیرے گناہ معاف کردیے۔ کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات پوچھی جائےگی اور جس سے اس طرح سوالات ہوئے وہ تباہ و برباد(destroyed) ہوگا۔ کسی سے فرمائے گا: اے فلاں! کیا میں نے تجھے عزّت نہ دی...؟! تجھے سردار نہ بنایا...؟! تجھے گھوڑے اور اونٹ نہ دیے...؟! ان کے علاوہ اور نعمتیں یاد دلائے گا، عر ض کریگا: ہاں! تُو نے سب کچھ دیا تھا، پھر فرمائے گا: تو کیا تیرے ذہن میں تھا کہ مجھ سے ملنا ہے؟ عرض کریگا کہ نہیں، فرمائے گا: تَو جیسے تُو نے ہمیں یاد نہ کیا، ہم بھی آج تجھے عذاب(punishment) میں چھوڑتے ہیں۔ کچھ کافر ایسے بھی ہوں گے کہ اللہ پاک جب انہیں نعمتیں یاد دلا کر فرمائے گا کہ تُو نے کیا کیا؟ عرض کریگا: تجھ پر اور تیری کتاب اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، نماز پڑھی، روزے رکھے، صدقہ دیااو ر ان کے علاوہ جہاں تک ہوسکے گا، نیک کام بتائے گا۔ اللہ پاک فرمائے گا: ٹھہر جا! تجھ پر گواہ (witness)پیش کیے جائیں گے، یہ اپنے دل میں سوچے گا: میرے خلاف (against) کون گواہی دیگا...؟! اس وقت اس کی زبان بندکر دی جائے گی اور جسم کے حصّوں (parts) کو حکم ہوگا: بولو ، اُس وقت اُس کے ہاتھ، پاؤں، گوشت ، ہڈیاں سب اس کے خلاف (against) بولیں گے کہ یہ تو ایسا تھا ایسا تھا، اور وہ جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔ اِس اُمّت میں وہ شخص بھی ہوگا، جس کے ننانوے (99) رجسٹر گناہوں کے ہوں گے اور ہر رجسٹر اتنا بڑاہوگا کہ جہاں تک نظر جاتی ہے، وہ سب کھولے جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا: تم ان میں سے کسی بات کا انکار (refusal)تو نہیں کرتے؟ میرے فرشتوں(یعنی کراماً کاتبین) نے تم پر ظلم تو نہیں کیا؟ عرض کریگا: نہیں اے ربّ! پھر فرمائے گا: تیرے پاس کوئی عذر ہے(یعنی ان کاموں کو کرنے کی کوئی وجہ ہے)؟ عرض کریگا: نہیں اے ربّ! فرمائے گا: ہاں تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور تجھ پر آج ظلم نہ ہوگا، ایک چھوٹا سا پرچہ لایا جائے گا، اُسے وزن (weight)کرنےکا حکم ہوگا، بندہ عرض کرے گا: اے ربّ! یہ پرچہ ان رجسٹروں سے زیادہ وزن والا کیسے ہوگا؟ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہ ہوگا، پھر ایک پلّے(scale) پر ننانوے (99) رجسٹر رکھیں جائیں گے اور دوسرےمیں وہ پرچہ تو وہ پرچہ ان رجسٹروں سے بھاری ہو جائے گا۔اُس پرچہ پر ''أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ'' لکھا ہوگا کہ جو اُس نے کبھی سچے دل سے پڑھا ہوگا پھر اُسے جنّت میں بھیج دیا جائے گا۔(بہارِ شریعت ، ح۱، ص۱۴۱ تا ۱۴۳ مُلخصاً) قیامت کے دن ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی رحمت بہت بڑی ہے، جس پر رحم فرمائے، تھوڑی نیکی بھی بہت ہو جائے مگرخبردار! اس کے عذاب (punishment) سے بھی ڈرنا ضروری ہے کہ بعض نیک لوگ ایسے بھی ہونگے کہ جن کا کوئی گناہ، انہیں جہنّم میں لے جائے گا لھذا نیک کام بالخصوص فرائض، واجبات اور سنّت مؤکدہ پر عمل کرتا رہے ،گناہوں (حرام، مکروہ تحریمی ،ناجائز کاموں) سے بچتا رہے اور اللہ پاک کی رحمت پر اُمید رکھے۔ مسلمانوں کے دوسرے(2nd ) خلیفہ ،حضرت عمر فاروقِ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : اگر اللہ پاک سب بندوں میں سے صِرف ایک کوجہنَّم میں ڈالنے والاہو تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہنَّم میں جانے والا وہ ایک بندہ میں ہی ہوں اوراگر اللہ پاک ایک کے علاوہ سب کو جہنَّم میں ڈالنےوالا ہو تو میں اُمّید (hope)کروں گا کہ وہ مجھے جہنَّم میں نہیں ڈالے گا ۔ (حلیۃ الاولیاء ج ۱ ص ۸۹ ) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : بیشک نکو کار (یعنی نیک لوگ)ضرور چین میں ہیں اور بے شک بدکار(یعنی گناہ گار) ضرور دوزخ میں ہیں ۔(پ ۳۰، سورۃ الانفطار، آیت ۱۳،۱۴) (ترجمہ کنز العرفان)
حکایت(08):’’حرام روزی کھانے اور کھلانے والے کے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘
قیامت کے دن ایک شخص حاضِر کیا جائے گا ،اُس کے بیوی بچے شکایت(complain) کریں گے، کہیں گے: یا اللہ! اِس نے ہمیں شریعت کے اَحکام (یعنی دینی مسائل)نہیں سکھائے اور یہ ہمیں حرام روزی کھِلاتا تھا ، لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا۔ لِہذا اُس ( شخص) کو حرام روزی کمانے کی وجہ سے اتنا مارا جائےگا کہ اُس کی کھال تو کھال گوشت بھی جسم سے الگ ہو جائےگا، پھر اُس کو مِیزان پر (یعنی جہاں پر حساب ہوگا) ( ) لایا جائے گا، فِرشتے اُس کی پہاڑ کے برابر نیکیاں لائیں گے تو گھر والوں میں سے ایک شخص اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گاپھر دوسرا آگےبڑھے گا وہ بھی اُس کی نیکیوں سے اپنی کمی پوری کریگا۔ اس طرح اُس کی ساری نیکیاں اس کے گھر والے لے لیں گے۔ اب وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف دیکھ کر کہے گا :افسوس (Alas!)! اب مجھ پر صرف وہ گناہ رہ گئے ہیں کہ جو میں نے تم لوگوں کے لیے کیے تھے۔ فرشتے اِعلان (announce)کریں گے: یہ وہ شخص ہے جس کی ساری نیکیاں اُس کے بیوی ، بچّے لے گئے اور یہ اُن کی وجہ سے جہنّم میں چلا گیا۔ (قُرَّۃُ العیون،ص۴۰۱) قیامت کے روز ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمیں خود بھی نیک کام کرنے، گناہوں سے بچنا ہے اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دینی اور گناہوں سے بچانا ہے خصوصاً گھر والوں اور خاندان والوں کو نیک نمازی، سنّتوں کا عادی بنانا ہے۔ یقیناً وہ شخص بڑا بدنصیب ہے جو اپنے گھر والوں کی سنّت کے مطابق تربیت نہیں کرتا، اپنی بیوی اور بچّیوں کو پردے وغیرہ کے مسائل نہیں سکھاتا۔ بلکہ خود فیشن کرواتا ،میک اپ کروا کر بے پردہ اسکوٹر پر بٹھا کر شاپنگ سینٹروں میں لے جاتا ہے۔ یاد رکھئے جو لوگ روکنے کی طاقت رکھتے ہیں پھر بھی اپنی بیوی اور مَحرم رشتہ دار عورتوں (مثلاً: بیٹی، بہن، ماں وغیرہ)کو بے پردَگی سے مَنْع نہ کریں وہ دَیُّوث ہیں(اَلدُّرُالْمُخْتَارج۶ ص ۱۱۳دار المعرفۃ بیروت ماخوذاً) اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تین (3)شخص کبھی جنّت میں نہ جائیں گے دیُّوث اورمَردانی وَضْع بنانے والی (یعنی مردوں جیسی صورت بنانے والی مثلاً مردوں کی طرح بال رکھنے والی یا مردوں کی طرح کا لباس پہنے والی) عورت اور شراب پینے کا عادی۔(اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْھِیب ج۳ ص۷۶حدیث ۸ دارالکتب العلمہۃ بیروت)
حکایت(09):’’جہنم پر ایک پُل ہے‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس آپ کی ایک کنیز حاضر ہوئی ( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو عورت ملی وہ کنیز ہوتی، آج کل کنیزیں نہیں ہوتیں ) اور عرض کی : میں نے خواب میں دیکھا کہ جہنَّم کی آگ جل رہی ہے اور اُس کے اُوپر پُل صراط رکھ دیا گیا ہے۔اب دنیا میں خلافت (caliphate)کرنے والوں کو لایا گیا، سب سے پہلے خلیفہ عبدالمَلِک کو حکم ہو ا کہ پُل صراط سے گزرو! وہ پُلْ صراط پر چڑھا ، مگر وہ فوراً دوزخ میں گر گیا۔ پھر اُس کے بیٹے ولید کو لایا گیا ، وہ بھی دوزخ میں گر گیا۔ اس کے بعد سلیمان بن عبد المَلِک کو حاضِر کیا گیا اور وہ بھی اسی طرح دوزخ میں گیا۔ ان سب کے بعد امیرُالمؤمنین! آپ کو لایا گیا ، بس اِتنا سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خوف (یعنی جہنّم کے ڈر) سے چیخ ماری اور گر پڑے۔ کنیز نے پکار کر کہا : یاامیرَالمؤمنین! سنئے بھی تو… خداکی قسم! میں نے دیکھا کہ آپ نے سلامَتی کے ساتھ پُل صراط پار کرلیا۔ مگر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پُل صراط کا نام سن کربے ہوش ہو چکے تھے اور بے ہوشی میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔( اِحْیاءُ الْعُلُوم ج ۴ص ۲۳۱ مُلَخّصاً)(پُل صراط کی دہشت ص۱،۲) یاد رہے!حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہتابعی ہیں کیونکہ آپ نے کئی صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سے ملاقات کا شَرف پایا ہے ۔(عمر بن عبد العزیز کی 425حکایات ص۳۱)’’تابِعی‘‘اس خوش نصیب (lucky)کو کہتے ہیں جس نے (ایمان کی حالت(condition) میں)کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملاقات کی ہو(اور ان کا انتقال بھی ایمان پر ہوا ہو) ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، ص۳۹۲ ) اس سچی حکایت سے پتا چلا کہ مسلمانوں کے سچے خلیفہ، نیک و پرہیز گار، تابعی بزرگ بھی آخرت کا کتنا خوف رکھتے تھے۔ ہمیں بھی اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہے، ہمیں نماز وقت پر ادا کرنی ہے بلکہ ہر فرض، ہر واجب اور کم از کم ہر سنّت مؤکّدہ کو جیسا حکم ہے، اُس طرح پورا کرنا اور ہر گناہ سے بچناہے۔
حکایت(10):’’جنّتی صَحابی کا رونا‘‘
جنّتی صحابی، حضرت عبدُاللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ایک بار روتے دیکھ کر ان کی نیک زَوجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی : آپ کو کس بات نے رُلایا ہے ؟ کہنے لگے ایک مرتبہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا: مجھے اللّٰہ پاک کا یہ فرمان یاد آگیا( ترجمہ۔Translation) : اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔ (پ۶ ۱، سورۃ مریم، آیت ۷۱) (ترجمہ کنز العرفان) حضرت عبدُاللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ روتے ہوئے مزید فرمانے لگے کہ:یوں میں نے یہ تو جان لیا کہ میں نے اس میں داخل ہونا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں ا سے پار کرسکوں گا یا نہیں ۔ (اَلْمُسْتَدْرَک ج۵ ص۸۱۰ حدیث ۸۷۸۶ ، اَلتَّخویف مِنَ النَّار ص ۲۴۴) جنّتی صحابی کے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْقرآن ِ پاک کی آیتوں پر غور کیا کرتےاور اپنی آخرت کے بارے میں سوچا کرتے تھے، ہمیں بھی چاہیے کہ کم از کم جو سورتیں ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کے معنیٰ یاد کریں اور اس کی تفسیر پڑھیں اورسمجھیں۔جب بھی نماز پڑھا کریں تو ان سورتوں کے معنی ٰ کی طرف توجّہ (attention)رکھا کریں
حکایت(11):’’تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِم ُ السَّلَام کے سردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےساتھ ایک دعوت میں حاضر تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا :میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، اللہ پاک دنیا کی ابتداء (یعنی شروع)سے آخر تک کےتمام لوگوں کوایک میدان میں جمع فرمائے گا ،سورج ان کےقریب ہو جائے گا اور لوگوں کوبہت زیادہ پریشانی (panic) ہوگی اور وہ ایک دوسرے سےکہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا تم اللہ پاک سے کسی کی شفاعت کا انتظار(wait) کر رہے ہو؟وہ ایک دوسرے سےکہیں گے: چلو! حضرت آدمعَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس چلیں۔لہٰذا وہ ان کےپاس جائیں گےاورعرض کریں گے:آپ عَلَیْہِ السَّلاَمتمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ پاک نے آپ کو اپنی قدرت(اور طاقت) سےپیدا فرمایا اور فرشتوں کوسجدۂ (تعظیمی یعنی آپ کی respect کے لیے سجدہ)کرنے کا حکم دیاتو انہوں نےآپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنّت میں رکھا، کیا آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں ہماری شفاعت(یعنی سفارش) نہیں فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت اور عذاب(punishment) میں ہیں ؟ تو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلاَم فرمائیں گے:بے شک اللہ پاک آج اس قدر غضب اورجلال میں ہے کہ اس سے پہلےکبھی نہیں ہوا اور نہ ہی اس طرح اس کے بعد کبھی ہو گا،آج تو بس مجھے اپنی جان کی فکر ہے،میرے علاوہ کسی اور کی طرف جاؤ۔پھر تمام لوگ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلاَم ،حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلاَم، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس باری باری حاضر ہو ں گےلیکن ہرنبی عَلَیْہِ السَّلاَمیہی فرمائیں گے :آج تو بس مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔اللہ پاک کے غضب وجلال کی وجہ سے کوئی نبی بھی لوگوں کی سفارش نہیں کریں گے ۔ پھر تمام لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَم کے پاس حاضرہوں گےوہ بھی منع کریں گے اورفرمائیں گے کہ حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس جاؤ۔ پھرتمام لوگ میرے پاس آئیں گےاورعرض کریں گے:اے محمد(رّسولُ اللہ) صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) آپ اللہ پاک کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صدقے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں،(اور سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، چاہے وہ آپ سے پہلے دنیا میں آئے ہوں یا بعد میں، مسلمان ہوں یا کافر،آپ کا ساتھ دینے والے ہوں یا تکلیف دینے والے ہوں اور یہ مقام (rank)اور فضیلت(یعنی درجہ) کسی کو بھی نہیں ملی اور نہ ملے گی کہ دنیا میں آنے والےتمام لوگ، کسی ایک عزّت والے شخص کی تعریف کر رہے ہوں اور عرض کریں گے کہ) اللہ پاک سے ہماری شفاعت (یعنی سفارش) کیجئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مزیدفرماتے ہیں پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:میں عرش کے نیچےآؤں گا اور اللہ پاک کوسجدہ کرونگا۔ اللہ پاک میرا سینہ (chest) کھول دے گا اور میرے دل میں اپنی حمد و ثناء (یعنی تعریف ) کےایسے جملے ڈال دے گا جو اس سے پہلے کسی کے دل میں نہیں آئیں گئے، پھر اللہ پاک فرمائے گا:اے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ) اپنا سر اُٹھائیے، مانگیئے، آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول(accept) کی جائے گی۔ تومیں اپنا سر اٹھاؤں گااورعرض کروں گا: اے میرے ربّ ! میری اُ مَّت کو بخش(یعنی مُعاف کر) دے،اے میرے پالنے والے! میری اُمت کو بخش دے۔اللہ پاک فرمائے گا: اے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )! اپنی اُمّت میں سے جن پر کوئی حساب نہیں ، انہیں جنّت کےدروازوں میں سے سیدھی طرف کے دروازے سےجنّت میں لے جاؤ۔ (صحیح البخاری، الحدیث:۳۳۴۰،ص۲۶۹ملخصاو حدیث: ۴۷۱۲،ص۳۹۳ ملخصا وصحیح مسلم، الحدیث:۴۸۰، ص ۷۱۴، بتغیرٍملخصا) ایک اورروایت میں ہے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اپنی اُمّت کی ایک مرتبہ شفاعت کر کے ہر99(ننانوے) میں سے ایک انسان کوباہر نکال دوں گا،مزید فرمایا: میں بار بار اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوتا رہوں گا اور شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ اللہ پاک مجھ سے فرمائے گا: تیری اُمّت میں سے جس نے ایک دن بھی سچے دل سے یہ گواہی دی(testified ہوا) کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی پر اس کی موت ہوئی(یعنی مسلمان ہونے ہی کی حالت (condition) میں فوت ہوا) اسے(جنّت میں ) لے جاؤ۔)المسند للامام احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک، الحدیث:۱۲۸۲۴،ج۴،ص۳۵۵، بتغیرٍقلیلٍ) اس حکایت سےمعلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تمام نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلاَم سے افضل(superior) اوراعلیٰ (بڑے درجے والے)ہیں کہ قیامت کےدن اللہ پاک کےغضب اورجلال کی وجہ سے کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلاَم بھی لوگوں کی سفارش اور شفاعت نہیں کریں گے۔لیکن ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یہ خاص مقام اورمرتبہ ديا جائے گا کہ سب لوگ آپ کی تعریف کریں گے، آپ سے مدد مانگیں گے اور آپ ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے پہلے لوگوں کی شفاعت کریں گے(اس کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِم السَّلاَمبلکہ اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ بھی شفاعت کریں گے)اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سفارش کی وجہ سے لوگوں کا حساب شروع ہو گا اور گناہ گار مسلمان بھی بالاخر(یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ سب کے سب) جنّت میں چلے جائیں گے۔
حکایت(12):’’موت کو ذبح (slaughter)کر دیا جائے گا‘‘
جب جہنّمی ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور صرف وہ رہ جائیں گے کہ جنہیں ہمیشہ اس میں رہنا ہےتوایک فرشتہ آواز دے گا: فلاں(شخص) کہاں ہے؟ جس نے اپنی عمر کو برے اعمال میں خراب کردیا؟ پھر وہ فرشتےلوہے کے بڑے بڑے گرز(ایک ہتھیار جس کے اوپر گول موٹا لوہا ہوتا ہے) لے کر اس کی طرف بڑھیں گے اور اس کو بہت ڈرائیں گے اور سخت عذاب(punishment) کی طرف لے جائیں گے اور اسے اُلٹا کرکےجہنّم میں پھینک دیں گے پھر اُسے ایسے گھر میں قید (prison)کر دیں گے جس کےراستے میں بھی سخت اندھیرا ہو گا اور اس میں طرح طرح کے عذاب ہوں گے۔ قیدی (prisoner)ہمیشہ اس میں قید رہیں گے، اس میں آگ بھڑکائی جائے گی (fire will be lit) ، ان کے پینے کو کھولتا ہوا پانی (boiling water) دیا جائے گااور عذاب کے فرشتے ان کو خوب ماریں گے اور ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی ۔ وہاں کسی قسم کی ذہانت(intelligence) یا طاقت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اورجہنّم سے آزادی نہ ملے گی،ان کےپاؤں سر کے بالوں سے باندھ دئیے جائیں گےاورگناہوں کی کالک(blackness) سے ان کےمنہ سیاہ (black)ہو جائیں گے،وہ دوزخ میں چیختے چلاتے رہیں گے:اے(جہنّم کے نگران فرشتے) مالک (عَلَیْہِ السَّلَام) ! عذاب پہنچنے کا وعدہ، جو ہمارے لیے تھا وہ سچا ہو چکا،اے مالک! اب ہمیں آزاد کر دو،اے مالک! اب ہم دوبارہ بُرے اعمال نہیں کریں گے۔ دوزخ کے نگران فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَامجواب دیں گے:ہائے افسوس (Alas!)! وقت گزر گیا اب تمارے لئے جہنّم سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، یہیں پڑے رہو اور کوئی بات مت کرو ۔ اگر تمہیں ایک بار اس سے نکال بھی دیا جائے تو تم دوبارہ وہی کرو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے۔اب جہنّمیوں کو بہت زیادہ افسوس ہوگا پھر ان کو مزید آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ ان کے اوپر نیچے، سیدھی طرف، اُلٹی طرف بلکہ ہر طرف آگ ہی آگ ہو گی ، گویاکہ وہ آگ کے اندر ڈوبے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کاکھانا،پینا،پہننا، سب آگ ہی ہوگا۔ وہ دوزخ کی آگ کے ٹکڑوں کے درمیان ہوں گے، اب ان کو ڈامر (تارکول ۔ asphalt)کا لباس پہنایا جائے گا، بھاری بیڑیاں(shackles) پہنائی جائیں گی،وہ جہنّم کی سختیوں سے چیخیں گے اور موت کو پکاریں گے تو ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جو ان کی کھال اور پیٹوں کے اندر کا سب کچھ پگھلا دے گا، اور بہت کچھ ہوگا ۔(احیاء العلوم ج۵،ص ۷۲۱،۷۲۲ ماخوذاً)( ہم اللہ پاک سے اُس کے عذاب (punishment) سے پناہ مانگتے ہیں) اب جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے(sheep) کی شکل میں لا کر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر کوئی آواز دینے والا آواز دے کر جنّتیوں اور جہنّمیوں کو بُلائے گا توجنّت والے ڈر ڈر کر جنّت سے باہر دیکھیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکلنے کا حکم دے دیا جائے اور دوسری طرف جہنّم والے خوشی سے جہنّم کے باہر دیکھیں گے کہ شاید اس مصیبت سے آزادی ملے۔اب جنّتیوں اور جہنمیوں دونوں سے پوچھا جائے گا کہ اس مینڈھے(sheep) کو پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے : ہاں ! یہ موت ہے۔اب سب کے سامنے اُسے ذبح (slaughter)کر دیا جائے گی اور کہے جائے گا : اے جنّت والو! ہمیشہ کے لیے(تم جنّت میں) ہو اب مرنا نہیں ہے اور اے جہنّم والو! ہمیشہ کے لیے(تم جہنّم میں) ہو، اب موت نہیں ، اس وقت جنّتیوں کے لیے خوشی پر خوشی ہوگی اورغیر مسلم ہر طرح کی بھلائی سے نااُمید ہوجائیں گے اور گدھے کی آواز میں چِلّا چِلّا کر اِتنا روئیں گے کہ آنسو ختم ہوجائیں گےاور آنسوؤں کی جگہ خون نکلے گا، روتے روتے گالوں میں گڑھے پڑجائیں گے اور رونے کی وجہ سے اِتنا خون اور پیپ (pus)نکلےگا کہ اگر اُس میں کشتیاں (boats) ڈالی جائیں تو چلنے لگیں(بہار شریعت،۱/۱۶۳تا۱۷۱ماخوذ ا) نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃ(ہم اللہ پاک سے دین، دنیا اور آخرت میں معافی اورسلامتی کا سوال کرتے ہیں) ۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۷۰ تا ۱۷۱ مُلخصاً) جہنّمیوںکے ساتھ ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ بُرے کاموں کا انجام(result) برا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کاموں کو اچھا کریں اور آخرت کی تیاری کریں۔