’’ نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے واقعات‘‘(١٢واقعات)

حکایت(01):رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اطاعت، اللہ پاک کی اطاعت ہے

ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں ، میں تین سال کی عمر کا تھا کہ رات کے وَقت اُٹھا تو دیکھا کہ ماموں نَماز پڑھ رہے ہیں، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا،کیاتُو اُس اللہ کو یاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا فرمایا؟ میں نے پوچھا :میں اسے کس طرح یاد کروں ؟ فرمایا، جب رات سونے لگو تو دل میں تین مرتبہ کہو: اللہ پاک میرے ساتھ ہے، اللہ پاک مجھے دیکھتا ہے اللہ پاک میرا گواہ ہے۔ پھر میں اسی طرح دل میں پڑھتا اور ان کو بتاتا تو وہ پڑھنے کی تعداد(number ) بڑھاتے گئے۔ جب ایک سال گزر گیا تو میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے مرنے تک ہمیشہ پڑھتے رَہنا اِن شاءَ اللہ یہ تمہیں دنیا اور آخِرت میں فائدہ دے گا۔پھر میں کئی سال اکیلے میں(in private ) یہ پڑھتا رہا۔پھر ایک دن میرے ماموں جان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے میرا نام لے کر فرمایا، اے سَہْل! اللہ پاک جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اوراس کا گواہ ہو، کیا وہ اس کی نافرمانی کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا تم اپنے آپ کو گناہ سے بچاؤ ۔ اس واقعے کو بیان کرنے والے لکھتے ہیں: یہ اتنے بڑے بزرگ بن گئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت سے پچیس(25)دن میں ایک مرتبہ کھانا کھاتےاور باقی ساری زندگی (rest of his life) نمک (salt) کھائے بغیر زندہ رہے حالانکہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ نمک کھانا ضروری ہے۔(فیضان سنت جلد اول ص ۵۶ بتغیر) اس حکایت سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمیں پیدا کرنے والا اللہ پاک ہے اور جس نے ہمیں پیدا کیا وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں،وہ ہماری طرح سونے جاگنے (sleeping and waking)سے بھی پاک ہے، وہ تھکتا (tired)بھی نہیں ہے۔ ہمارا اورتمام جہان(universe) کاپیدا کرنے والا وہی ہے تمام جہان کا نظام (system) اسی کی قدرت و اختیار (control) میں ہے وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، سنتا ہے، جانتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کا جو بھی حکم ہو اسے مانیں اور جس کام سے اس نے روکا ہے وہ کام ہرگز نہ کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے۔جب یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے گی تو ان شاء اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔

حکایت (02): جنت میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ساتھ

حضرت رَبیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہپیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےخادِم تھے،فرماتے ہیں کہ میں رات کونبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر رہا کرتا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےوضو وغیرہ کےلیےپانی لایا کرتا تھا،ایک دن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے کرم فرمایا اور آپ نےمجھ سے ارشاد فرمایا : (اے ربیعہ!) مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نےعرض کی:یارسول اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )! میں جنت میں آپ کا ساتھ (یعنی جنّت میں آپ کے قریب جگہ)مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا: اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نےعرض کی: بس یہی ( کافی ہے)۔ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:تو پھر سجدوں کی کثرت(یعنی زیادہ نوافل پڑ ھ ) کر اپنے اس معاملے میں میری مدد کرو۔ ( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)) تجھ سےتجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جائے سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے اس حدیثِ مُبارک سے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی یہ شان معلوم ہوئی کہ اللہ پاک نے نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کودنیاکے تمام خزانے عطا فرمادیئے آپ جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں، خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےفرمایا:مجھے زمین کےخزانوں(treasures of the earth) کی چابیاں دی گئی ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب مایحذرمن زھرۃالدنیا، الحدیث: ۶۴۲۶، ص۵۴۰) اسی طرح اللہ پاک نے آپ کو جنّت کا بھی مالک بنایا ہے، جبھی توآپ نےحضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا:جو چاہو مانگ لو۔ اس حکایت سےدوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اختیارات (authorities) جانتے تھے کہ آپ دنیا کی نعمتیں اورجنت دینے کی طاقت رکھتے ہیں ۔

حکایت(03): نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےسب سے بڑھ کر محبت

مکہ ٔ مکرمہ فتح ہونے سے پہلےمشہورصحابی حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اسلام کے دشمنوں نے پکڑلیا ۔حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو حرم (مکہّ پاک کا کچھ حصّہ اور اس کے علاوہ کچھ علاقے)سے باہر لے جایا گیا،تو ابوسفیان نے(جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) ان سے پوچھا:زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) ہوں اور ہم ان کو شہید کریں اور تم آرام اور سکون سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہو۔حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جواب دیا:اللہ پاک کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضور جہاں کہیں بھی ہیں ان کو ایک کانٹا (thorn)بھی چبھے اور میں آرام و سکون سے اپنے گھر میں رہوں۔یہ سن کر ابوسفیان کہنے لگے کہ میں نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ کسی سے ایسی محبت کی جاتی ہو،جیسی محبت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے صحابہ ان سے کرتے ہیں ۔اسکے بعد حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو شہید کردیا گیا۔ (شرح الشفاء،ج۲،ص۴۴) اس سچے واقعے سے یہ پتا چلا کہ صحابہ ٔ کرام پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے اپنی ہرہر چیز سے زیادہ محبت کرتے تھے یہاں تک کہ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خاطر اپنی جان بھی دے دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت ایمان کا معیار (standard)بلکہ ایمان اسی محبّت کا نام ہے کہ جب تک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں اور ہر چیز سے زیادہ نہ ہو آدمی کامل مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اوریہ بھی معلوم ہواکہ پیارے صحابہ ٔ کرام کو نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو تکلیف پہنچنا پسند نہیں تھا یہاں تک آپ کو ایک کانٹا چبھ جائے یہ بھی صحابہ ٔ کرام کو پسند نہیں تھا۔

حکایت (04): انتقال پر رحمت عالم کے آنسو

حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بیٹے تھے ان کو دودھ پلانے کی ذمہ داری حضرت اُمّ سیف رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تھی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کوحضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہت زیادہ محبت تھی کبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کےلیےتشریف لے جایا کرتے تھے۔ایک روز پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ساتھ حضرت ابراہیم سے ملنے آئےتو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آخری سانسیں لے رہے تھے(یعنی آپ کا انتقال ہونے والا تھا)۔یہ دیکھ کر ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اس وقت عبدُالرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نےارشادفرمایا: میرا رونا ، شفقت(اور محبّت) کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو نکلے تو آپ کی زبان مبارک پریہ جملےجاری ہوگئے کہ:آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل میں غم (grief)ہے مگر ہم وہی بات زبان سےکرتے ہیں جس سے ہمارا ربّ خوش ہو جائے اور بے شک اے اِبراہیم! ہمیں تمہاری جدائی(یعنی انتقال) کا بہت زیادہ غم ہے۔ (بخاری، جلد۲،ص۸۳،ح۱۳۰۳ مُلخصاً) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہت پیار فرماتے تھے اسی لیے آپ کے انتقال پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد سے محبت کرنا پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا طریقہ ہے ۔ تَعَارُف (Introduction): حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے اور سب سے آخری بیٹے ہیں۔آپ کی والدہ اُمّ المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاہیں،آپ ذوالحجہ کےمہینے 8 سنِ ہجری میں مدینہ منورہ کےقریب پیدا ہوئے ۔آپ کا انتقال دس(10) ربیع الاوّل کو ہوا۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم،۴/۱۰،البدایہ والنہایہ۴/۳۰۱) جنّتی شہزادےرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب پیدا ہوئے، تو اُس کی خبرحضرت ابو رافع رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دی۔ یہ خو ش خبری (good news)سن کر ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انعام میں حضرت ابو رافع رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ایک غلام دے دیا( پہلے ایک انسان دوسرے کا مالک بن جاتا تھا، مالک کو جو ملا وہ غلام ہوا، آج کل غلام نہیں ہوتے )۔ اس کے فوراً بعد حضرت جبرئیل عَـلَـيْهِ السَّلَام آئے اور پیارے آقا کو ’’یااباابراہیم ‘‘ (اے ابراہیم کے والد) کہہ کر پکارا،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہت خوش ہوئےاور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے (rams) ذبح فرمائے(بچے کی پیدا ہونے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور ذبح کیا جائے،اسے عقیقہ کہتے ہیں)۔ اس کے بعد پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ان کےسر کے بال کےوزن کے برابر چاندی(silver) خیرات(یعنی صدقہ) فرمائی اور ان کے بالوں کو(زمین میں) دفن کرادیا اور ان کا نام ''ابراہیم'' رکھا ۔

حکایت (05):نور والے

اللہ پاک کے پیارے نبی مُحمّد عَرَبِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو سب سے پہلے حضرتِ بی بی آمِنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے تقریباً 7دن دودھ پلایا پھر چند دن حضرتِ ثُوَیْبہ(ثُ۔وَیْ۔بَہْ) رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے،اس کے بعدسے حضرتِ بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے 2سال کی عمر تک دودھ پلایا ۔بی بی حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پیار ے پیارے مکّی مَدَنی نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بچپن شریف کے بارے میں فرماتی ہیں : اللہ پاک کے پیارے حبیب حضرتِ محمد مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا پیار ا پیارا نور والا چِہرہ رات کے وقت اِتنا زیادہ چمکتاتھا کہ اُجالا کرنے کیلئے چَراغ (oil-lamp) جلانے کی ضَرورت نہ ہوتی ،ایک روزہماری پڑوسن مجھ سے کہنے لگی:اے حلیمہ!کیا آپ اپنے گھر میں رات کے وَقت آگ جلایا کرتی ہیں کہ ساری رات آپ کے گھر میں سے پیاری پیاری روشنی نظر آتی ہے ! بی بی حلیمہ فرماتی ہیں ،میں نے کہا:یہ آگ کی روشنی نہیں بلکہ حضرتِ مُحمّدمَدَنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے نور والے چہرے کی روشنی ہے۔(ماخوذاز:تفسیر الم نشرح ص ۱۰۷) اس حدیث شریف سے سیکھنے کوملا کہپیارے حبیب حضرتِ محمد مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نور والے ہیں۔ ہمارے حُضُور سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بے شک انسان تو ہیں مگر نور والے انسان اور سارے انسانوں کے سردار ہیں۔ نور والا آیا ہے ہاں نور لے کر آیا ہے سارے عالَم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے (نور والا چہرہ ص ۷ تا ۹)

حکایت (06): میرے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا مسُکرانا

اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سَحری کے وَقت کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک سوئی گرگئی اور چَراغ بھی بُجھ گیا۔ اتنے میں رَحمت والے آقا،نور والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تشریف لے آئے۔ چہرہ مُبارکہ کی روشنی سے سارا گھر روشن ہوگیا حتی کہ سوئی مل گئی۔اُمُّ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی: ’’یارسُولَ اللہ(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)! آپ کا چہرہ مُبارکہ کتنا روشن ہے ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کیلئے ہَلاکت(یعنی تباہی) ہے جو مجھے قیامت کے دن نہ دیکھ سکے گا۔ عرض کی:وہ کون ہے جو آپ کو نہ دیکھ سکے گا۔فرمایا:وہ بَخیل (کنجوس)ہے۔پوچھا :’’ بَخیل کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: جس نے میر انام سنا اور مجھ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھا۔ (القول البدیع،الباب الثالث فی التحذیر من ترک الصلاۃ علیہ عندذکرہ، ص۳۰۲) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نور والے ہیں اور محروم ہے وہ شخص جو نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا نامِ مُبارک سنے مگر دردو پاک نہ پڑھے۔ یاد رہے! زندگی میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور جس مجلس میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ذکر ہو وہاں ایک بار درود شریف پڑھنا واجب ہے،اگر مجلس میں پڑھ نہ سکے تو بعد میں لازمی پڑھیں بلکہ جب بھی، جتنی بار بھی ہمارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ذکر ہو ، ہر مرتبہ درودِ پاک پڑھنا چاہیے۔(بہارِ شریعت ج۱، ح۳،ص۵۳۳ ماخوذاً)

حکایت (07): یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم آپ کے صَدقے

حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنیَف رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے راویت ہے کہ ایک نابینا صَحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضِرہو کر عَرْض کی: اللہ پاک سے دُعا کیجئے کہ وہ مجھے عافیَّت(یعنی سلامتی) دے۔ ارشاد فرمایا:’’ اگرتم چاہو تو میں دُعا کروں اور اگر چاہو تو صَبْر کرو اور یہ تمہارےلئے بہتر ہے۔‘‘انہوں نے عَرْض کی:حُضُور! دُعا فرمادیجئے ۔ انہیں حکم فرمایا کہ وُضو کرو اوراچّھا وُضو کرو اور دو رَکْعَت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ اَتَوَسَّلُ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِط یَامُحَمَّدُ ۱ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ ط اللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیّ ط اے اللہ میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں اور وسیلہ (یعنی صَدَقَہ)پیش کرتا ہوں تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا جو نبیِّ رَحمت ہیں اور تیری طرف توجّہ کرتا ہوں ۔ یَامُحَمَّد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!میں آپ کے ذَرِیعے سے اپنے ربّ کی طرف اپنی ضرورت پیش کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔یا اللہ! ان کی شَفاعت میرے حق میں قَبول فرما۔حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :’’ خدا پاک کی قسم ! ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے ،باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے گویا کبھی نابینا ہی نہیں تھے!‘‘( ابنِ ماجہ ج ۲ ص ۱۵۶ حدیث ۱۳۸۵،تِرمذی ج۵ص۳۳۶حدیث۳۵۸۹،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج ۹ ص ۳۰ حدیث ۸۳۱۱ ) نوٹ:پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس دعا میں ’’یَا محمد‘‘(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کے الفاظ ارشاد فرمائےمگر بزرگانِ دین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ادب سکھایا ہے کہ ہم یا رسولَ اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم) کہیں گے( فتاویٰ رضویہ ج ۳۰ ص۱۵۶،۱۵۷ ماخوذاً) اس حدیث شریف سے یہ سیکھنے کو ملا کہ اللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یارسول اللہ کہنا اور اللہ پاک کو اُن کا وسیلہ اور واسطہ دینا،صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا طریقہ ہے بلکہ خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہ طریقہ بتایا ہے۔

حکایت (08): پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے صحابی کی محبّت

ایک صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ پاک میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مبارک روضہ پر حاضر ہوئے اور پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مبارک قبر پر اپنے گال (cheeks) رکھ دیئے۔مدینۂ منورہ کے گورنرمروان نے دیکھا تو کہا: کچھ خبر ہے،کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟فرمایا :میں اینٹ،پتھر کےپاس نہیں آیا ہوں،(بلکہ) میں اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا ہوں۔ (المسندلامام احمد بن حنبل، الحدیث:۲۳۶۴۶، ج۹، ص۱۴۸) اس روایت سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دنیا سے جانے کے بعد بھی پیارے آقا سے بہت زیادہ عشق ومحبت کرتے تھے اور آپ کا ادب ایسا ہی کرتے تھے جیسا کہ آپ جب صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی نظروں کے سامنے ہوتے تھے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےدنیا سے جانے کےبعد صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم آپ کی مبارک قبر پرحاضر ہوتے اور برکتیں حاصل کرتے تھے ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی تعظیم (respect) جس طرح اُس وقت فرض اورضروری تھی جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دنیا میں موجودتھے، اب بھی اُسی طرح فرض ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی کسی بات یا کام یا حالت کو جو نفرت کی نظر سےدیکھے گا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔

حکایت (09): کل کی بات بتادی

حضرتِ سیِّدَ تُنااُنَیْسَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : مجھے میرے والد صاحب نے بتایا : میں بیمار ہوا تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میری عِیادت (یعنی طبیعت پوچھنے)کے لئے تشریف لائے اور مجھےدیکھ کر فرمایا: تمہیں اس بیماری سے کچھ نہیں ہو گا (یعنی تم زندہ رہو گے)لیکن اُس وقت کیا ہو گا جب تم میری وفات کے بعد لمبی زندگی گزار کر نابینا ہو جاؤ گے ؟ (یعنی آنکھ سے دیکھ نہ پاؤگے) یہ سن کر میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )!میں اس وقت ثواب کی نیّت سےصَبْر کروں گا ۔ فرمایا:اگر تم ایسا کرو گے توبِغیر حساب کے جنَّت میں چلےجاؤگے۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی (یعنی آنکھوں نے دیکھنا بند کر دیا)، پھر ایک وقت کے بعد اللہ پاک نے ان کی آنکھیں روشن کر دیں اور(اب وہ دیکھنے لگے پھر) ان کا انتِقال ہو گیا۔ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِیّ ج۶ص۴۷۹، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ پتا چلا کہ اللہ پاک کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اپنے ربّ کے دیے ہوئے علم سے اپنے غلاموں کی موت کے وقت کو بھی جانتے ہیں اوران کے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے اسے بھی جانتے ہیں ۔

حکایت (10):میں تمھیں بتاؤنگا

ایک مرتبہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے صحابَۂ کرام سے فرمایا: میری اُمّت مجھ پر ایسے پیش کی گئی جیسے حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلاَم پر پیش کی گئی تھی تو میں نے جان لیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ بات جب منافقین (یعنی وہ کافر جو ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کراپنے آپ کومسلمان کہتے تھےمگر دل سے ایمان نہیں لاتے، غیر مسلم ہی ہوتے تھے، جب یہ بات ان)تک پہنچی تو انہوں نے کہا: مَعَاذَاللہ محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ قیامت تک کون اِن پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرےگا ؟اور یہ دیکھو کہ ہم ان کے ساتھ ہیں(اِن پرایمان نہیں لائے) اور وہ ہمیں نہیں جانتے۔ (العجاب فی بیان الاسباب ،جلد۲،ص۷۹۸) منافقوں کی اس طرح کی باتوں کے بعد، ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منبر (muslim pulpit یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں،اس)پر کھڑے ہوئےاور اللہ کریم کی حمد(یعنی تعریف) کرنے کے بعد فرمایا:ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم کے خلاف باتیں کرتے ہیں پھر فرمایا: تمہارے اور قیامت کے درمیان جو کچھ بھی ہے تم مجھ سے ان میں سے جس چیز کے بارے میں سُوال کرو گے میں تمہیں بتا دوں گا۔ حضرتِ سیّدُنا عبد اللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی: يارسولَ اللّٰه! میرا والد کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: حُذافہ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی: يا رسولَ اللّٰه! ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )، ہم اللہ پاک کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے، قراٰن کے امام اور رہنما(leader)ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں، اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے ہمیں معاف فرما دیجئے۔نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دو مرتبہ فرمایا: تو کیا تم باز آئے ،تو کیا تم باز آئے (یعنی اپنی ایسی حرکتوں سے رُکتے ہو؟)، پھر منبر سے نیچے تشریف لے آئے اس پر اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ ترجمہ (Translation) : اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو!تمہیں غیب کا علم دے دے،ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے ۔(پ ۴،اٰل عمرٰن:۱۷۹) (ترجمہ کنز الایمان)(خازن،پ۴، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:۱۷۹،ج۱،ص۳۲۸) اس قرآنی واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت علم دیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے علم شریف کے خلاف بولنا مسلمان کا کام نہیں، غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔

حکایت (11):نُور کا کِھلونا(Toy)

حضرتِسیِّدُناعبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہ (جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا اور جنّتی صحابی ہیں) سےروایت ہے کہ آپ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’ یارَسُولَ اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! مجھے توآپ کے نبی ہونے کی نشانیوں نے اسلام میں داخِل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ (بچپن میں )آپ جُھولے میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ فرماتے تو جس طرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اشارہ فرماتے چاند اس طرف جُھک جاتا۔ حُضُور پُر نُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’میں چاندسے باتیں کرتاتھااور چاندمجھ سے باتیں کرتاتھا او ر وہ مجھے رونے سے روکتاتھااورجب چاند اللہ پاک کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا، اس وقت میں اُس کی تَسْبِیْح کرنے( یعنی اللہ کریم کی پاکی بیان کرنے) کی آواز سنا کرتاتھا۔(الخصائص الکبرٰی ج ۱،ص ۹۱مُلخصاً) چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں (مہد یعنی جھولا) کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے آقا مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے کیسی طاقت عطا فرمائی تھی کہ آپ بچپن میں اِشارے سے چاند کو جس طرف چاہتے لے جاتے تھے ۔جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور آپ کی عمر تقریباًاڑتالیس(48) سال ہوگئی تو مکّے کے کافروں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھانے کا کہا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اِشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر کے دِکھا دیا۔ (مدارج النبوۃ ،ج۱،ص۱۸۱مُلخصاً)(نُور کا کھلونا ص ۶ تا ۷مُلخصاً)

حکایت(12): پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ہرنی کی مدد فرمائی

حضرت سیدتنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہيں کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کھلےمیدان ميں تھےکہ کسی نے پکارا :’’يا رسول اللہ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) !‘‘ آپ نے اس طرف توجہ کی لیکن کوئی نظر نہ آيا، پھر توجہ فرمائی تو ايک ہرنی (female deer) کو جال ميں بندھا ہوا(tied to a net) پايا اس نےعرض کی:يارسول اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم)!ميرےقر يب تشريف لائيے۔آپ اس کےقر يب ہو گئےاور پوچھا :تجھے کيا کام ہے؟اس نےعرض کی: اس پہاڑ پر ميرے دوبچے ہيں،آپ مجھے آزاد فرما دیں تا کہ ميں انہيں دودھ پلا کر آپ کےپاس واپس آجاؤں۔آپ نے اس سے ارشاد فرمايا : کيا تم ايسا ہی کرو گی؟اس نے عرض کی: اگر ميں ايسا نہ کروں تو اللہ پاک مجھے وہی عذاب دے جوظلماً ٹيکس لينے والوں کو دے گا۔تو آپ نے اسےآزاد کر ديا، وہ چلی گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس بھی آگئی۔آپ نے اسے دوبارہ باندھ ديا،شکاری یہ سب منظر دیکھ رہا تھا اور وہ یہ سب دیکھ کر بہت متاثر(impressed) ہوا اور عرض کی:يا رسول اللہ(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )!آپ کا میرے لیے کیا حکم ہے؟آپ نے فرمايا:’’ اسے آزاد کردو‘‘تو شکاری نے ہرنی کو آزاد کر ديااور وہ دوڑکرجاتے ہوئے پڑھ رہی تھی: اَشْھَدُاَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ ۔ ترجمہ:میں گو اہی دیتی ہو ں کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبو د نہیں اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں۔ (المعجم الکبیر،الحدیث:۷۶۳،ج۲۳،ص۳۳۱) اس حکایت اورسچے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ جانور بھی نبی ٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اطاعت کرتے اورآپ کا حکم مانتےہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ جانور اپنے کاموں کےلیےنبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سےمدد بھی مانگتے ہیں اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ان کی مشکلات دور بھی فرماتے ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم كی تعلیم (teaching) جانوروں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ جانوروں پر رحم کرنا ہے۔