’’ خاتونِ جنّت اور اُمَّہَاتُ المؤمنین کے واقعات

عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُکہتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:

(۱)ابوبکر جنّتی ہیں ،(۲) عمر جنّتی ہیں ،(۳) عثمان جنّتی ہیں ،(۴) علی جنّتی ہیں ،(۵) طلحہ جنّتی ہیں ،(۶) زبیر جنّتی ہیں ، (۷)عبدالرحمن بن عوف جنّتی ہیں ،(۸) سعد بن ابی وقاص جنّتی ہیں ،(۹) سعید بن زید جنّتی ہیں ،(۱۰) ابو عبیدہ بن الجراح جنّتی ہیں ۔ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ)(ترمذی،کتاب المناقب، ۲/۲۱۶، حدیث: ۳۷۶۸)

حکایت(01): ’’پہلے رونے لگیں پھر ہنسنے لگیں‘‘

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں : ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی شہزادی(یعنی بیٹی) خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بلایا اور کان میں کوئی بات فرمائی وہ بات سن کر خاتونِ جنّت رونے لگیں ، پھر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے کان میں کوئی دوسری بات فرمائی تو اب خاتونِ جنّت ہنسنے لگیں ، حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : میں نے (حضرت) فاطمہ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ) سے کہا: آپ کے بابا جان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ کے کان میں کیا فرمایا جو آپ روئیں اور دو سری بار کیا فرمایا جو آپ ہنسیں ؟ خاتونِ جنّت نے کہا: میرے بابا جان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پہلی بار اپنی وفاتِ ظاہِری کے بارے میں بتایا(کہ اب میں دنیا سے جانے والا ہوں) تو میں روئی اور دوسری بار فرمایا کہ گھر والوں میں سے سب سے پہلے میں (یعنی حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا )حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )سے ملوں گی(کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے انتقال کے بعد ، گھر والوں میں سے سب سے پہلے میرا انتقال ہوگا)، تو میں ہنسنے لگی۔ (صَحِیْحُ الْبُخَارِی،کتاب المناقب، ص۹۲۰، الحدیث:۳۶۲۵،۳۶۲۶ ملتقطاً) اس حدیث ِ مُبارک سے پتا چلا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنی شہزادی سے اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کواپنے بابا جان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے بہت محبّت تھی ۔اور یہ بھی پتا چلا کہ اللہ پاک کے دیے ہوئے علم سے،ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آنے والے وقت میں ہونےوالی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ، بنتِ مُصطفیٰ،خواتینِ جنّت کی سردار، فاطمۃُ الزّہرۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زِیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ مع شَرْحُ الزُّرْقَانِی، ج۴، ص۳۳۱)۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اس (یعنی میری بیٹی) کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ پاک نے اِس کو اور اس سے محبّت کرنےوالوں کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ (کَنْزُ الْعُمَّال،کتا ب الفضائل، ج۱۲، ص۵۰، الحدیث:۳۴۲۲۲)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دُنْیا میں رہتے ہوئے بھی دُنْیا سے الگ تھیں لہٰذا ’’بَتُول‘‘ لقَب(title) ہوا۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے جسْم سے جنّت کی خوشبو آتی تھی، اِس لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا لقَب ’’زَہراء ‘‘ یعنی کَلی ہوا( پھول نکلنے سے پہلے،چھوٹی سی کَلی ہوتا ہے ، بعد میں وہی کَلی خوبصورت پھول بن جاتی ہے)۔(مِراٰۃُ الْمَنَاجِیْح،کتاب المناقب ، ج۸، ص۴۵۲، نعیمی کتب خانہ، مُلخصاً) خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان: {1} آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سر سے پاؤں تک حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ملتی جُلتی تھیں {2} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرح چلتی تھیں{3} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو آتا دیکھتے تو خوشی سے کھڑے ہو جاتے اور اپنی جگہ بٹھا لیتے{4} حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی شہزادی رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو جنّتی لوگوں کی بیویوں یا مومنوں کی بیویوں کی سردار ہونے کی خوشخبری(good news) دی ۔ (مراٰۃالمناجیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل،ج ۸،ص۴۵۳ تا ۴۵۵)

حکایت (02): ’’جنّت کا پھل‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نےایک دن پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے جنّت کا پھل دیکھنےکی خواہش کی تو حضرت جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَام آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس جنّت سے دو (2)سیب لے کر حاضر ہو گئے اور عرض کی: یارسول اللہ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )! اللہ پاک فرماتا ہے: ایک(1) سیب آپ کھائیں اور دُوسرا (حضرت) خدیجہ کو کھلائیں پھر(حضرت) فاطمہ پیدا ہوں گی ۔ تو حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ ٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے کہنے کےمطابق ایک سیب خودکھا یا ا ور دوسرا (2nd ) حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو کھلایا۔ جب حضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا پیدا ہوئیں تو ساری فضا(یعنی ہوا) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کے چہرے(یعنی منہ) شریف کے نور(یعنی روشنی ) سے نور والی ہو گئی۔ نور والے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو جب جنّت اور اس کی نعمتوں کا شوق ہوتا تو اپنی چھوٹی سی شہزادی حضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو چوم لیتے اور ان کی پاک خوشبو کو سونگھتے اور فرماتے :فَاطِمَۃُ حَوْرَاءُاِنْسِیّۃٍ یعنی فاطمہ توانسانی حُور ہے۔(الروض الفائق فی المواعظ و الرقائق، ص۲۷۴ملخصاً) اس حدیث مُبارک سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بہت ہی پیارا خاندان دیا ہے۔ ہمیں سب اُمھات المؤمنین ، اولادِ پاک اور سب اہل بیت (آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گھر والوں)سے محبّت کرنی چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بارے میں حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا: اللہ کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا(اور مجھے نہ مانا) اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھوٹا کہہ رہے تھے اس وقت انہوں نے میری باتوں کو سچّا کہا اور جس وقت کوئی شخص مجھے کچھ دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں سےاﷲ پاک نے مجھے اولاد عطافرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،ج۴،ص۳۶۳) حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تمام اولادحضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ہوئی۔ مگر حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے پیدا ہوئے۔حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے دو (2)شہزادے حضرت قاسم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہوئے اور شہزادیاں حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ، حضرت اُمّ کلثوم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہوئیں۔ ( اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید، ج۷،ص۹۱)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ایک مرتبہ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ پاک کے رسول! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں تو اِن کو اِن کے ربّ کا سلام پہنچائیں۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

حکایت(03): ’’ پیاری امّی جان کا ہار(necklace)‘‘

ایک جگہ سے مسلمانوں کا قافلہ مدینہ پاک واپس آرہا تھا کہ راستے میں کہیں رُکا،تواُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کسی ضرورت سے کونے (corner)میں تشریف لے گئیں ، وہاں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کاہار (necklace) ٹوٹ گیا تو آپ اُسے ڈھونڈنے لگیں ۔ دوسری طرف قافلے والے یہ سمجھے کہ سب لوگ پورے ہیں اور وہاں سے قافلہ چل پڑا۔ جب حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا واپس تشریف لائیں تو ا س خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ مجھے ڈھونڈنےکے لئےقافلہ ضرور واپس آئے گا۔پہلے عام طور پر یہی ہوتا تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی ہوئی چیز اُٹھانے کے لئے کسی آدمی کی ذمہ داری (responsibility)لگائی جاتی تھی ۔ اس قافلے میں یہ کام حضرت صفوان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا تھا۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز(loud) سے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(ترجمہ: ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) ‘‘ کہا۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پردے میں تھیں ۔ انہوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو اس پر بٹھا دیا اور خود اونٹ کو لے کر پیدل چلتے رہے اورقافلے والوں کے پاسں پہنچ گئے ۔ اس وقت منافقین (یعنی وہ کافر جوکلمہ پڑھ کراپنے آپ کومسلمان کہتے تھےمگر دل سے ایمان (believe)نہیں لائے تھے ، غیر مسلم ہی تھے، ان لوگوں) نے غلط باتیں پھیلائیں ۔ دوسری طرف اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا بیمار ہوگئی تھیں اور ایک مہینے تک بیمار رہیں تو انہیں کسی بات کا پتا نہیں چلاکہ اُن کے بارے میں منافقین کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایک دن اُن کو پتا چل گیا تو آپ اور زیادہ بیمار ہوگئیں۔ اس وقت پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوئی(یعنی اللہ پاک کا پیغام (message)آیا) اور اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ عَنْہَا کی پاکی میں قرآنِ پاک کی آیتیں اُتریں اورمدینے والے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےمنبر شریف( یعنی ایسی سیڑھیاں، جن پر امام صاحب کھڑے ہو کر جمعے کے دن عربی میں ایک قسم کا بیان کرتے ہیں) پر کھڑے ہو کر فرمایا: میں اپنے اہل (یعنی گھر والوں)کے بارے میں بھلائی (goodness) کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱) حضرت علی مرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا کہ ایک جوں(lice) کا خون لگنے سے اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نعلین(یعنی مُبارک چپل ) اتارنے کا حکم دیا توجب اللہ پاک آپ کی نعلین شریف ( یعنی چپل مُبارک) پراتنی سی (بُری) چیزکو پسند نہیں فرماتا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اہل(یعنی گھر والوں) میں غلط چیزوں کو رکھے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۷۲، ملخصاً) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں: اللہ پاک نے قرآن کریم میں سترہ(17) آیتیں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کی پاکی میں نازل فرمائیں جو قیامت تک مسجدوں میں، محفلوں میں تلاوت کی جائیں گی۔(فتاوی رضویہ جلد۲۹،ص۱۰۸مُلخصاً) احادیثِ مُبارکہ میں موجود واقعے اور قرآن کی آیتوں کے نازل ہونے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّکی بہت بڑی شان ہے کہ جب ہماری پیاری امّی جان پر لوگوں نے اعتراض (objection)کیا(باتیں بنائیں ) تو اللہ پاک نے قرآنی آیتوں میں اس کا جواب دیا۔ یاد رہے!حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پر تہمت یعنی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاکی پاکدامنی پر بے شرمی کے الزام لگانے والا یقیناً کافر ہے۔(بہارِ شریعت ح۱،ص۲۶۱ مُلخصاً)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا:تم تین(3) راتیں مجھے خواب میں دکھائی گئیں ایک (1) فرشتہ تمہیں (یعنی تمہاری صورت)ریشم کے ( خوبصورت کپڑے کا) ایک ٹکڑے میں لے کر آیااوراس نے کہا:یہ آپ کی زوجہ ہیں(دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی) ان کاچہرہ کھولئے۔ پس میں نے دیکھاتووہ تم تھیں میں نے کہا:اگریہ خواب اللہ پاک کی طرف سے ہے تووہ اِسے پوراکرے گا۔ (صحیح مسلم،الحدیث۲۴۳۸،ص۱۳۲۴ مع سنن الترمذی،الحدیث۳۹۰۶،ج۵،ص۴۷۰) حضرت ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں: ہمیں کسی حدیث(پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے فرمان ) کے بارے میں کوئی مشکل ہوتی(یعنی فرمان سمجھ نہ آتا) تو ہم حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے پوچھتے اوروہ اس کے بارے میں بتا دیتیں(یعنی سمجھا دیتیں)۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،الحدیث:۳۹۰۸،ج۵،ص۴۷۱)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی شہزادی فاطمۃ(رَضِیَ اللہُ عَنْہَا) سے فرمایا:اے فاطمہ! رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جس سے میں محبّت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبّت کرو گی؟ حضرت فاطمہرَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کیا: ضرور یارسول اللہ ! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں محبّت رکھوں گی۔ اس پر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :تم عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے محبّت رکھو۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،الحدیث۲۴۴۲،ص۱۳۲۵)

حکایت (04): ’’باتوں میں بھی امانت ہوتی ہے‘‘

حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنی شہزادی حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح کے لئے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ُسے کہا مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ، اس کے بعد حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ُسے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو حفصہ کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں ! اس پر ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بھی خاموش رہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگا۔ اس بات کے کچھ دن بعد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرتِ حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح کاپیغام (message)دیا اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کانکاح حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کردیا۔ پھرحضرت ِ ابو بکر صدیق نےحضرت عمر سے فرمایا کہ شاید آپ اس وقت مجھ سے ناراض ہوگئے تھے جب آپ نے مجھے نکاح کا کہا تھاا ور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا : جی ۔ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: مجھے پتا تھا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے راز کی بات (secret) کو چھپائے رکھا۔ اگرحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انہیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کرلیتا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،، ج۸، ص۶۵،ملخصاً) اس حدیث ِپاک سے معلوم ہوا کہ کسی کی راز کی بات(secret) دوسرے کو نہیں بتانی چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ حفصہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ،امیرُالمومنین حضرتِ عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بیٹی تھیں اور مزاج و عقلمندی(wisdom) میں بھی اُن کی طرح کی تھی،نفلی روزے بہت رکھتیں ، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر عبادات بہت کرتیں ۔ عبادت کے ساتھ ساتھ انہیں دین کے مسئلوں اور حدیث شریف کا بھی بہت علم تھا۔(سیرت مصطفیٰ، ص۶۶۳،ملخصاً)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان
ایک مرتبہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضرہوکرعرض کی:(حضرت حفصہ) راتوں کو عبادت کرنے والی، بہت ر وزے رکھنے والی اورجنّت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی زوجہ ہیں۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،الحدیث۳۰۶،ج۲۳،ص۱۸۸) ہماری پیاری امّی جان رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال حضرتِ امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے زمانے میں ہوا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے پاک میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن کیا گیا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۴)

حکایت (05):’’’پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بدن کا ادب‘‘

ایک جگہ سے واپسی پرہمارے پیارے پیارے آقا ،مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے پیر مبارک سواری(ride) پر رکھے تاکہ حضرتِ صفیّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے قدموں کو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ران(thigh) پر رکھ کر سواری پر بیٹھ جائیں ۔ حضرتِ صفیّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نےاپنے پیر کی جگہ ، اپنی ران(thigh) کو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ران پر رکھا اور سواری کے اوپر بیٹھ گئیں ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج۸،ص۹۶) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کا کتنا ہی بڑا مقام ہو مگر اُ س پر بھی حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب لازم اور ضروری ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا تعَلُّق(relation)بنی اسرائیل(یعنی حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم) سے تھا اور یہ (حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی)حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد سے ہیں۔ (المواہب اللدنیۃ،ج۱، ص۴۱۲) ہماری پیاری امّی جان،حضرتصفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جنگِ خیبر کے قیدیوں(prisoners) میں آئیں ۔ یہ دحیہ کلبی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے حصّہ میں آئیں لوگوں نے کہا وہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ، سردار کی بیٹی بھی ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے، کہ وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کےپاس ہوں ۔ پھر خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں خرید کر آزاد فرمادیا اور نکاح فرمالیا ۔(مدارج النبوت،قسم سوم،ج۲،ص۲۴۹)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا دل خوش کرنے کے لیے، ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تم ایک نبی (حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام)کی اولاد میں ہو اور تمہارے چچاؤں میں بھی ایک نبی ( حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام) ہیں اور تم ایک نبی کی بیوی بھی ہو یعنی میری بیوی ہو۔ (تفسیر صاوی،ج۵، ص۱۴۹۴، پ۲۶، الحجرات:۱۱)

حکایت (06):’ ’’اللہ پاک سے مشورہ‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمّ المؤمنین، حضرت زَیْنَب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آئے اور کہا کہ تمہیں خوشی(یعنی مُبارک) ہو کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تمہارے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے کہا:میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی جب تک کہ میں اپنے ربّ (یعنی اللہ پاک ) سے مشورہ نہ کرلوں ۔ پھر وہ اٹھیں اوراپنی نماز کی جگہ پر گئیں اور سجدہ کر کے اللہ پاک سے عرض کیا: اے اللہ! تیرے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کے لائق(یعنی قابل) ہوں تو تومجھے اُن کے نکاح میں دے دے۔ اسی وقت اُن کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیت نازل ہوئی،ترجمہ (Translation) : ہم نے آپ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۲،الاحزاب:۳۷) پھرآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :کون ہے جو زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس جائے اور انہیں خوشخبری دے کہ اللہ پاک نے ان کو میرے نکاح میں دے دیا ہے؟حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خادمہ حضرت سلمی رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھاگتی ہوئی گئیں اور حضرتِ زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو یہ خوشخبری (good news) سُنا دی ۔ یہ بات سنتے ہی حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنے زیورات (jewelry) اُتار کر حضرت سلمی رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو تحفے(gift)میں دےدیئے اور شکر انے کا سجدہ کیا پھر دو (2)مہینے روزے سے رہنے کی نذر مانی(یعنی اپنے اوپر لازم کیا کہ وہ دو مہینے روزے رکھیں گی)۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۷) اس حدیث ِ مُبارک سے پتا چلا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب بہت ضروری ہے۔صحابیہ کو بھی خوف ( یعنی ڈر) تھا کہ کیا میں پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے نکاح میں آ کر ان کا ادب کرسکتی ہوں یا نہیں؟ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نسبت(یعنی تعلق) رکھنے والی ہر چیز(مثلاً آپ کے فرمان، سنّت، مدینے پاک ) کا بہت زیادہ ادب (respect)کریں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ زَیْنَب بنت جحش رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام بَرّہ تھا۔ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نام بدل کر زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا رکھا۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۵) بُرّہ کے معنیٰ ہے نیک اور پرہیزگار، اپنے منہ سے اپنے آپ کو نیک کہنا یا اس طرح کے نام رکھنا، پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو پسند نہ تھا۔ اس وجہ سے اُمّ المؤمنین کا نام بدل دیا۔ ایک مرتبہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کیا:مجھے چند فضیلتیں(اچھی چیزیں ) ایسی ملی ہیں جوآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی کسی اور زوجہ(یعنی بیوی) کو نہیں ملیں ۔ ایک یہ ہے کہ میرے جد ّ(یعنی دادا وغیرہ)اورآپ کے جد ّایک ہیں (یعنی اوپر سے خاندان ایک ہی ہے)،دوسرایہ کہ میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرا یہ کہ اس نکاح کے معاملے میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام گواہ(witness) تھے۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۸)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے کوئی عورت حضرت زَیْنَب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے زیادہ نیک کام کرنے والی،صدقہ و خیرات کرنے والی،رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے والی،اور اپنے آپ کوہرعبادت کے کام میں مصروف(busy) رکھنے والی نہیں دیکھی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۸) ایک دن اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم (یعنی اُمھات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ) میں سے میری وہ زوجہ (یعنی بیوی) سب سے پہلے وفات پا کر مجھ سے ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ سن کر سب نے ایک لکڑی سے اپنا ہاتھ ناپا (measure کیا)تو حضرت سودہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا تھا لیکن جب حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد اُمھات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ میں سے سب سے پہلےہماری پیاری امّی جان ، حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے وفات پائی تو اس وقت لوگوں کو پتا چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد صدقہ زیادہ کرنے والی تھا۔ کیونکہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرتی تھیں اور اس سے آنے والی رقم فقیروں پر صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۷۶ تا ۴۷۸ وغیرہ)

حکایت (07): ’’چار(4)کلمات‘‘

حضرتِ جُوَیْرِیَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فجر کی نما ز کے وقت میرے پاس سے تشریف لے گئے اور(سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد) چاشت کی نماز ادا فرمانے کے بعد تشر یف لائے تو میں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پوچھا: جب میں تمہیں یہاں چھوڑ کر گیا تھا تو کیاتم اُس وقت سے اِسی طرح بیٹھی ہو ؟ میں نے عر ض کیا: جی ہا ں! تو فرمایا: میں نے یہاں سے جانے کے بعد چا ر(4) کلمات (یعنی چار جملے)تین (3)تین مرتبہ پڑھے ہیں،اگر انہیں تمہارے آج کے تمام ذکر کے ساتھ وزن (weight)کیاجائے تو میں نے جو پڑھا ہے، اُس کا وزن زیادہ ہوگا، وہ کلمات یہ ہیں: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ (ترجمہ:اللہ پاک کے لیے پاکی اور حمد(یعنی تعریف) ہے ، اللہ پاک کی مخلوق(all creatures) کی تعداد (number)کے برابر اور اللہ پاک کی رضا کے برابر اور اللہ پاک کے عرش کے برابراور اللہ پاک کے کلمات (words)کی روشنائی (ink)کے برابر)۔(صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ،رقم ۲۴۲۶، ص۱۴۵۹مُلخصاً) یاد رہے! اللہ پاک کی مخلوق کی تعداد، اللہ پاک ہی جانتا ہے اور جسے اللہ پاک اس کا علم دے، وہ جانتا ہے ۔ اللہ پاک کی رضا، اللہ پاک کا عرش، اللہ پا ک کے کلمات کی روشنائی بھی اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے اور جسے وہ اس کا علم دے، وہ جانتا ہے ۔ اس حدیثِ پاک اورسچے واقعے سے معلوم ہوا کہ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ پڑھنے کا بہت ثواب ہے، ہمیں یہ تسبیح بھی پڑھنی چاہیے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پاس حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ پاک سے چاند چلتا ہوا میری گودمیں آگیا، یہ خواب میں نےکسی کو نہیں بتایا اور میں خود اس خواب کا مطلب سمجھ گئی اور پھر ایسا ہی ہوا(کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمالیا)۔ (مدارج النبوت، قسم۵، ج۲، ص ۴۸۰) ہماری پیاری امّی جان ،حضرتِ جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا پہلا نام بھی بَرَّۃ(نیکی کرنے والی ) تھا،پیارے آقا، مدنی مُصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کا نام بدل کر جُوَیریہ رکھ دیا ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی یہ کہے ’’بَرَّہ کے پاس سے نکل آئے ‘‘(بَرَّہ کے معنی نیکی و احسان کے ہیں(۔(مسلم، کتاب الآداب، ص۱۱۸۲، حدیث : ۲۱۴۰)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ میں جویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سب سےزیادہ خیر(یعنی بھلائی)اوربرکت والی ہیں ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲، ص ۴۸۰مُلخصاً)

حکایت (08):’’نفلی حج سے منع کردیا‘‘

حضرت سعد بن ابی وقاصرَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنی ماں کے بڑے فرمانبردار(باتیں ماننے والے obedient) تھے۔ہرحکم مانتے اور کبھی اپنی ماں کی نافرمانی(disobedience) نہ فرماتے تھے ۔ آپ کی ماں غیر مسلم تھی اور اپنے دین پر سختی سے عمل کرتی تھی۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو آپ کی غیر مسلم ماں بہت پریشان ہوئی اور کہنے لگی: اے میرے بیٹے! یہ تو نے کیا کیا؟ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا؟تو نے آج تک کبھی میری نافرمانی نہیں کی! اب تو میری یہ بات بھی مان اور اسلام چھوڑ دے، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ميں نہ توکھاؤں گی اور نہ پیوں گی، بھوکی پیاسی (hungry and thirsty)مر جاؤں گی ۔ میری موت تیری وجہ سے ہوگی اور لوگ تجھے ماں کا قاتل (killer)کہئیں گے۔يہ کہہ کر واقعی(really) اس نے کھانا پينا چھوڑ ديا، دھوپ ميں بیٹھ گئی، اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی۔ سُبْحَانَ اللہ! قربان جائیےحضرت سعد بن ابی وقاصرَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اللہ پاک اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے محبّت پر، ماں کی یہ حالت (condition)دیکھ کر بھی آپ ایمان(faith) پر ہی رہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عشق ومحبت بھرےانداز میں گویا یوں فرمايا: اے میری ماں! اگر کوئی دنیاوی بات ہوتی تو میں ہر گز تیری نافرمانی(disobedience) نہ کرتا مگر یہ معاملہ(case) اللہ پاک کے دین اور نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبّت کا ہے، تیری ایک جان توکیااگرسو(100)جانيں بھی ہوں اور ايک(1) ايک کر کے سب قربان کرنا پڑیں تو سب کوقربان کردوں مگردینِ اسلام اور اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ )تفسیر البغوی، العنکبوت، تحت الایۃ:۸، ج۳، ص۳۹۶ ماخوذا) اب تمھاری مرضی ہے کہ کھانا کھاؤیا نہیں،جب ماں نے یہ بات سنی تواُس نے کھاناکھالیا۔(ابن عساکر، حرف السین، ذکر من اسمہ سعد، ۲۰ / ۳۳۱ مُلخصاً) اس سچے واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ والدین کی بہت اہمیّت(importance) ہے، دنیاوی کام (جو شریعت نے منع نہیں کیے) میں اُن کی بات فوراً مانی جائے اگرچہ غیر مسلم ہوں( مثلاًکھانا مانگیں تو دیں، دوائی منگوائیں تو لا کر دیں)۔اگر والدین کسی دینی لازم کام(جیسے:فرض، واجب یا سنّت مؤکدّہ) کو کرنے سے روکتے ہوں تب بھی وہ کام کریں گے (اور اب والدین کی بات نہیں مانیں گے) یا کسی گناہ(مثلاً فلم دیکھنے، گانوں کے پروگرام میں جانے) کا حکم دیں تو اُن کی بات نہیں مانیں گےلیکن اُن کے ساتھ کسی طرح کی بد تمیزی(rudeness) بھی نہیں کریں گے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اللہ پاک کی نافرمانی کے کاموں میں کسی کی اطاعت جائزنہیں ، اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ (صحیح مسلم ، ج۳،ص ۱۴۹۶ ، حدیث۱۸۴۰)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابی، حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہاُن دس(10) صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ میں سے ایک(1) ہیں کہ جنہیں خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےایک ساتھ جنّت کی خوشخبری(good news) سنائی۔ جنّتی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان: حضرت سالم بن عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ ایک دن ہم پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اس دروازے سے ابھی ایک جنّتی شخص آئےگا۔تو ہم نے دیکھاکہ اس دروازے سےحضرت ِسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہاندر آئے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل من قسم الافعال، الحدیث: ۳۷۱۰۸، ج۱۳، ص۱۸۰)

حکایت(09):’’مہاجرین اور انصار‘‘

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو مکّے کے غیر مسلموں نے بہت زیادہ تنگ کیا اور مسلمانوں کو بھی بہت تکلیفیں دیں پھر اللہ پاک نے مسلمانوں کو مکّے پاک سے مدینے شریف جانے کا حکم دیا تو ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ساتھ لے کر مکّے پاک سے مدینہ شریف آ گئے اور مسلمانوں میں سے جس سے جس طرح ہو سکا، مدینے پاک پہنچے۔ جو مکّے سے آئے وہ مہاجر ہوئے اور جو مدینے میں پہلے سے تھے وہ انصار ہوگئے۔انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے مہاجرین صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا بہت ساتھ دیا۔ کسی انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کوآدھا گھر دے دیا، کاروبار میں شریک (partner)کر لیا وغیرہ وغیرہ۔ غزوہ اُحد (ایک جنگ)سے جب واپس آرہے تھے توابو سفیان (جو اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے) کہنے لگے کہ اگلے سال(next year) بدر (کی جگہ)میں ہم تم سے جنگ کریں گے ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’اِنْ شَآءَ اللہ ! ‘‘ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان مکّے والوں کو لے کر جنگ کے لیے آئے تو اللہ پاک نے ان کے دل میں ڈر ڈالا اور انہوں نے واپس جانے کا ذہن بنالیا ۔ اب ابوسفیان کی نُعَیْم بن مسعود سے ملاقات ہوئی تو کہاکہ اگر تم مدینے جاؤ اور کسی طرح بھی مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں آنے سے روک دو تومیں تمھیں دس (10)اونٹ دوں گا۔ نُعَیْم نے مدینے شریف پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں تو اُن سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو اور مکّے والے بہت بڑا لشکر(trop )لے کر آئے ہوئے ہیں۔ خدا کی قسم !تم میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ آئے گا۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: خدا کی قسم، میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ستر (70)صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو ساتھ لے کر ’’ حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ پڑھتے ہوئے چلے گئے اور بدر میں پہنچے ، وہاں آٹھ (8)دن رُکے، تجارت (trade)کا سامان ساتھ تھااسے بیچا(saleکیا)، بہت فائدہ ہوا اور پھر سلامتی کے ساتھ مدینہ شریف واپس آئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۱ / ۳۲۵-۳۲۶) اسی سال ایک اور جنگ کے بعد انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس جنگ میں جو مال ملا وہ سب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس مال میں سے کوئی چیز نہیں لیں گے تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہاَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآءَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآءَ اَبْنَآءِ الْاَنْصَارِ۔یعنیاے اﷲ! انصارپر،اورانصارکےبچوں پراورانصارکے بچوں کے بچوں پررحم فرما۔ (مدارج جلد۲ ص۱۴۸) اسی سال ہماری پیاری امّی جان،اُمّ المؤمنین، حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات ہوئی۔( مدارج النبوت ، قسم سوم ،ج۲،ص۱۴۹،۱۵۰) حدیثوں میں موجود اس واقعے سے ہمیں یہ سیکھنے کوملا کہ مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ کسی ملک، کسی قوم، کسی شہر، کسی قبیلے(tribe)، کسی برادری(community) سے تعلق(belong) رکھتے ہوں، سب کے سب مکّی مدنی عربی آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے غلام اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ زینب بنت ِ خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا غریبوں، مسکینوں سے بہت محبت کرتیں اور ان کی مدد بھی کرتیں۔یہاں تک کہ جب آپ ایمان نہ لائی(یعنی مسلمان نہ ) تھیں ، اُس وقت بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو اُمُّ المَساکین پکارا جاتا۔ اُمّہاتُ المومنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّمیں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے علاوہ صرف آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا ہی نے خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں انتقال کیا، اور حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے انہیں دفن (buried)فرمایا ۔( اُمّہات المؤمنین،ص۳۸ مُلخصاً) اُمّہاتُ المومنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّمیں صرف آپ ہی کا جنازہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پڑھایا۔
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ہماری پیاری امّی جان ،حضرت ِ زینب بن خزیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ان(نیک) عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لیے ہبہ(یعنی گفٹ) کردی تھیں۔(مراۃ ج۵،ص۱۷۱، مُلخصاً) ان کے بارے میں اللہ پاک نے یہ آیت ِمبارکہ ناز ل فرمائی: ترجمہ (Translation) : اور تم انہیں جو کچھ عطا فرماؤ اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں ۔ (ترجمہ کنز العرفان) (پ۲۲، سورۃ الحزاب، آیت ۵۱)

حکایت(10):’’سب سے بہتر‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرت ِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کے انتقال کے بعد وہ دعا کیا کرتی تھی جو پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کےلیے بتائی تھی۔وہ دعا یہ ہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ طاَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا(ترجمہ : ہم الل ہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے (یعنی واپس ہونے)والے ہیں ط اے اللہ! مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر عطا فرما )۔ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں کہتی تھی کہ ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہتر کون ہوگا؟لیکن پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسے پڑھنے کا فرمایا تھا تو میں پڑھا کرتی تھی ۔ پھر اللہ پاک نے مجھے ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بہتر عطا فرما دیے اور وہ اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تھے۔ ( صحيح مسلم، كتاب الجنائز، ص۳۲۹، الحديث:۹۱۸، مُلخصاً) اس حدیث شریف سے یہ درسlesson) )ملا کہ مُصیبت پر شور کرنے کے جگہ اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ پاک چاہے گا تو آسانیاں مل جائیں گی۔یاد رہے! کسی کے انتقال پر آنسو آجانے اور رونے میں کوئی گناہ نہیں۔البتہ میّت کی جو عادتیں تھیں،اُنہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا،زور زور سے چلا کر رونا ، شور مچانا یہ ناجائز اور گناہ ہے(بہارِ شریعت ج۱، ح۴، ص ۸۵۴ماخوذاً)اورکسی کے انتقال پر اللہ پاک کے فیصلوں(decisions) پر اعتراض(objection) کرنا جیسے اے اللہ تو نے میرے دوست کو کیوں لےلیا ؟ابھی تو یہ چھوٹا تھا یا جوان تھا یا ابھی تو اس نے اپنی یا اپنے بچوں کی شادی بھی نہیں کی تھی ۔ اس طرح کے جملےکہنا بہت خطرناک ہے کہ اللہ پاک پر اعتراض(objection) کرنا، اُس کو ظالم (یعنی ظلم کرنے والا)سمجھنا یا کہنا یہ سب کُفر ہیں ۔اس طرح کے جملے کہنے سے بندے کا ایمان بھی چلاجاتا ہے (یعنی وہ مسلمان نہیں رہتا)اورزندگی کے تمام نیک اعمال ختم ہوجاتے ہیں ۔(28 کفریہ کلمات ،ص ۲ماخوذاً) یاد رہے! کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نےاس طرح کی کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو، آپ کے شوہر ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے انتقال کے بعدحضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے اپنی اپنی طرف سے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے ان کے پیغام کو قبول (accept)نہ فرمایا پھر جب خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف سے نکاح کا پیغام آیا تو کہا: ’’مَرْحَبًا بِرَسُوْلِ اللہ‘‘(یعنی اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خوش آمدید welcome) ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۷۵) اُمّ المؤمنین حضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال اُمّہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں ہوا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو دنیا کے سب سے زیادہ فضیلت والے قبرستان جنّت البقیع(جو کہ مدینے میں مسجد نبوی کے ساتھ ہے) میں دفن(buried) کیا گیا۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
امامُ الحرمین کا بیان ہے کہ میں حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے علاوہ کسی عورت کو نہیں جانتا کہ اُن کی رائے (یعنی مشورہ)ہمیشہ درست ہو۔ صلح حدیبیہ کے دن جب ( کافروں نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، تو) رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کرکے سب لوگ احرام کھول دیں (یعنی عمرے والے جو لباس پہنے ہیں وہ اتار کر دوسرے لباس پہن لیں) اور بغیر عمرہ کئے سب لوگ مدینے شریف واپس چلے جائیں کیونکہ اسی شرط(condition) پر صلح (reconciliation with each other) ہوئی ہے۔ تو لوگ قربانی نہیں کررہے تھے ۔حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پریشان ہوگئے تو حضرت بی بی اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے یہ مشورہ دیاکہ یارسول اﷲ!( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اورخوداپنی قربانی ذبح کرکے اپنا احرام اتار کر دوسرا لباس پہن لیں۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایسا ہی کیا،جب لوگوں نے دیکھا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے احرام کھول دیا ہے تو سب نے اپنی اپنی قربانیاں کرکے احرام اتار کر کپڑے بدل لیے اور سب لوگ مدینہ شریف واپس چلے گئے۔(زرقانی جلد۳ ص۲۳۸ تا ۲۴۲ و اکمال و حاشیۂ اکمال ص۵۹۹مُلخصاً) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “ میں موجود ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چند بال مبارک حضرت اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے پاس تھے ، جب کوئی شخص بیمار ہوتا تھا تو ایک برتن میں پانی بھر کر بھیج دیتا تھا ۔ ہماری پیاری امّی جان اُس پانی میں ان مبارک بالوں کو دھو کر واپس کردیا کرتیں تھیں۔ بیمار آدمی شفا حاصل کرنے کے لئے اس پانی کو پیتے تھے( یا اس سے غسل کرلیتے تھے اور بیماری ختم ہو جاتی تھی)۔
(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الثیب،الحدیث۵۸۹۶،ج۴،ص۷۶)

حکایت(11):’’پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بستر کا ادب‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے والد ابو سفیان مدینے پاک میں اپنی بیٹی سے ملنے آئے اور بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے بستر ہٹا دیا اور فرمایا یہ اللہ پاک کے پاک رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا پاک بستر ہے اور آپ شرک ( ) کی وجہ سے ناپاک ہیں، اس لیے آپ اس بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔ابو سفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضرتِ ابو سفیان ایمان لاکر صحابی بن گئے رَضِیَ اللہُ عَنْہُاور آپ کے بیٹے اور اُمُّ المؤمنین حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بھائی ،حضرت ِامیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہیں کہ جو وحی لکھا کرتے تھے ۔ حضرت ہند رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اِ ن کی والدہ اورحضرتِ ابو سفیانرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بیوی اور صحابیہ ہیں۔ یوں یہ خاندان صحابہ اور صحابیات کا خاندان ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ اس سچی حکایت سے پتا چلا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ادب والدین اور دنیا کے ہر شخص سے زیادہ ہے۔
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا شروع ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں۔(الطبقات الکبری لابن سعد،ج۸،ص۷۶)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک شخص مجھے ’’یااُمّ َالمؤمنین‘‘ کہہ رہا ہے، تو میں سمجھ گئی کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مجھ سے نکاح فرمائیں گے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ج۸،ص۷۷)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
ہماری پیاری امّی جان ،اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے انتقال کا وقت قریب آیا توانہوں نے حضرتِ عائشہ اورحضرتِ اُمّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے کہا کہ مجھے وہ باتیں معاف کردو جو ایک شوہر کی بیویوں کے درمیان ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کو معاف فرمائے ہم نےبھی معاف کیا۔ اُمُّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے کہا اللہ پاک تمہیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،ج۲،ص۴۸۱)

حکایت(12):’’کُتّے گھروں میں نہ رکھیں‘‘

ہماری پیاری امّی جان، اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہتی ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک دن صبح کو پریشان تھے اور یہ فرمایا کہ:جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آج رات میں ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر وہ میرے پاس نہیں آئے۔ اللہ کی قسم اُنھوں نے وعدہ خلافی نہیں کی(یعنی اُن کے نہ آنے کی کوئی وجہ ہے)۔اس کے بعد حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خیال ہوا کہ خیمے(مکان وغیرہ) کے نیچے کُتے کا ایک بچہ ہے، اُسے نکالنے کا حکم دیا۔ پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اُس جگہ کو دھویا۔ شام کو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے، توحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کل رات آپ نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا،پھر کیوں نہیں آئے؟ عرض کی، ہم اُس گھر میں نہیں آتے جس میں کُتا اور تصویر ہو۔
(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،الحدیث:۸۲-(۲۱۰۵)،ص۱۱۶۵)
اس حدیث ِمُبارک اورسچے واقعے سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ گھروں میں شوقیہ(بغیر ضرورت کے) کتّے نہیں رکھنے چاہیئں۔ حضرت علّامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بعض بچے کتوں کے بچوں کو شوقیہ(کھیلنے وغیرہ کے لیے) پالتے اور گھروں میں لاتے ہیں ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو اس سے روکیں اور اگر وہ نہ مانیں تو سختی کریں ۔( جنتی زیور، ص۴۴۱) کتے سے مراد بغیر ضرورت صرف شوق کے لیے پالا ہوا کتاہے(مراۃ جلد۱،ص۴۳۹ مُلخصاً)حفاظت (security)کے کتے کا یہ حکم نہیں(مراۃ جلد۵،ص۷۸۸) یعنی حفاظت(security کے لیے کتے رکھ سکتے ہیں مگر شوقیہ نہیں رکھ سکتے۔ یہ بھی یاد رہے کہ! صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور اُمّہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ کا زمانہ(age)، تربیت(training) کا زمانہ تھا،اس میں شرعی حکم آہستہ آہستہ بتائے جارہے تھے ۔ جب انہیں کوئی نیا شرعی حُکم یا نیا دینی مسئلہ بتایا جاتا تو فوراً اُس پر عمل کرتے۔ تصویر سے مراد جاندار(مثلاً انسان یا جانور) کی تصویریں ہیں جو شوقیہ بلاضرورت ہوں اور احترام(respect) سے رکھی جائیں لہذا نوٹ، روپیہ ،پیسہ کی تصاویر اور وہ تصویریں جو زمین پر ہوں اور پاؤں میں آئیں ، ان کی وجہ سے فرشتے آنے سے نہیں رُکتے۔بچوں کی گڑیاں رکھنا اور بچوں کا ان سے کھیلنا جائز ہے(مراۃ جلد۶،ص ۳۳۰مُلخصاً) اہم بات! ٹی وی پر نظرآنے والا انسان ،تصویر نہیں بلکہ عکس(یعنی سایہshadow) ہے۔جس طرح آئینے (mirror)میں نظرآنے والاعکس تصویرنہیں ،پانی پراورچمکدا رچیز مثلا اسٹیل(steel) اورپالش کئے ہوئے ماربل(marble) پربننے والا عکس تصویر نہیں۔ اسی طرح شعاعوں(rays) سے بننے والےعکس کو تصویرنہیں کہہ سکتے ۔(ٹی وی اور مووی ص۲۶ ماخوذاً)
تَعَارُف (Introduction):
جنّتی صحابیہ،اہل ِ بیتِ مُصطفیٰ، اُمُّ المؤمنین، حضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو جب خاتَمُ النَّبِیِّین، اِماَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو اُس وقت وہ اونٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے فرمایا: اونٹ اورجواس پرہے اللہ اوراس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے ہے۔(التفسیر القرطبی،الجزء الرابع عشر، الاحزاب:۵۰،ج۷،ص۱۵۴)مکّۂ مکرَّمہ سے باہرمدینہ روڈ پر ’’نَوارِیہ‘‘کے قریب آپ کا مزراشریف آج بھی موجود ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر(construction)کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر (tractor) اُلَٹ جاتا تھا، لھذااس کےچاروں طرف دیوار بنا دی گئی۔ ہماری پیاری امّی جان مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان مرحبا! (عاشقانِ رسول کی 130حکایات ص۲۴۴،۲۴۵مُلخصاً)
اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی شان:
اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہم میں سب سے زیادہ اللہ پاک سے ڈرنے والی اور صلۂ رحمی(رشتہ داروں سے اچھا سلوک ) کرنے والی تھیں۔
(مستدرک،ج۵، ص۴۲، حدیث:۶۸۷۸)