رمضان کے آخری جُمُعَے کابیان

(22)رمضان کے آخری جُمُعَے کابیان :

ایک بزرگ(یعنی نیک آدمی) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رَمَضان کے آخری جمعہ کے دن اللہ پاک کے نیک بندے حضرت منصور بن عمار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس گئے تووہ رَمضان شریف کے روزوں اور راتوں کی عبادت کےثواب کے بارے میں بتا رہے تھے پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اے لوگو! کیا یہ توبہ کا مہینا نہیں ؟ کیا یہ معافی ملنے کا مہینا نہیں ؟ کیا اس پیارے مہینےمیں جنت کے دروازے نہیں کھولے جاتے؟ کیا اس میں جہنَّم کے دروازے بند نہیں کئے جاتے؟ کیا اِس میں شیطانوں کو بند نہیں کیاجاتا؟ توتمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اتنے بڑے ثواب سے دور ہو اور نیک کام کرنے کی جگہ گناہ کرتے رہتے ہو۔ اللہ پاک سےتوبہ کرو! یہ سنتےہی سب لوگ زور زور سے رونے لگے۔ایک جوان روتا ہوا کہنے لگا: یہ بتائیں کہ کیا میرے روزے قبول (accepted)ہوئے ؟ کیا میرارمضان کی راتوں میں عبادت کرنا (نماز پڑھنا، تراویح پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا،قرآن پاک کی تلاوت سُننا)قبول ہوا؟ اور مجھ سے تو بہت سارے گناہ بھی ہوئے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اے لڑکے! اللہ پاک سے توبہ کرو، کیونکہ اُس نے قراٰنِ پاک میں اس کا حکم (order)دیا ہے۔یہ سن کراُس نے زور سے چیخ ماری(scream) اور کہا: ’’ اللہ پاک کا اِحسا ن (favour)مجھ تک پہنچتا رہا لیکن پھر بھی میں گناہ کرتا رہا ‘‘ پھر اُس نے دوبارہ چیخ ماری اور وفات پا گیا۔

پیارے بچّو اور اچھی بچّیو! اس حكايت سے یہ پیاری بات پتا چلی کہ رمضان کے مہینے میں، گناہ کرنے والوں کو بھی معاف کر دیا جاتا ہے، تو ہمیں اس مہینے سے محبّت کرنی چاہیے، اس کے آنے پر خوش ہونا چاہیے اور اس کے جانے پر افسوس (grief)ہونا چاہیے۔

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)