(6) سورج واپس آگیا:
ایک مرتبہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہیں دور سے آ رہے تھے، راستے میں عصر کا وقت ہو گیا، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے عصر کی نماز پڑھی ، اس کے بعد حضرت على رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے گھٹنے پر اپناپیاراسررکھ کر لیٹ گئے اور نیند آگئی۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی ،اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ختم ہورہا ہے، مگر ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں اپنا پاؤں ہٹاتا ہوں تو کہیں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری نیند خراب(disturb) نہ ہوجائے، اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے سر کونہ ہٹایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا(اور نماز کا وقت ختم ہو گیا) جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی پیاری آنکھ کُھلی تو حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنی نماز نہ پڑھنے کی بات بتائی۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو سورج واپس آگیا اورحضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز عصر ادا کی پھر سورج ڈوب ( sun set ہو) گیا۔(معجم كبير،24/145،حدیث:382،الشفا،1/284)
پیارے بچّو اور اچھی بچّیو! ! اس حدیث شریف سےپیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہاللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایسی طاقت دی ہے کہ چاہیں توسورج کو واپس بُلا لیں۔
(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)