(50)وعدہ پورا کیا :
حُضُورغوثِ پاک سَیِّد عبدُالْقادِر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں عِلْمِ دِیْن حاصل کرنےکےلیے جیلان(اپنے گاؤں) سے(دوسرے شہر) بغداد شریف جانے والوں کے ساتھ چلا گیا،جب ہم اپنے گاؤں سےآگے چلے گئے تو ساٹھ ڈاکو (sixty robbers) آگئے اور سب لوگوں کا سامان اور پیسے لے لیےلیکن کسی نے مجھے کچھ نہ کہا،ایک ڈاکو میرے پاس آکر پُوچھنے لگا:اے لڑکے!تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟میں نے جواب میں کہا:ہاں۔ڈاکونے کہا: کیاہے؟میں نے کہا:’’چالیس سونے کے سکےّ ‘‘ (Forty gold coins)۔ اس نے پوچھا:کہاں ہیں؟میں نے کہا :’’میرے کپڑوں میں ہیں۔‘‘ڈاکواس بات کو مذاق (joke)سمجھا اور چلا گیا،اس کے بعد دُوسرا ڈاکو آیااور اس نے بھی یہی پوچھا: تمھارے پاس کچھ ہے؟ میں نے اُسے بھی کہا: ’’چالیس سونے کے سکےّ ‘‘ (Forty gold coins)۔یہ سن کر وہ بھی چلا گیا۔ جب سب ڈاکو اپنے سردار (master)کے پاس جمع ہوئے اور اُنہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایاتو اُس نے مجھے وہاں بُلا لیا ۔ ڈاکوؤں کا سردار(master)مجھ سے کہنے لگا:تمہارےپاس کیاہے؟میں نے پھر وہی کہا: ’’چالیس سونے کے سکےّ ‘‘ (Forty gold coins)ہیں۔سردارنے ڈاکوؤں کوکہا:اس لڑکےکو چیک کرو۔ جب میری قمیص کو دیکھا تو اُس میں پیسے تھے، اب اُس نےحيران(surprised)ہوکرسُوال کیا:’’تم نے سچ سچ کیوں بتادیا؟ ‘‘(یعنی اگر تم جھوٹ بول دیتے تو تمھارے پیسے بچ جاتے)میں نے کہا: میری امّی نےمجھ سے ہمیشہ سچ بولنے کاوعدہ لیا تھا۔يہ سُن کرڈاکوؤں کا سردار(master)رو کر کہنے لگا: اس بچے نے اپنی ماں سے وعدہ کیا اور اس وعدے کونہیں توڑا اور میں نے ا پنی ساری زندگی اللہ پاک کے وعدوں کوتوڑا ہے ! اسی وَقْت سرداراور اس کےسب ساتھیوں نے توبہ کی کہ اب ڈاکہ نہیں ڈالیں گے اور سب لوگوں کا مال (اورسامان وغیرہ)بھی واپس کر دیا۔ (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ ،ص168)
پیارے بچّو اور اچھی بچّیو!
اس سچّے واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہیئے۔امّی ابّو کی جائز باتیں ماننی چاہیئں اور ہر جگہ سچ ہی بولنا چاہیئے۔اور یہ پیاری بات بھی پتا چلی کہ ہمارے غو ثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے بچپن ہی میں علمِ دین حاصل کرنے کےلئے دوسرے شہر چلے گئےتو ہمیں بھی بچپن ہی میں نماز کاطریقہ اور دوسرے دینی علم سیکھنے چا ہئیں ۔
(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)