مسجد میں جاتے رہے

(33)مسجد میں جاتے رہے:

دین کے مسائل (یعنی اسلام نے یہ کام کرنے کا کہا اور اس سے منع کیا) بتانے والی کتاب’’بہارِ شریعت‘‘ لکھنے والے ،حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسجد میں حاضر ہو کرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے(اذان دینے والے) مؤذِّن صاحِب وقت پر نہیں آتے تو آپ خود اذان دیتے۔ مکان سے مسجد دور تھی اور نظر کمزور ہوچکی تھی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ فجر کی نماز کے لئے جا رہے تھے ،راستے میں ایک کُنواں (well)تھا،ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی خراب تھا ، تو کنویں (Well) کے قریب چلے گئے اور اُس کے سوراخ میں قدم رکھنے والے تھے، اتنے میں ایک عورت آگئی اور زور سے بولی: ’’ رُک جائیں! ورنہ کنوئیں میں گر جائیں گے!‘‘ یہ سن کر مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رُک گئےاور دوسرے راستے سے مسجد چلے گئے۔ (تذکرۂ صدرالشریعہ ص31)

پیارے بچّو اور اچھی بچّیو! اس حكايت( یعنی سچّے واقعے) سے معلوم ہوا کہ ہمارے بہت بڑے عالم، مفتی امجد علی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عادت تھی کہ مسجد میں آکرنماز پڑھتے تھے، سات سال کے بچوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ، مردوں کے پیچھے لائن میں نماز پڑھنی چاہیئے۔جب مسجد میں آنا ہے تو دوڑنا نہیں ہے، ہنسنا نہیں ہے، شور نہیں کرنا اور باتیں بھی نہیں کرنی۔

(مدنی چینل دیکھتے رہیئے)