والدین کے لیے

اس تحریر میں آپ جان سکیں گے

اولاد کو کب کیا سکھائیں


جہاں تک اولادکو سکھانے کی بات ہے تو قراٰنِ پاک سکھائے، سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دینے کے ساتھ ہی نماز اور طہارت کے ضَروری مسائل بھی سکھائے کہ سات سے نو برس کی عمر بچوں کی تَربیت کے تعلق سے بالخُصُوص بچیوں کے لیے بےحد اَہم ہے کہ بچیاں اس کے بعد کبھی بھی بالغہ ہو سکتی ہے۔ ان عُلُوم کے سکھانے کے ساتھ ساتھ شرعی تقاضوں کے مطابق دنیوی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔ والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے سیکھنے سیکھانے کے چند حقوق یہ ہیں: زبان کھلتے ہی” اللہ ‘‘،”اللہ ‘‘پھر ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ‘‘پھر پورا کلمۂ طیبہ سکھائے۔جب تمیزآئے اَدب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اُٹھنے، بیٹھنے،چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ، استاذ وغیرہ کا ادب سکھائےاور دُختر (یعنی بیٹی) کوشوہرکی اِطاعت کے طُرُق (یعنی طریقے) و آداب بتائے۔  قرآنِ مجید پڑھائے۔استاذ نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ، سِنّ رسیدہ (یعنی بڑی عمر)کے سپرد کردے اور دُختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔بعد ختمِ قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ عقائدِ اسلام و سنَّت سکھائے کہ لوح سادہ فطرتِ اسلامی وقبولِ حق پرمخلوق ہے (یعنی چھوٹے بچے دینِ فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں یہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا) اس وقت کابتایا پتھر کی لکیر ہو گا۔حضورِ اقدس، رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبت وتعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصلِ ایمان وعینِ ایمان ہے۔حضورپُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے آل و اَصحاب و اولیاء و علما کی محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصلِ سنَّت و زیورِ ایمان بلکہ باعثِ بقائے ایمان ہے(یعنی یہ محبت ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے)۔سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔علمِ دِین خُصوصاً وُضو،غسل، نماز و روزہ کے مَسائل توکل، قناعت، زُہد، اِخلاص، تواضع، اَمانت، صِدق، عدل، حیا، سلامتِ صُدُور و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل ،حرص وطمع ، حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، رِیا، عجب، تکبُّر، خِیانت، کِذب، ظُلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا بُرائیوں کے رَذائل(یعنی بُری صفات) پڑھائے۔ خاص پسر (یعنی بیٹے)کے حقوق سے یہ ہے کہ اسے لکھناسکھائے۔ سورۂ مائدہ کی تعلیم دے۔ اِعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔ خاص دُختر (یعنی بیٹی) کے حقوق سے یہ ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بلکہ نعمتِ اِلٰہیہ جانے، اسے سینا،پرونا، کاتنا ،کھانا پکانا سکھائے اورسورۂ نور کی تعلیم دے(فتاویٰ رضویہ،۲۴/۴۵۵مُلخصا)۔

چند اہم مشورے :

(1)3سال کی عمر تک بچے کے سامنے ، سکھانے کی نیّت سے” اللہ ‘‘،”اللہ ‘‘کہیں تاکہ اُس کےمنہ سے پہلا لفظ ” اللہ “ ادا ہو اور جب کچھ لفظ بولنے لگے تو لفظ ” اللہ “ بولنے کا عادی ہو جائے

(2)3 سے 4 سال کی عمر میں پورا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) سکھائیں۔

(3)) 4 سال کی عمر سے ” مدنی قاعدہ“کی ترکیب فرمائیں۔ بعض بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ وہ بچوں کی ”رسمِ بِسْمِ اللہ“(یعنی بِسْمِ اللہ شریف پڑھانے کی تقریب)4 سال،4 ماہ اور4 دن کی عمر میں کرتے ہیں۔ ۔

(4)4 سال کی عمر سے بچوں کو کھانے، پینے کے آداب (مثلاً ہاتھ دھو کر کھانا، بیٹھ کر کھانا، سر ڈھک کے کھانا وغیرہ)، چلنے پھرنے کے، بات چیت کے، کپڑے صحیح طرح پہننے کے، حیاء کے آداب سیکھانا شروع کر دے۔ یہ عمر ابتدائی ادب سیکھانے کے لحاظ سے اہم ترین ہے۔

(5)5 سال کی عمر سے بچوں کو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیاءِ کرام(عَلَیْہِمُ السَّلَام)کے معجزات، صحابہ کرام و اہلِ بیتِ اطہار(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) کے واقعات،اولیاء کرام(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ) کی کرامات سنانا اور نعتوں و منقبتوں کے چند اشعار یاد کروانا شروع کردیں، ہو سکے تو گھر پر وقتاً فوقتاً بزرگوں کی نیاز فاتحہ کا بھی سلسلہ ہو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ بچپن سے ہی ان بچوں کے دلوں میں بزرگوں کی محبت پیدا ہو جائے گی اور بچپن کی محبت ممکن ہے مرتے دم تک باقی رہے(حکایات اور واقعات سنانےکے لیے بھی www.farzuloom.netمُفید ہے)۔۔

(6)) 5 سے 7 سال کی عمر تک محبت اوراپنائیت کے ساتھ علماء، قاری صاحب، امام صاحب، استاد صاحب اور بڑوں کا ادب سیکھائیں۔ اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اولاد والدین کا بھی ادب کرے گی اور شادی کے بعد بچی اپنے شوہر کا احترام کرے گی۔۔

(7)اسلامی تاریخ کے مطابق جس دن یہ 7 سال کے ہوں، ممکن ہو تو اس دن گھر میں (پردے اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ) کوئی تقریب رکھ کر ، زندہ ہو توباپ ورنہ سرپرست(guardian) اسے نماز کا حکم دےتاکہ نماز کی اہمیت اس کے بلکہ خاندان بھرکے بچوں کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے۔ اس عمر سے بچوں کی نماز کی کاپی بنالیں ،ہو سکے تو روزانہ اس سے نماز پڑھنے کی کارکردگی خود لیں اور کاپی میں ٹک لگائیں، اِنْ شَاءَ اللہ !یہ عمل بچوں کو نمازی بنانے کے لیے مُفید ثابت ہوگا۔ امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب”فیضانِ نماز” صفحہ54 پر فرماتے ہیں: جب بچّے سات سال کے ہوجائیں تواُن سے پانچوں وَقت کی نماز ادا کروائیے تاکہ نماز کی عادت پکی ہو۔ ان کوصبح سویرے اُٹھنے اور وضو کر کے نماز پڑھنے کی عادت ڈلوایئے، مگر سردیوں میں وضو کے لئے قابلِ برداشت گرم پانی دیجئے تاکہ وہ ٹھنڈے پانی سے گھبرا کر وضو اور نماز سے جی نہ چرائیں ۔ والد صاحب کو چاہیے کہ بیٹا جب سات سال کا ہو جائے تو اُسے اپنے ساتھ مسجِد میں لے جائیں لیکن پہلے اُسے مسجد کے آداب سے آگاہ کردیں کہ مسجد میں شور نہیں مچانا، اِدھر اُدھر نہیں بھاگنا، نمازیوں کے آگے سے نہیں گزرنا وغیرہ ۔نمازِ باجماعت میں اُسے مردوں کی آخری صف کے بعد دوسرے بچوں کے ساتھ کھڑا کریں ۔ اس حکمت عملی کی بدولت اِنْ شَاءَ اللہ بچّے کا مسجد کے ساتھ روحانی رشتہ قائم ہوجائے گا ۔ بچوں کو بھی اے بھائیو! پڑھوایئے نماز خود سیکھ کرکے ان کو بھی سکھلایئے نماز ۔

(8)سات(7) سال کی عمر سے اس کا”اللہ پاک “کے تعلق سے یہ ذہن بنانا بھی شروع کریں: اللہ پاک قریب ہے، وہ سب جانتا ہے، ہر آواز سنتا ہے، ہر چیز دیکھتا ہے، وہ جو چاہے کرے، ہماری طرح اس کے ہاتھ پاؤں نہیں ہیں۔ ہماری عقل چھوٹی ہے اور اللہ پاک کی شان بہت بہت بہت بڑی ہے۔

(9)ہمارے ہاں عام طور پر ” روزہ کُشائی“ کی رسم کی جاتی ہے۔پہلی بات طاقت ہو تو بچوں کوسات سال کی عمر سے روزہ رکھوانے کا حکم ہے البتہ اگر بچے میں روزہ رکھنے کی طاقت اور روزے کو سمجھنے کی صلاحیت سات سال کی عمر سے پہلے ہی ہو تو اسے پہلے ہی روزے رکھوائے جائیں۔دوسری بات روزہ رکھنے کے بعد اگر اسے بھوک و پیاس کی شدّت ہے تو کھانا دینا لازم ہے اور اس روزے کی قضاء بھی نہیں۔” روزہ کُشائی“ والے دن بھی اگر بچے کوسخت بھوک یا پیاس ہوئی تو کھانا پانی دینا ہوگا لھذا اس رسم کی جگہ یوں کیا جائے کہ سات(7) سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد جو پہلا رمضان آئے،اس کے پہلے روزے میں باہتمام بچے کو سحری کروائی جائے اور گھر والے اس کے لیے دعا بھی کریں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔۔

(10)7 سے 9 سال کی عمرشرعی مسائل اور دینی تربیت کے لیے سب سے اہم ترین وقت ہے۔ نماز کاحکم دینے کے بعد اب نرمی سے نماز کی طرف لائیں، ہوسکے تو الارم(alarm) وغیرہ کے ذریعے خود اُٹھنے کا عادی بنائیں، اوقات نماز دیکھنا سیکھائیں اور نقشۂ نماز(namaz calendar) اسے دلوائیں، ساتھ ساتھ نماز، سورۂ فاتحہ و دیگر سورتیں اوراذکارِ نماز(جو کچھ نماز میں تلاوت کے علاوہ پڑھا جاتا ہے) بھی درجہ بہ درجہ سیکھائیں۔سب سے پہلے لفظ ” اَللہُ اَکْبَر“، سورۃ الفاتحہ، کوئی ایک سورت، اَلتَّحِیَّات اور سلام سیکھائیں اور اس کی اچھی طرح مشق کروائیں۔ نیز اس عمر سے بچیوں کو پردے کا ذہن دینا شروع کریں۔ مردوں، لڑکوں،cousins سے الگ کرنا شروع کر دیں۔اسی طرح اب مردوں سے قرآن پاک اور دیگر تعلیم نہ دلوائیں کہ نو سال کی عمر کے بعد بچی بالغہ ہو سکتی ہے۔بچّےاور بچّیوں کو شروع سے ہی الگ رکھا جائے۔ بچّیوں کو شروع سےہی دوپٹے اور اسکارف(Scarf) وغیرہ کی عادت ڈالی جائے ۔سات سال کی عمر سے ان باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ۔

(11)اسی عمر میں آہستہ آہستہ بچے کی عقل کے مُطابق اسلامی عقائد بتائے جائیں۔وضو و نماز کی عملی مشق کروائی جائے،غسل و تیمم کرنے ، روزہ رکھنے اور کپڑے پاک کرنے کا طریقہ بتایا جائے(مثلاً کہا جائے کہ اگر کپڑے پر خون لگ گیا تو یوں پاک ہوگا وغیرہ) ۔

(12)اب اس کے اخلاق اچھے کرنے کے لیے مہلکات(یعنی ہلاکت میں ڈالنے والے کام) مثلاً حرص وطمع ، حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، رِیا، عجب، تکبُّر، خِیانت، کِذب، ظُلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہکی خرابیاں بیان کرے، ہو سکے تو ایسی کہانیاں سنائے کہ ان چیزوں کی نفرت پیدا ہو اسی طرح منجیات(یعنی نجات دلانے والی باتوں) مثلاً توکل، قناعت، زُہد، اِخلاص، تواضع، اَمانت، صِدق، عدل، حیا، سلامتِ صُدُور و لسان وغیرہ کی خوبیاں بیان کرے،ہو سکے تو ایسے واقعات سنائے کہ ان چیزوں کی محبّت پیدا ہو(ایسی کہانیوں کے لیے بھی www.farzuloom.net مُفید ہے)۔ نوٹ: پوائنٹ نمبر ۱۰، ۱۱ ،۱۲ کے لیے دارالمدینہ، مدرسۃ المدینہ، جامعۃ المدینہ وغیرہ کا نصاب فائدہ مند ہو سکتا ہے ۔

(13)اب پہلے درجے کی کتابیں شروع کر دیں تاکہ بالغ ہونے سے پہلے یہ بچے فرض علوم جاننے والے ہوں۔بچوں کی اس تربیت کی اہمیت کو اس بات سے سمجھیں کہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نابالغ نے وقت میں نماز پڑھی تھی اور اب آخر وقت میں بالغ ہوا، تو اس پر فرض ہے کہ اب پھر پڑھے ۔ (بہار شریعت،۱/۴۴۴ ،مسئلہ ۵ ) کہ جو نماز پہلے پڑھی تھی وہ نفل تھی اور اب بالغ ہونے کے بعد اس وقت کی نماز فرض ہوگئی۔۔

(14)جب بچّہ ۱۲ سال کا ہو تو باپ اور بچّی نو سال کی ہو تو ماں اسے خصوصی مسائل خود سیکھائے، ہر گز ہر گز کسی اور کے سپرد یہ کام نہ کرے۔ ۔

(15)پہلے درجے کے بعد بیٹا ہو تو سورۃ المائدہ اور بیٹی ہو تو سورۃ النور کا ترجمہ کنزالایمان(تفسیر کے ساتھ) پڑھائے یا اس سے ختم کروائے اور ہو سکے تو اس کے اختتام پر گھر میں (پردے اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ) تقریب رکھے تاکہ ان سورتوں کی تعلیم کی رسم پڑ جائے۔۔

(16)انسان عموماً اپنی زندگی کا سب سے بڑا حصّہ اپنے بچوں کی امّی کے ساتھ گذارتا ہے،بچوں کی تربیت کی مہم میں بچوں کی ماں کو اپنا مُعاون بنانا ضروری ہے۔ اسےعلم و عمل ، زہد وتقویٰ میں اپنا رفیق سفر بنانے کے ساتھ ساتھ ،نیکی کی دعوت وتربیتِ اولاد کی تربیت کے لیے دعوتِ اسلامی کے ماحول اور دینی کاموں سے عملی طور پر وابستہ کریں تاکہ تربیتِ اولاد کے اس فریضے کو سرانجام دینا آسان ہوجائے۔ اس کا بہترین وقت شادی کے فوراً بعد کا ہے کہ گرم لوہے کو موڑنا آسان ہوتا ہے۔یاد رہے! مرد پرعورت کے جو حقوق ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ نیک باتوں ،حیاء اور پردے کی تعلیم دے۔(فتوی رضویہ جلد۲۴، ص۳۷۲ ماخوذاً)۔

(17)) بچے کے بالغ ہونے کے بعد بھی قرآنِ پاک پڑھتے رہنے اور فرض علوم کا مطالعہ کرتے رہنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ اُسے ہمارا دیا ہوا دوسرا اور تیسرا درجہ پڑھنے کی بھی تلقین کریں اور محبت بھرے انداز میں پوچھ گچھ بھی جاری رکھیں۔

(18)بچوں کی تربیت کے حوالے سے مزید معلومات حاصِل کرنے کے لیے فیضانِ مَدَنی مذاکرہ قسط 24”بچوں کی تربیت کب اور کیسے کی جائے؟“اور فیضانِ مَدَنی مذاکرہ قسط38 ”چھٹیاں کیسے گزاریں “کا مُطالعہ کیجیے ۔

مدرسۃ المدینہ آن لائن لنک
www.quranteacher.net

مدرسۃ المدینہ لنک
www.madrasatulmadina.net

دار المدینہ لنک
www.darulmadinah.net

مختلف دینی کرسز لنک
www.madanicourses.com

فرض علوم سیکھنے کے لئے
www.farzuloom.net

عملی زندگی (practical life )سے پہلے والدین، اولاد کی یہ تربیت کریں:

اگر آپ اپنے بچّوں کوکاروبار (business)میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں یا آپ کا کوئی خاندانی پیشہ (family profession) ہے اور آپ کے خاندان کے بچّے وہی کام کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ بچّہ پیدا ہوتے ہی کام کاج شروع نہیں کر دیتا۔ بچّوں کو کاروبار پر لگانے سے پہلے:

(1) قرآنِ مجید اور نماز پڑھنا سیکھائیں۔

(2) درست اسلامی عقیدے(beliefs) سیکھائیں

(3) ضرورت کے شرعی مسائل سیکھائیں (ان سب کی اوپر تفصیل بیان ہو چکی ہے، کم از کم پہلے درجے(first level) کی کتابیں کسی سنی عالم سے پڑھوائیں اور اگر خود صلاحیت(ability) ہو تو خود سیکھائیں) ( )۔ ۴) پھر چاہیں تو کاروبار یا نوکری کروائیں مگر بچّہ سمجھ دار(sensible) ہو تواُسے علم دین سیکھنے سیکھانے کے کام میں مصروف (busy) رہنے دیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے ذہین(intelligent) بچّے کو علمِ دین پڑھایا جائے کہ اللہ پاک کی راہ میں اپنی سب سے اچھی چیز پیش کرنی چاہیےلیکن ہر گھر میں کم از کم ایک عالِم ضرور ہونا چاہیے، جیسا کہ امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہبھی اسکی ترغیب(motivation) دلاتے ہیں۔ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: سب سے پہلے بچوں کو قراٰنِ مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائی جائیں، روزہ و نماز و طہارت(یعنی وضو وغیرہ) اور بیع و اِجارہ (یعنی خرید و فروخت اور ملازم (employee) رکھنے یا ملازم بننے) و دیگر معاملات کے مسائل جن کی روز مرہ (day-to-day) ضرورت پڑتی ہے اور علم نہ ہونے کی وجہ سےدین اور شریعت کے خلاف کام ہو جاتے ہیں، اُ ن کی تعلیم ہو۔ اگر دیکھیں کہ بچے کوعلم ِ دین میں دلچسپی رکھتا ہے اور سمجھ دار ہے تو علم دین کی خدمت سے بڑھ کر کیا کام ہے اور اگر حیثیت نہ ہو تو دُرست عقیدے(beliefs) اور ضروری مسائل سکھانے کے بعد جس جائز کام میں لگانا چاہیں، لگا سکتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ج۲ص ۲۵۶ ، مُلخصاً) لڑکی کو بھی اسلامی عقیدے (Islamic beliefs) اورضروری مسائل سکھانے کے بعد کسی عورت سے سلائی اور نقش و نگار وغیرہ ایسے کام سکھائیں جن کی عورَتوں کو اکثر ضرورت پڑتی ہے اور کھانا پکانے اور دیگر گھر کے کام کاج کو اچھے انداز سے سیکھانے کی کوشش کریں کہ اچھے انداز سے کام کرنے والی عورت جس انداز سے زندَگی گزار سکتی ہے دوسری عورت اس طرح نہیں گزار سکتی۔ (بہارِ شریعت ج۲ ص۲۵۷، مُلخصاً)

چند گزارشات(requests):

(1) ہر اسکول ، مدرسے اور دینی علوم کے اداروں کی انتظامیہ(institutional management) کو چاہیے کہ وہ اپنا نصاب (syllabus) اس طرح بنائیں کہ جس عمر میں جو سیکھانا چاہیے، وہ بچے سیکھ لیں۔

(2) والدین کو چاہیے کہ جس دینی ودنیاوی ادارے (institution)سے بچے کو وابستہ کر رہے ہیں، اس کےنصاب(syllabus ) کا جائزہ (review)لیں ، اگراس میں فرض علوم وغیرہ شامل نہ ہوں تو اپنے بچوں کے لیے فرض علوم سکھانےکا انتظام(arrangement) کریں اور اگر فرض علوم شامل ہوں تو یہ دیکھیں کہ آپ کا بچہ ان فرض علوم کوحاصل کرنے میں صحیح طور پر مصروف (busy) ہےیا نہیں۔

(3) دینی پبلیشرز(publishers) کو چاہیے کہ بچوں کی عمر کے مطابق، سنّی علما کی رہنمائی (guidance) میں نصاب (syllabus) تیار کریں تا کہ والدین خود یہ نصاب پڑھا سکیں۔

(4) والدین کو چاہیے کہ بچوں کو صرف قاری صاحب سے قرآن پڑھوانے کو کافی(enough) نہ سمجھیں بلکہ ایسے اساتذہ کا انتخاب (teacher select)کریں کہ جو انہیں ضروری علم بھی پڑھائیں۔

(5) دینی تعلیم دینے والے اداروں (یا وہ ادارے جو آن لائن پڑھاتے ہیں) کو چاہیے کہ وہ ایسے والدین کے لیے ہفتہ وار چھٹی(weekend) میں ضروری علوم حاصل کرنے کا انتظام(arrangement) کریں کہ جو اپنے بچوں کو دینی اداروں میں نہیں پڑھاتے مگر اس ہفتہ وار دینی پڑھائی میں قرآنِ پاک ، اذکارِ نماز(یعنی نماز میں تلاوت کے علاوہ جو کچھ پڑھا جاتا ہے) اور فرض و لازم علم سیکھنے کا ہی نصاب( syllabus) رکھیں۔

(6) والدین اگر کوئی انتظام(arrangement) نہ کر سکیں تو وہ ان موضوعات (topics )پر سنّی علما کی لکھی ہوئی کتابوں سے مدد حاصل کریں نیزwww.farzuloom.net وزٹ کیجئے۔

فرض علوم کے بعد مُباح و جائز علم کا حاصل کرنا

جو فرض علوم حاصل کر لے وہ مباح وجائز علم بعض شرطوں(conditions) کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ ا علیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں: ہاں جوشخص ضروریات دین مذکورہ (یعنی فرض اور لازم علم) حاصل کر چکا ہے، تو اب اقلیدس (geometry)،حساب(mathematics)،مساحت(trigonometry)،جغرافیہ(geography) وغیرہا وہ(جائز) فنون(یعنی علم) پڑھ سکتا ہے کہ جن میں کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہو تو اب یہ ایک جائز کام ہوگا اور اس پڑھنے میں یہ بھی شرط (condition)ہے کہ اس پڑھنے کے دوران بھی کوئی واجب نہ چھوٹے، کوئی گناہ کا کام نہ ہو ۔( فتاوی رضویہ ج ۲۳،صفحہ۸۴۶، مُلخصاً) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ان ضروریات اور قرآن عظیم پڑھنے کے بعد پھر اگر اردو یاگجراتی کی دنیوی کتاب جس میں کوئی بات نہ دین کے خلاف ہو نہ بے شرمی کی، نہ اخلاق وعادات پر برااثر ڈالنے کی، اور پڑھانے والی عورت سنّی مسلمان پارسا(یعنی نیک)حیادار ہوتو(چھوٹے نابالغ بچوں کو ان سے پڑھوانے میں) کوئی حرج نہیں، وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔

فرض چھوڑ کر نفل میں مصروف (busy) ہونا

حضرتِ ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کہتے ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اﷲ پاک فرماتا ہےکہ جو میرے کسی ولی سےدشمنی کرے تو میری طرف سے اس کے خلاف جنگ کا اعلان ہےاور میرا بندہ جن اعمال (یعنی نیک کاموں)کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے اور میرا بندہ نفل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری،۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲) حضرت ِ مفتی احمد یار خان (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) حدیثِ پاک کے اس حصّے ((میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہےان میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند فرض عبادت ہے))کےبارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں: یعنی مجھ تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں،مگر ان تمام راستوں میں مجھ سب سے زیادہ پسند فرض کو ادا کرنا ہے اسی لیے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ فرض کے بغیر نفل قبول(accept) نہیں ہوتے۔ افسوس ان لوگوں پر جو فرض عبادات میں سستی کریں اور نفل پر زور دیتے ہیں ۔ اور اس حصّے ((اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہےحتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں))کے بارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں :یعنی بندہ مسلمان فرض عبادت کے ساتھ نفل بھی ادا کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا پیارا ہوجاتا ہے کیونکہ و ہ فرض اور نفل دونوں طرح کی عبادت کرتا ہے(مرقات)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض چھوڑ کر نفل ادا کرے۔ محبّت سے مراد کامل (یعنی مکمل) محبّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۳/۳۰۸،مُلخصاً) یاد رہے کہ فرض و واجب ا ور سنّت مؤکدّہ کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا نفل عبادت میں مصروف (busy) ہونے سے بہت اہم (very important)ہے۔ امام اہلسنّت ، اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان (رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) کچھ اس طرح فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت(اور ثواب) والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب بنے تو اب یہ عمل مستحب نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام بُراکام ہے۔(فتاوی رضویہ،۷/۴۱۰، مُلخصاً) بلکہ یہاں تک فرمایا: جوفرض چھوڑ کر نفل میں مشغول(مصروف۔busy) ہو حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود(یعنی نامقبول۔Unacceptable) ہے۔(فتاوی رضویہ،۲۳/۶۴۸،مُلخصاً) ایک اورجگہ پر کچھ اس طرح فرماتے ہیں: اے عزیز(یعنی اے پیارے بھائی)! فرض خاص سلطانی قرض (یعنی فرض اللہ پاک کی طرف سے ایک لازم کام )ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ(gift)۔ قرض نہ دیجیے اورفضول تحفے بھیجیے ، وُہ کیسے قبول (accept) ہوں گے ؟ خصوصاً (specially)اس بارگاہ میں یعنی اللہ پاک کی بارگاہ میں کہ جوسب سے بڑا بادشاہ ، تمام کائنات(universe) اور کائنات والوں سے بے نیاز (یعنی اُسے کسی کی بھی ضرورت نہیں)ہے۔۔۔ (پھر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حدیثِ پاک نقل فرمائی)جب مسلمانوں کے پہلے خلیفہ،صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی موت کا وقت ہوا تو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ، فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر !اﷲ پاک سے ڈرنا اور جان لو کہ اﷲ پاک کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں رات میں کرو ، تو قبول(accept) نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انہیں دن میں کرو ، تو مقبول(accept) نہ ہوں گے اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول(accept) نہیں ہوتا ، جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پھر فرمایا کہ حضورِ غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب شریف میں فرض چھوڑ کر نفل عبادت کرنے والوں کو بہترین مثالوں سے سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت(service) کے لیے بلائے ۔ یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور اس کے غلام کی خدمت میں موجود رہے ۔ پھر کچھ آگے مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ، علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْمکا فرمان لکھا:جو فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مشغول ہوگا ، یہ قبول (accept) نہ ہوں گے اور وہ شخص خوار(یعنی ذلیل) ہو گا۔ (فتاوی رضویہ،۱۰/۱۷۹۔۱۸۰،ماخوذا)

صَلُّو ا عَلی الْحَبِیب ! صلّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد